Tuesday 31 December 2019

December 30th, 2019



https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/photos/a.115682355153251/2622217297833065/?type=3&theater





 غزوۂ ھند ابھی باقی ھے۔۔۔!!


https://www.facebook.com/watch/?v=881380602279251

غزوۂ ھند ابھی باقی ھے۔۔۔!!

https://www.facebook.com/watch/?v=881380602279251

Tuesday 24 December 2019

December 25th, 2019

This was his last speech...the powerful guidelines to set up an Islamic economic model for Pakistan and rejecting the modern banking system based on usury and fiat currency...


https://www.facebook.com/watch/?v=2659442574151295

This was his last speech...the powerful guidelines to set up an Islamic economic model for Pakistan and rejecting the modern banking system based on usuary and fiat currency...
This speech of Quaid has been removed from all archives....never shown on media or taught in universities....the most powerful responce to the mafia of modern banking....
It's time to resurrect the great revolutionary ideals of Quaid. .
Those who call him secular and only quote one out of context line from his August 11 speech...should just drop dead.....

https://www.facebook.com/watch/?v=2659442574151295


 

He was the greatest Muslim leader of the 20th century....A man of profound faith, sterling character, unfathomable courage and rock solid determination...defeated the British empire & Hindutwa alone...


Here he has a message for his nation for the crisis we face today



https://www.facebook.com/watch/?v=1684264218371894

He was the greatest Muslim leader of the 20th century....
A man of profound faith, sterling character, unfathomable courage and rock solid determination...defeated the British empire & Hindutwa alone...
Here he has a message for his nation for the crisis we face today.

https://www.facebook.com/watch/?v=1684264218371894

Friday 20 December 2019

December 20th, 2019

یہ حیرت انگیز بات نہیں ہے کہ نعمت اللہ شاہ ولی نے صدیوں پہلے آج کے پاکستان کے بارے میں کتنا سچ لکھا تھا۔۔ ؟

 









یہ حیرت انگیز بات نہیں ہے کہ نعمت اللہ شاہ ولی نے صدیوں پہلے آج کے پاکستان کے بارے میں کتنا سچ لکھا تھا۔۔ ؟

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/2599063496815112?__xts__[0]=68.ARDW2Z533VhhMPTzKaOALfzLhaTKLDyB821UdnNRR5ty0VkqQpsLW01Z6oMn7I_Q16yltmOhOVfMssDrKg3jwOoxXdHo4CcWAFE3GDuIpszSz64Q52WQcWTYxKTr-xyWX8iEKYPJ3Y4IMGP4PIdVn3Y1hpgs9X2VlGSSjLRRgGXHTw59OYjKYnYyeBnvuxkmnTwXiwWVWLMUiCiTra9x2r45KF-Lm1vVHHLXox4iAN1bAEFgJDN3dhHkucpCgq7E6AQa6OzLvXmf0HNOdB7dDodZCYSo-xiPO4ZvWoY5wm2_Bk_vlY4Sne9UyNnEXwxjFrh16RKsv5oBY2dnNhLJUDTKUA&__tn__=-R

Thursday 19 December 2019

December 19th, 2019


عدالتی دہشت گردی



*عدالتی دہشت گردی*

تحریر : سید زید زمان حامد

سیانے کہتے ہیں کہ اگراپنی صفوں میں غداروں کو تلاش کرنا ہو تو یہ دیکھیں کہ عین میدان جنگ میں اپنی ہی فوج کے خلاف کون کارروائیاں کررہا ہے، کون حملے کررہا ہے، کون اس کے حوصلے پست کررہا ہے، کون پیٹھ میں خنجر مار رہا ہے۔۔۔۔غدار کی صرف یہی نشانی ہے۔۔۔!

یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی دن بھارتی مشرک پاکستان پر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ کشمیر آتش فشاں بنا ہوا ہے، پورا ہند احتجاج کی آگ میں تہہ و بالا ہورہا ہے اور ہندو صیہونی آزاد کشمیر اور پاکستان پر حملے کیلئے تلواریں تیز کرچکے ہیں۔ ایسے میں مشرف فیصلے سے پوری فوج کو غدار قرار دینا کس قسم کی بے شرمی ہے۔۔۔؟

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ میں افتخار چوہدری جیسے ناپاک اور پلید، خوارج کے حمایتی جج موجود ہیں، کہ جن کی کیاری وہ خود لگا کر گیا تھا۔ مشرف فیصلے نے ثابت کردیا ہے کہ پاکستان پر ”عدالتی دہشت گردی“ بھی حملہ آور ہے۔ معاشی دہشت گرد، خوارج دہشت گرد اور ابلاغی دہشت گرد ہی کیا کم تھے کہ اب ایک نئی مصیبت ”قانونی دہشت گرد“ بھی پیدا ہوگئے، چاہے وکیلوں کی شکل میں ہوں یا ججوں کی۔

یہ فیصلہ مشرف کے خلاف نہیں ۔۔۔ پوری پاک فوج اور ریاست پاکستان کے خلاف ہے!
ذرا ان دو ججوں کی تحقیق تو کریں، کیا پس منظر ہے ان کا، کیا ماضی ہے، کیا کردار رہا ہے، کن کن دہشت گرد تنظیموں کے لیے یہ ”مسیحا“ بنے رہے ہیں، کتنے دہشت گردوں کو انہوں نے رہا کیا ہے، خوارج اور پی ٹی ایم سے ان کا کیا تعلق ہے۔۔۔سب کچھ سامنے آجائے گا۔۔۔!

