Sunday 31 December 2017

November 19th, 2017

If Pakistan is standing today, it is because Allah has chosen Pak army to defend this Medina e Sani....and we are the defenders of this Pak army...alhamdolillah


https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/videos/1488948621159944/

If Pakistan is standing today, it is because Allah has chosen Pak army to defend this Medina e Sani....and we are the defenders of this Pak army...alhamdolillah

If you hear anyone speaking against Pak army and against our mission of Takmeel e Pakistan, know this well that he is a munafiq OR a kafir, OR a mushrik or a Kharji....this is a simple test....

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/videos/1488948621159944/








کیپٹن روح اللہ ایک پروانہ جو وطن کے دیے پہ جل مرا۔





کیپٹن روح اللہ ایک پروانہ جو وطن کے دیے پہ جل مرا۔

کیپٹن روح اللہ مہمند جو کوئٹہ حملے میں شہید ہوئے انتہائی نایاب صلاحتیوں کے مالک تھے۔ وہ پاکستان آرمی کے ان افسران میں سے تھے جن کی آپریشنز میں حصہ لینے کی تعداد سینکڑوں میں ہوتی ہے۔ جب باچا خان یونیورسٹی پر دھشت گردوں نے حملہ کیا تو ان کے خلاف کاروائی کرنے والے کمانڈوز میں وہ شامل تھے۔ کرسچیئن کالونی پہ دھشت گرد حملہ آور ہوئے تو ان کو جہنم واصل کرنے میں بھی کیپٹن روح اللہ مہنمد شریک تھے۔ مردان کچہری پر دھشت گردوں کے حملہ کے بعد کیپٹن روح اللہ مہمند ریسکیو ٹیم کا حصہ تھے۔

آپریشن ضربِ عضب کے بعد وہ پاکستان آرمی کے ان نایاب ینگ آفیسرز میں سے ایک تھے جنہوں نے 750 سے زائد انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز (IOBs) میں حصہ لیا۔ یوں لگتا ہے خطرات سے کھیلنا کیپٹن روح اللہ کو پسند تھا۔ یا شائد موت کی آنکھوں میں بار بار آنکھیں ڈال کر اسے چیلنج دینا کیپٹن روح اللہ شہید کو محبوب تھا۔

انہوں نے چار سو سے زائد دھشت گردوں کو گرفتار کیا اور دس کو اپنے ہاتھوں سے جہنم واصل کیا۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کی طرف سے تعریفی سند سے نوازا جانا تھا انہیں مگر اللہ نے جلد اپنے پاس بلا لیا۔ کوئٹہ حملے میں پولیس کیڈٹس کو دھشت گردوں سے بازیاب کروانے کے دوران اندھیرے کمرے میں ان کوایک دھشت گرد کی موجودگی کا احساس ہوا۔ وقت اتنا کم تھا کہ اگر نشانہ لے کر فائر کیا جاتا تو دھشت گرد بلاسٹ کر دیتا اور اگر نشانہ خطا جاتا تو بھی وہ بلاسٹ کر دیتا۔ وہاں شائد چالیس پچاس کیڈٹس تھے اندھیرے کمرے میں۔ ہنگامی صورتحال میں جب کسی بھی لمحے دشمن کی گولی آپ کی پیشانی میں سوراخ کر سکتی ہو یا کسی بمبار کی جیکٹ پھٹ کے آپ کو چیتھڑوں میں تبدیل کر سکتی ہو آپ کے پاس فیصلہ کرنے کےلیے لمحے سے بھی کم وقت ہوتا ہے۔ جن کیڈٹس کی آپ جان روح اللہ بچانے گئے تھے ان کو بچانے کا واحد طریقہ یہی تھا کہ خودکش بمبار کے پھٹنے سے پہلے اس پر گر کر دھماکے کی شدت کم کر دی جائے۔ تا کہ باقی لوگوں کا جانی نقصان کم سے کم ہو۔ ایک کیڈٹ جو اس کمرے میں موجود تھا کہتا ہے ہماری آنکھوں کے سامنے کیپٹن روح اللہ مہمند نے اس دھشت گرد پر چھلانگ دی۔ اور اس کے ساتھ ہی دھماکہ ہو گیا۔ وہ جتنی زندگیاں بچا سکتے تھے اپنی جان دے کر بچا گئے۔

عام زندگی میں ہر کوئی خطرات سے دوچار ہوتا ہے۔ یقینا ہم میں سے کئی ایسے ہوں گے جن کو موت کے خطرے سے سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر ایمانداری سے بتائیں یقینی موت کی صورت میں جو جوان یہ کہتے ہیں "ٰI am going to lead from the front Sir" ان کے متعلق یہ کہہ دینا کہ تنخواہ کےلیے لڑتے ہیں کتنا بڑا ظلم ہے؟ وہ جو ہماری طرف آنے والی گولیوں کو اپنے سینے پہ ٹھنڈا کر دیتے ہیں ان کی جگہ پر خود کو رکھ کہ سوچیں تو آپ کو ضرور اندازہ ہو گا کہ یہ کتنا تکلیف دہ ہوتا

Copied from outside source

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/photos/a.109687115752775.23119.109463862441767/1489132774474862/?type=3&theater

No comments:

:)) ;)) ;;) :D ;) :p :(( :) :( :X =(( :-o :-/ :-* :| 8-} :)] ~x( :-t b-( :-L x( =))

Post a Comment