مشرف کیس کے شرمناک عدالتی فیصلے کے بعد اب عمران اور جنرل باجوہ کا امتحان شروع ہوتا ہے۔ پاکستان کے اندر موجود غداروں اور خائنوں کو بہت ز یادہ ڈھیل دینے کا نتیجہ اب یہ نکلا ہے کہ عین میدان جنگ میں پوری پاک فوج کو ہی بے عزت کرنے کی سازش کی گئی ہے، حوصلہ پست کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ایک ریاستی ادارے کی جانب سے پاک فوج کو غدار قرار دینا اور اپنے ان تمام ججوں کو بری کردینا کہ جنہوں نے جنرل مشرف کے تمام اعمال کو ”قانونی تحفظ“ فراہم کیا، نہ صرف بدنیتی ہے بلکہ بے شرمی اور بذات خود غداری ہے۔

اب ججوں کا بھی احتساب ہونا لازم ہے، اور فوج کرے گی۔۔۔!

...............

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/2596551057066356?__xts__[0]=68.ARBsG2QVwozSoBt7aTYxhqfJh_ApfMSX6YPIo9pwuJg4zlZ5lDCqRNusymFmi7aOb8cHvKqCMIOkyHGXNrFdd7QjR1uIQwCXDskVjJ8FfgApSO6Kc9xo0hy13vvyPkVonTykO9yKeLT6HZwikrZMt7QYId6f-Vv4upQozzaJSFKmMfeNsCKxQFf9-6fZZYv5arzXsfP1rXjOAhmnlVBTfxbMdAWnegPIfobu5d8gvcR7jSrmZQYPwoBWNJtKe2n94CWCfZsChKiUZx3zrD10z00t34ucZZJddZZueCu86BY2zHLXTWrQdz-k2N-DP5BzuXSfTmNeEqkX3_u7oTozhA&__tn__=-R

Sunday 15 December 2019

December 15th, 2019

*سقوط ڈھاکہ*
*عیاری وغداری کی شرمناک داستان*

*قسط-7*

*ننگ ملت، ننگ قوم*








*سقوط ڈھاکہ*
*عیاری وغداری کی شرمناک داستان*

*قسط-7*

*ننگ ملت، ننگ قوم*

*تحریر: سید زید زمان حامد*

شیخ مجیب کو جب اگرتلہ غداری کیس میں سے سیاستدانوں نے زبردستی بری کروادیا تو اب اس کے سامنے مشرقی پاکستان کو توڑ کر الگ ملک بنانے کا راستہ صاف ہوگیا تھا۔ مگر انتخابات میں حصہ لینے کیلئے اس نے انتہائی مکاری سے اپنا منشور 6 نکات کی شکل میں پیش کیا، کہ جو ظاہراً تو صوبائی خودمختاری کے حوالے سے تھے، مگر ان کے پیچھے مکمل بغاوت اور مرکز سے علیحدگی کی سازش چھپی ہوئی تھی۔

ان چھ نکات کے تحت صرف دفاع اور خارجہ پالیسی مرکزی حکومت کے ہاتھ میں ہونی تھی اور اس کے علاوہ تمام معاملات صوبوں کو منتقل کیے جانے تھے۔ یہاں تک کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کی کرنسی بھی علیحدہ ہونی تھی، علیحدہ سٹیٹ بینک ہوتا، علیحدہ ٹیکس کا نظام ہوتا اور علیحدہ داخلی سیکورٹی اور پیراملٹری کا نظام۔ یعنی الیکشن میں جانے سے پہلے ہی شیخ مجیب اپنے ناپاک ارادوں کو مکمل طور پر ظاہر کرچکا تھا۔

الیکشن کے بعد یحییٰ خان مجبور ہوگیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں بلائے۔ مگر بھٹو نے جوابی دھمکی دی کہ مغربی پاکستان سے اگر کوئی قومی اسمبلی کا رکن ڈھاکہ گیا تو ”اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی“۔ اور پھر اس سلگتے بھڑکتے ماحول میں مجیب کو مخاطب کرکے صاف کہہ دیا کہ ”ادھر تم، ادھر ہم“۔

جونہی مجیب نے بھٹو کی جانب سے یہ پیغام سنا، اس نے مشرقی پاکستان میں فوری طور پر مکمل بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے خانہ جنگی کا آغاز کردیا۔ اب مشرقی پاکستان کی علیحدگی کیلئے باقاعدہ مسلح جنگ شروع کردی گئی تھی۔

مغربی پاکستان میں اس دوران گو کہ فوجی حکومت تھی مگر وہ ایک مفلوج اور کمزور انتظامیہ تھی اور تمام تر اختیار اب بھٹو کے ہاتھ میں آچکا تھا کہ جو مجیب کی بغاوت کے بعد فوجی حکمرانوں کے ساتھ مل کر مغربی پاکستان میں اپنی آنے والی حکومت کو مستحکم کررہا تھا۔ بھٹو کے پلان میں بھی یہ بات شامل تھی کہ مشرقی پاکستان کو اب پاکستان سے علیحدہ ہی کردیا جائے اور وہاں موجود فوج کو قربانی کا بکرا بنا کر اپنے مقاصد کیلئے ایسی جنگ میں جھونک دیا جائے کہ جس میں خود پاکستان کے حکمران اپنی ہی فوج کی پشت میں خنجر مارہے تھے۔ اسی دوران مجیب الرحمن کو گرفتار کرکے مغربی پاکستان میں نظر بند کردیا گیا تھا۔

1971 ءکا پورا سال ہی مشرقی پاکستان میں جنگ اور خانہ جنگی میں گزر رہا تھا۔ 22 نومبر کو بھارتی فوج نے بھی بین الاقوامی سرحد پار کرکے مشرقی پاکستان پر بھرپور حملے کا آغاز کردیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں موجود پاک فوج کی صورتحال اب اس قدر نازک ہوچکی تھی کہ اب سوال جنگ جیتنے کا نہیں بلکہ پاک فوج کو وہاں سے باعزت نکالنے کا تھا۔

دسمبر 1971 ءکے دوسرے ہفتے میں اقوام متحدہ کا اجلاس بلایا گیا کہ جس میں پولینڈ نے قرارداد پیش کی کہ جس کے مطابق مشرقی پاکستان سے پاک فوج کو باعزت نکلنے کا راستہ دیا جائے گا اور مشرقی پاکستان کو آزادی دے دی جائے گی۔ 8 دسمبر کو صدر یحیی نے بھٹو کو اس اجلاس میں شرکت کیلئے امریکہ روانہ کیا۔ بھٹو ٹال مٹول کرتا ہوا 5 روز کے بعد 13 دسمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پہنچا اور ایک ڈرامے باز دھویں دار تقریر کی کہ جس میں ہزار سال تک لڑنے کا اعلان کیا گیا، اور پھر اسی ڈرامائی انداز میں پولینڈ کی قرارداد کو پھاڑ کر ہال سے باہر نکل گیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب سقوط ڈھاکہ میں صرف دو دن باقی رہ گئے تھے، اور پاک فوج کو مشرقی پاکستان سے باعزت نکالنے کا یہ آخری موقع تھا، اس کے باوجود بھٹو کی یہ شرمناک حرکت پوری پاکستان قوم کو ایک گہرا زخم لگا گئی۔

سقوط ڈھاکہ کے وقت کہ جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو اس وقت بھی بنگالیوں کا کمینہ بابائے قوم پاکستان کی قید میں تھا۔ قدرت کی طرف سے بھٹو اور موقع دیا جارہا تھا کہ وہ پاکستانی جنگی قیدیوں کو شیخ مجیب کے بدلے باعزت رہا کرواسکے۔ مگر یہاں بھی اس کی مکاری اور غداری آڑے آئی۔ بھٹو نے فوری طور پر بغیر کسی شرط کے شیخ مجیب کو باعزت رہا کردیا اور اسے مشرقی پاکستان بھجوا دیا گیا۔ گرفتار ہونیوالی پاک فوج اور پاکستانی سویلین اب مکمل طور پر بھارتیوں اور بنگالیوں کے رحم و کرم پر تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ بھٹو کسی بھی صورت میں مشرقی کمانڈ کے گرفتار شدہ فوجیوں کو پاکستان نہیں لانا چاہتا تھا کہ جو اس کے خلاف غم و غصے میں بھرے ہوئے تھے۔ اس کا مقصد تھا کہ پہلے کئی سال بھارت کی جیلوں میں سڑایا جائے اور جب اس کے قدم مضبوط ہوجائیں تب اس فوج کو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں کی شکل میں واپس لایا جائے اور یہی اس نے کیا۔ کئی برس تک بھارت کی قید میں رہنے کے بعد شملہ معاہدے کے تحت ان 35 ہزار فوجیوں اور چند ہزار سول شہریوں کو اس طرح آہستہ آہستہ واپس لایا گیا کہ پہلے اور آخری دستے کے درمیان تقریباً 10 ماہ کا عرصہ حائل ہوا۔

پہلے دو ڈھائی سال انتہائی بھارت کی قید میں چھوڑا گیا اور پھر واپسی کا سفر بھی گھسیٹ کر ایک سال تک طویل کردیا گیا۔ واپس آنے والے اکثر افسروں کو ریٹائر کردیا گیا یا پھر اس طرح بکھیر دیا گیا کہ وہ حکومت کیلئے کوئی خطرہ نہ بن سکیں۔

مغربی پاکستان میں حکومت سنبھالنے کے فوراً بعد بھٹو نے اپنے دیئے گئے مشن کے ایک اور اہم پہلو پر فوری عملدرآمد کیا۔
پاکستان کی تمام صنعت کو قومی تحویل میں لے پیپلز پارٹی کے جیالوں کے حوالے کردیا گیا۔ پچھلے دس برس میں کی گئی صنعتی ترقی یک مشت ایک فیصلے سے تباہ و برباد کردی گئی اور پاکستان آج تک اس تباہی سے باہر نہیں آسکا۔

(جاری ہے۔۔۔)

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/2587045781350217?__tn__=K-R




*سقوط ڈھاکہ*

*عیاری وغداری کی شرمناک داستان*


*آخری قسط*


*انتقام قدرت۔۔۔*



*سقوط ڈھاکہ*
*عیاری وغداری کی شرمناک داستان*

*آخری قسط*

*انتقام قدرت۔۔۔*

*تحریر: سید زید زمان حامد*

پاکستان کو توڑنے کے تین بڑے کردار تھے۔

بھٹو، مجیب اور اندرا گاندھی

دور حاضر کی تاریخ میں کم ایسی مثالیں ہونگی کہ جب ملک کی دو سب بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہ اس قدر غدار، سفاک، انسان دشمن اور غلیظ ہوں۔
مجیب الرحمن کے ہاتھوں پانچ لاکھ سے زائد بے گناہ پاکستانی مسلمان مشرقی پاکستان میں انتہائی بے دردی سے ذبح کیے گئے۔ اس کے اس گناہ میں ذوالفقار علی بھٹو مکمل طور پر شریک جرم تھا۔ ملک کا وزیراعظم بننے اور اقتدار حاصل کرنے کی ہوس نے ان دونوں ناپاک اور پلید سیاستدانوں کو دشمنوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنا کر رکھ دیا۔

مگر مکافات عمل فطرت کا ایک مستند اصول ہے۔

بنگلہ دیش کا بابائے قوم شیخ مجیب الرحمن اپنی حکمرانی کے مزے بھی نہ اٹھا سکا اور 1975 ءمیں بھارتی یوم آزادی کے ہی دن یعنی 15 اگست کو اپنی ہی فوج کے ہاتھوں خاندان سمیت بے دردی سے اپنے ہی گھر میں قتل کردیا گیا۔

اندرا گاندھی کہ جو بنگلہ دیش کے قیام کو ”ہزار سالہ ذلت “ کا انتقام قرار دے رہے تھی، 1984 ءمیں اپنے ہی محافظوں کے ہاتھوں قتل کردی گئی۔ کچھ عرصے بعد اس کا بیٹا راجیو گاندھی بھی خود بھارت کے تیار کردہ تامل دہشت گردوں کے ہاتھوں بری طرح سے قتل ہوا اوراس کا دوسرا بیٹا سنجے گاندھی طیارے کے حادثے میں ہلاک ہوگیا۔

تیسری طرف بھٹو جس نے مغربی پاکستان میں حکومت حاصل کرنے کے بعد ظلم و دہشت گردی کا بازار گرم کیا ہوا تھا، بالآخر قتل کے ایک مقدمے میں 1979 ءمیں پھانسی چڑھا دیا گیا۔ وہ شخص جس کے بارے میں برطانوی سفیر نے برسوں پہلے پیشن گوئی کی تھی کہ یہ شخص بالآخر پھانسی چڑھایا گیا، وہ من و عن پوری ہوگئی۔

بھٹو کے مرنے کے بعد اس کے دونوں بیٹوں اور بیٹی نے الذوالفقار نامی دہشت گرد تنظیم بنا کر ایک مرتبہ پھر پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کیں۔ مگر جلد ہی مرتضیٰ بھٹو اپنے ہی بہنوئی آصف زرداری کے ہاتھوں کراچی کی سڑکوں پر مارا گیا۔
اس کا بھائی شاہ نواز بھٹو ملک شام میں اپنی افغان بیوی کے ہاتھوں زہر سے مارا گیا۔ اور بیٹی بینظیر بھٹو 2007 ءمیں راولپنڈی میں دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل کردی گئی۔
مرتضیٰ بھٹو کا بیٹا ذوالفقار علی بھٹو جونیئر ایک ہیجڑا اور ہم جنس پرست بن چکا ہے اوریورپ کی سڑکوں پر ناچ ناچ کر نشان عبرت بنا ہوا ہے۔ بینظیر کا بیٹا بلاول زبردستی بھٹو کا جانشین بننے کی کوشش کررہا ہے مگر نہ تووہ بھٹو ہے اور نہ ہی اس کا کوئی مستقبل۔
بھٹو خاندان، شیخ مجیب اور اندرا کے خاندان کی طرح نشان عبرت بنایا جاچکا تھا۔

بزرگ کہتے ہیں کہ یہ پاکستان حضرت صالحؑ کی اونٹنی کی طرح ہے، جس نے بھی اسے نقصان پہنچایا، وہ خود بھی عبرت کا نشان بنایا گیا ہے، اور اس کی نسلیں بھی تباہ کردی جائیں گی۔

سانحہ مشرقی پاکستان کے کرداروں کا انجام اس ازلی ابدی حقیقت کی زندہ مثال ہے۔

یہ پاک سرزمین ان شاءاللہ ہمیشہ قائم رہنے کیلئے بنی ہے، اس پر سایہءخدائے ذوالجلال بھی ہے اور سیدی رسول ﷺ کی نگاہ کرم بھی۔
اس پاکستان کو چوٹ تولگ سکتی ہے، مگر جو تقدیر اللہ اور اسکے رسولﷺ نے اس مدینہءثانی کے نصیب میں لکھ دی ہے وہ تبدیل نہیں ہوسکتی۔ اس پاکستان نے اب پھیلنا ہے، غزوئہ ہند بھی ہونا ہے اور آنے والے وقتوں میں اسی قوم و ملک سے وہ وعدہ بھی کیا گیاہے کہ جس کی بشارت ہے کہ:

” لیا جائے گا تجھ سے کام، دنیا کی امامت کا“

پاکستان ان شاءاللہ قائم رہے گا، صرف لوگ خوش نصیب اور بدنصیب ہونگے۔ آج نہ نماز کام آئے گی، نہ روزہ کام آئے گا، نہ حج کام آئے گا، نہ کوئی نیکی کام آئے گی، اگر کسی نے اللہ کے رسولﷺ کی اس امانت، اس پاک سرزمین سے خیانت کی۔ پاکستان کے حکمرانوں کو یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے۔ بھٹو اور مجیب کو سمجھ نہیں آئی تھی۔

ختم شد
٭٭٭٭٭

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/2587456724642456?__tn__=K-R


Saturday 14 December 2019

December 14th, 2019

*سقوط ڈھاکہ*

عیاری وغداری کی شرمناک داستان


قسط-5

*"Bhutto: Born to be Hanged"*

Part-1




*سقوط ڈھاکہ*
عیاری وغداری کی شرمناک داستان

قسط-5
*"Bhutto: Born to be Hanged"*
Part-1

تحریر: سید زید زمان حامد

اس سے پہلے کہ ہم سانحہ سقوط ڈھاکہ میں بھٹو کی غداری پر بات کریں، مناسب ہوگا کہ بھٹو کی شخصیت اور کردار کے بارے میں پاکستان میں تعینات برطانوی سفیر کی رائے پڑھ لیں۔ حیرت انگیز طور پر مردم شناس برطانوی سفیر بھٹو کے بارے میں جس قدر سفاک انداز میں سچائی بیان کرتا ہے وہ یقینا حیران کن ہے۔

”یقینا بھٹو کے پاس وہ تمام خصوصیات تھیں کہ جو بلندیوں تک پہنچانے میں مددگار ہوتی ہیں: جوش، سحر انگیزی، تخیل، ذہانت، زندگی کی رنگینیوں کا شوق، فصاحت و بلاغت، توانائی، مضبوط اعصاب، رگ ظرافت اور بہت ہی موٹی کھال۔ایسا امتزاج شاذ و نادر ہی کسی میں پایا جاتا ہے اور یہی بھٹو کے اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کا باعث تھا۔ مگر ان سب کے باوجود.... میں کیسے کہوں.... اس کے وجود سے آتش جہنم کی غلیظ بدبو آتی تھی۔وہ حقیقتاً انتہائی درجے تک فاسد شدہ شیطان تھا۔

میرے لیے یہ بالکل واضح تھا کہ اس کے دل میں نہ تو کوئی شرم حیاءہے اور نہ ہی دوسرے انسانوں کیلئے کوئی عزت۔اس کی نظر میں سوائے اس کی اپنی ذات کے کسی اور چیز کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔مجھے اس کی ذات میں ایسی سفاکی اور ظلم کرنے کی صلاحیت نظر آئی کہ جو غیر معمولی اور غیر فطری تھی۔اس کی تمام تر صلاحیتوں کے باوجودمجھے پورا یقین تھا کہ ایک دن بھٹو اپنے آپ کو تباہ کروالے گا۔ کب؟ یہ میں نہیں بتا سکتا تھا۔

1965 ءمیں برطانوی ہائی کمشنر کی حیثیت سے اپنے ایک مراسلے میں اپنے نقطے کو واضح کرنے کیلئے میں نے لکھا کہ:
”بھٹو پیدا ہی اس لیے ہوا ہے کہ اس کا انجام پھانسی پر ہو۔“

مجھے اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ میرا یہ تبصرہ 14 برس کے بعد اس طرح حقیقت کا روپ دھار لے گا۔“

(سر جیمز مورس، پاکستان میں برطانوی سفیر، 1961-1965ء)

یہی شیطانی ذہنیت اور غلاظت کی حد تک خوشامد کرنے کی صلاحیت بھٹو کو 1950ءکی دہائی میں ہی اقتدار کے ایوانوں تک لے جاچکی تھی۔ صدر پاکستان سکندر مرزا کو لکھے گئے ایک خط میں بھٹو انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے لکھتا ہے:
” جب بھی پاکستان کی حقیقی تاریخ لکھی جائے گی، تو اس میں آپ کا نام یقینا مسٹر جناح کے نام سے بھی اوپر لکھا جائے گا۔“
اور پھر سکندر مرزا کے اقتدار سے ہٹتے ہی بھٹو نے یہی خوشامد اور بوٹ چاٹنے کا عمل جنرل ایوب خان کے ساتھ شروع کردیا اور جلد ہی ایوب خان کو اپنا ”ڈیڈی“ کہنے لگا۔ ایوب خان کی فوجی کابینہ میں بھٹو واحد سویلین تھا، اور اس کو وزارت خارجہ کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ بھٹو کی زندگی کا مقصد وزارت خارجہ پر رکنا نہیں بلکہ وزیراعظم بننا تھا، اور اس مقصد کیلئے اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود اس کا ”ڈیڈی“ تھا۔

یہ وہ دور تھا کہ جب پاکستان میں صنعتی اور زرعی ترقی میں پوری دنیا کو حیران کررہا تھا۔ چین اور جنوبی کوریا کے انجینئر پاکستان آکر تربیت حاصل کررہے تھے، ڈیم اور نہریں بنائی جارہی تھیں، پاکستان ڈیزل انجن، ٹینک اورہوائی جہاز بنانے جارہا تھا اور پی آئی اے دنیا کی بہترین ایئر لائن تھی۔ یہ سب باتیں پاکستان کی دشمن عالمی طاقتوں کے ذہن میں بری طرح کھٹک رہی تھیں۔ ایوب خان نہ صرف ایک مضبوط فوجی حکمران تھے بلکہ ہر دلعزیز بھی۔ ایوب کو اقتدار سے ہٹانے کا صرف ایک ہی طریقہ تھا کہ ان کے خلاف ایک عوامی تحریک چلائی جائے اور اس کیلئے ایوب خان کو ایک جنگ کی ضرورت تھی۔ اس کا مقصد تھا کہ اگر جنگ میں پاکستان کو شکست ہوجاتی ہے تو پھر ایوب خان کو اقتدار سے ہٹانا آسان ہوجائے گا۔

معروف پاکستانی سفارتکار اکرم ذکی اس حوالے سے اپنی ذاتی معلومات کی بنیاد پر کہتے ہیں:

”بھٹو کہا کرتا تھا کہ صدر ایوب خان کو ہٹانے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ بھارت سے جنگ چھیڑ دی جائے“۔

1965 کے انہی دنوں میں فوجی ہائی کمان میں کشمیر کی تحریک آزادی کی حمایت اور مسلح جدوجہد کے حوالے سے سوچ پائی جاتی تھی۔ بھٹو نے ایوب کو یقین دلایا کہ اگر پاکستان کشمیر پر چڑھائی کردے تو عالمی طاقتیں مداخلت نہیں کریں گی، اور یہ کہ جنگ صرف کشمیر تک ہی محدود رہے گی۔

آپریشن جبرالٹر کا آغاز اگست 1965 ءمیں کیا گیا کہ جس کے تحت پاکستانی کمانڈو دستوں کو مقبوضہ کشمیر میں اتار دیا گیا اور پاکستانی فوج اکھنور پر قبضے کیلئے آگے بڑھنے لگی۔ عین اس وقت یعنی 3 ستمبر 1965 ءکو بھارت میں موجود پاکستانی ہائی کمشنر ارشد حسین نے وزارت خارجہ کو ایک اہم انتباہی ٹیلی گرام بھیجا گیا کہ بھارت 6 ستمبر کو بین الاقوامی سرحد عبور کرکے پاکستان پر حملہ کرنے جارہا ہے۔ یہ مراسلہ بھٹو نے پڑھا اور خاموشی سے اپنی میز پر ہی چھوڑ دیا اور ایوب خان کو اس کی اطلاع نہیں دی۔

اس شدید ترین غداری کا انجام یہ ہوا کہ 6 ستمبر کی صبح دشمن لاہورپر اور پھر سیالکوٹ پر پوری طاقت سے حملہ آور ہوگیا اور نزدیک تھا کہ یہ دونوں شہر پاکستان کے ہاتھ سے ہی نکل جاتے۔ پاک فوج ان شدید حملوں کیلئے بالکل تیار نہیں تھی کیونکہ بھٹو ایک جانب تو یہ یقین دہانی کرائی ہوئی تھی کہ بھارت بین الاقوامی سرحد کے پار حملہ نہیں کرے گا اور دوسری جانب حملے کی اطلاح بروقت ملنے کے باوجود اسے فوجی قیادت تک نہیں پہنچایا گیا۔ یہ ناقابل معافی اور نہ ناقابل تلافی غداری تھی۔ (جاری ہے۔۔۔)

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/2584970841557711?__tn__=K-R



















سقوط ڈھاکہ

عیاری وغداری کی شرمناک داستان


قسط-6


"Bhutto: Born to be Hanged"

Part-2





سقوط ڈھاکہ
عیاری وغداری کی شرمناک داستان

قسط-6

"Bhutto: Born to be Hanged"
Part-2

تحریر: سید زید زمان حامد

بھٹو کو امید تھی کہ 65 ءکی جنگ میں پاکستان کو شکست ہوگی اور اس کے نتیجے میں ایوب خان کو اقتدار سے الگ کردیا جائے گا۔ مگر جنگ کا نتیجہ اس کے توقع کے خلاف نکلا۔ نہ صرف یہ کہ پاک فوج نے پاکستان کا بھرپور دفاع کیا بلکہ اس کے نتیجے میں ایوب خان بھی مزید طاقتور اور ہردلعزیز حکمران بن کر ابھرا۔ اب بھٹو کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا سوائے اسے کے کہ سول نافرمانی کے ذریعے ایوب خان کے خلاف بغاوت برپا کی جائے۔

65 ءکی جنگ کے نتائج صرف بھٹو کیلئے ہی نہیں بلکہ پاکستان کے تمام دشمنوں کیلئے خطرے کی گھنٹی تھے۔ اس سے قبل پاکستان بڑی تیزی سے صنعتی و زرعی انقلاب کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اس جنگ کے بعد پاکستان ایک بھرپوری عسکری قوت کے طور پر بھی دنیا کے سامنے ابھرا۔ عالمی طاقتوں کے سامنے اب تین اہداف تھے۔

-1 ایوب خان کو راستے سے ہٹایا جائے، اور ناپاک اور خائن سیاسی حکمرانوں کو اقتدار منتقل کیا جائے۔

-2 پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس کی افرادی اور عسکری قوت کو تباہ کیا جائے۔

-3 پاکستان میں برپا ہونیوالے بھرپور صنعتی و زرعی انقلاب ہر حال میں روکا جائے۔

ان مقاصد کو پورا کرنے کیلئے مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان میں بھٹو کو منتخب کیا گیا۔

65 ءکی جنگ کے بعد کہ جب بھٹو پاکستان کا وزیرخارجہ ہی تھا تو پاکستان اور بھارت کے درمیان روس کے شہر تاشقند میں ایک جنگ بندی کا معاہدہ ہوا، کہ جس میں پاکستان کی جانب سے ایوب خان اور بھٹو اور بھارت کی جانب سے وزیراعظم شاستری نے دستخط کیے۔
تاشقند سے واپس پہنچتے ہی بھٹو نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا اور اپنی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھ دی۔ عین اسی وقت مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن نے بھارت کے شہر اگرتلہ میں بھارتی فوج اور را سے رابطہ کرکے مشرقی پاکستان میں مسلح بغاوت برپا کرنے کے مکمل پلان پر عمل درآمد شروع کردیا۔ بعد میں یہ سازش پکڑی بھی گئی اور مشہور ”اگرتلہ سازش کیس“ کے نام سے جانی گئی۔ ایوب خان شیخ مجیب پر غداری کا مقدمہ چلانا چاہتا تھا، مگر بھٹو نے اب مغربی پاکستان میں ایک منظم سیاسی بغاوت کا آغاز کردیا تھا اور اس کیلئے اس نے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں خصوصاً شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ اتحاد کرلیا تھا۔
جس طرح حالیہ دور میں صدر مشرف کے خلاف وکلاءتحریک بڑھتے بڑھتے تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے تحریک مزاحمت بن گئی تھی، بالکل اسی طرح سیاسی جماعتیں ایوب خان کے خلاف منظم و متحد ہوتی چلیں گئیں۔

نوابزادہ نصراللہ خان، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی اور حتیٰ کہ آج کے دور کے شیخ رشید بھی بھٹو کے ساتھ مل کر ایوب خان کے خلاف ملک میں خانہ جنگی اور فساد برپا کرنے لگے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے ایوب حکومت پر دباﺅ ڈالا کہ مجیب الرحمن کے خلاف غداری کے مقدمات کوواپس لیا جائے اور ملک میں نئے انتخابات کروائے جائیں۔ 1969ءتک حالات اس قدر خراب ہوچکے تھے کہ ایوب خان کو استعفیٰ دینا پڑا اور اقتدار اس وقت کے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کے حوالے کردیا، کہ جس نے سیاسی دباﺅ میں آکر ملک میں انتخابات کروانے کا اعلان کردیا۔

اب صورتحال یہ بن چکی تھی کہ مشرقی پاکستان مکمل طور پر مجیب الرحمن اور اس کے دہشت گرد گروہ مکتی باہنی کے کنٹرول میں جا چکا تھا اور مغربی پاکستان میں بھٹو کی پیپلز پارٹی سب سے مضبوط جماعت کے طور پر سامنے آچکی تھی۔

1970 ءکے انتخابات کے نتائج بھی وہی سامنے آئے کہ جو متوقع تھے۔ یعنی مشرقی پاکستان میں مکمل طورپر مکتی باہنی کے دہشت گردوں کے ذریعے مجیب نے اکثریت حاصل کرلی، اور مغربی پاکستان میں بھٹو نے اکثریت حاصل کرلی۔

300 کی قومی اسمبلی میں مجیب کے 160 نشستیں اور بھٹو کی 81 نشستیں تھیں۔

اب صورتحال انتہائی خطرناک ہوچکی تھی اور مکمل طورپر فوج کے کنٹرول سے باہر تھی۔ یحییٰ خان فوجی حکمران تو تھا مگر انتخابات کروانے کے بعد مزید مارشل لاءلگانے کا نہ تو کوئی جواز نہ اور نہ ہی فوج ان سیاسی جماعتوں سے تصادم کا راستہ اختیار کرسکتی تھی۔ مجیب الرحمن کو وزیراعظم بنانے کا مطلب صرف یہ تھا کہ اندرا گاندھی کو پاکستان کا وزیراعظم لگا دیا جائے۔ مگر دوسری جانب اپنی اقتدار کی ہوس کی وجہ سے بھٹو بھی کسی صورت میں مجیب کو وزیراعظم بنتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ ان دو غداروں کی آپس کی جنگ اور حصول اقتدار کی ہوس نے پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔

(جاری ہے۔۔۔)

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/photos/a.1643903065664498/2585582184829910/?type=3&theater

Friday 13 December 2019

December 13th, 2019







*سقوط ڈھاکہ*

عیاری وغداری کی شرمناک داستان


قسط-4


 *غداری اور سرفروشی*



*سقوط ڈھاکہ*
عیاری وغداری کی شرمناک داستان

قسط-4

*غداری اور سرفروشی*

تحریر: سید زید زمان حامد

جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ 1970 ءکے انتخابات کہ جنہیں جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی بیانیے کی وجہ سے ”شفاف ترین“ انتخابات کہا جاتا ہے ہی دراصل پاکستان توڑنے کا سبب بنے۔

پاکستان کی قومی اسمبلی کل 300 نشستیں تھیں۔ اس میں سے شیخ مجیب نے مشرقی پاکستان میں 160 نشستیں جیت لیں۔مغربی پاکستان میں بھٹو نے 81 سیٹیں حاصل کیں۔

اول تو شیخ مجیب کی غداری اور مسلح بغاوت کا پلان 1966 ءمیں واضح ہوجانے کے بعد یہ انتخابات کروانا ہی ملک توڑنے کے مترادف تھا، اور مزید رہی سہی کسر پھر بھٹو نے پوری کردی کہ جس نے مغربی پاکستان میں اعلان کردیا کہ جو ممبر قومی اسمبلی ڈھاکہ جا کر پارلیمان کے اجلاس میں شرکت کرے گا، ”میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا “۔۔۔ اور پھر مجیب کو مخاطب کرکے جلتی پر مزید تیل یہ کہہ کر ڈال دیا کہ ”ادھر تم، ادھر ہم۔۔۔“

شیخ مجیب جوپہلے ہی بغاوت کرکے ملک توڑنے پر تلا ہوا تھا، اس کیلئے بھٹو کے یہ بھڑکا دینے والے بیانات ہی کافی تھے کہ وہ مارچ کی 15 تاریخ کو مکمل آزادی اور بغاوت کا اعلان کردے۔

اس وقت مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی فوج کے صرف 9 ہزار افسر اور جوان تھے۔ ان کے مقابلے میں 9 ہزار پاک فوج کی وہ بنگالی رجمنٹیں تھیں کہ جنہوں نے پاکستان سے غداری کرکے بغاوت کردی تھی، اور اب دیگر بنگالی پولیس، رینجرز اور مکتی باہنی کے ڈھائی لاکھ دہشت گردوں کے ساتھ مل کر پورے مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں کا قتل عام شروع کرچکی تھی۔ یہ تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ جب پاک فوج کے دستے خود پاک فوج کے خلاف لڑرہے تھے۔ بنگالی افسروں نے بڑی سفاکی اور بے رحمی سے مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے افسروں اور جوانوں کو شہید کیا، ان کے خاندانوں اور عورتوں اور بچوں کو بے دردی سے بے حرمت کرکے ذبح کیا گیا۔ 15 مارچ سے لیکر 25 مارچ تک مشرقی پاکستان حکومت پاکستان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ لاکھوں کی تعداد میں غیر بنگالی پاکستانی مسلمانوں کو پورے مشرقی پاکستان میں ذبح کیا جاچکا تھا۔ ایسی خطرناک صورتحال تھی کہ پورے مشرقی پاکستان کے دفاع کیلئے صرف 9 ہزار پاک فوج چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں کی شکل میں ہر طرف پھیل کر پاکستان کا دفاع کرنے کی آخری کوشش کررہی تھی۔ ایسے میں مغربی پاکستان سے فوج کے دو ڈویژن تقریباً 24 ہزار فوج مزید بھیجی گئی، کہ جس کے پاس صرف رائفلیں اور چھوٹے ہتھیار تھے۔ بھارت اپنی فضائی حدود بند کرچکا تھا، لہذا اس فوج کو پی آئی اے کے طیاروں میں سری لنکا کے ذریعے ڈھاکہ بھجوایا گیا۔ نہ تو اس فوج کے پاس توپخانہ تھا، نہ ٹینکوں کے دستے اور نہ ہی طیارہ شکن توپیں۔ 25 مارچ کو جب یہ فوج ڈھاکہ پہنچ گئی تب مکتی باہنی کی دہشت گردی کے خلاف پہلی منظم کارروائی شروع کی گئی، کہ جو 22 نومبر تک جاری رہی۔ اس دوران پاک فوج نے انتہائی نامساعد حالات اور محدود ترین وسائل کے باوجود جرا ¿ت اور دلیری کے نئے باب رقم کیے۔ بھارتی فوج مکتی باہنی کی صفوں میں باقاعدہ شامل ہوکر پورے مشرقی پاکستان میں گوریلا جنگ کررہی تھی۔ لاکھوں کی تعداد میں بھارتی فوج اور مکتی باہنی کے گوریلوں کے مقابلے میں 34 ہزار کے قریب پاک فوج کے پیادہ دستے پورے مشرقی پاکستان میں اس طرح پھیلے ہوئے تھے کہ کسی ایک مقام پر بھی ایک مکمل یونٹ یعنی تقریباً 800 سے زائد فوج بھی موجود نہ تھی۔ اس کے باوجود نومبر کے آخر تک پاک فوج نے مکتی باہنی کی تمام تر بغاوت اور مزاحمت پر کافی حد تک قابو پا لیا تھا۔ مگر 22 نومبر کو پانچ لاکھ بھارتی فوج چار اطراف سے مشرقی پاکستان پر حملہ آور ہوتی ہے۔

اب جنگ کی صورتحال یہ تھی کہ کئی مقامات پر بھارتی فوج کے ایک ڈویژن (12 ہزار فوج) کے مقابلے میں پاک فوج کی صرف ایک بٹالین (یعنی 800 )کے قریب سپاہی تھے۔ دشمن کے ایک بریگیڈ (یعنی 3000 فوج) کے مقابلے میں پاک فوج کی صرف ایک کمپنی (یعنی صرف150 سپاہی) مزاحمت کررہے تھے۔

جمال پور گریژن کے کرنل سلطان، کمال پور کے کپتان احسن ملک اور ہلی کی پہاڑیوں کا دفاع مشرقی پاکستان کی جنگ کی ایسی رومانوی داستانیں ہیں کہ خود دشمن بھی پاک فوج کی دلیری اوربہادری پر عش عش کر اٹھا۔

بھارتی فوج کے سپہ سالار جنرل مانک شاہ نے بذات خود کپتان احسن ملک کو خط لکھا اور تسلیم کیا کہ کمال پور کا دفاع اتنا شا ندار تھا کہ اس نے پوری بھارتی فوج کو ورطہءحیرت میں ڈال دیا تھا۔کیپٹن احسن ملک نے صرف 40 سپاہیوں کے ساتھ بھارتی فوج کے تین ہزار بھاری فوج کے دستوں کو تین ہفتے تک روکے رکھا۔

ہلی کی جنگ میں ہی مشرقی پاکستان کے محاذ پر پاک فوج کے میجر محمد اکرم کو پہلا نشان حیدر دیا گیا تھا۔
جنرل مانک شاہ پاکستان فوج کی جرات و بہادری کو یوں بیان کرتا ہے:

”پاک فوج مشرقی پاکستان میں انتہائی جانبازی سے لڑی مگر ان کی جیت ناممکن تھی۔ وہ اپنے مرکز سے ایک ہزار میل دور تھے۔میرے پاس تیاری کیلئے آٹھ سے نو ماہ تھے۔ مجھے اپنے حریف پر 50 بمقابلہ 1 کی برتری حاصل تھی۔اس سوال میں ان کے جیتنے کا سوال ہی نہ تھا، مگر پھر بھی وہ جرا ¿ت و بہادری سے لڑے“۔

یہ درست ہے کہ آخر میں ہمیں مشرقی پاکستان میں شکست ہوئی، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ دلیری اور بے جگری سے لڑنے والی فوج بھی وہی تھی کہ جو مشرقی پاکستان میں اپنے ساتھ پچاس گنا زیادہ بڑے دشمن کے خلاف بڑی بے سروسامانی کے عالم میں یقینی موت کو سامنے دیکھ کر بھی پاکستان کے دفاع کیلئے لڑتی رہی۔

دنیا کی کوئی بھی فوج اپنی صفوں میں غداروں کے ہوتے ہوئے جنگ نہیں جیت سکتی چاہے کتنی ہی سرفروشی اور جانثاری سے کیوں نہ لڑے، اور یہی کچھ پاک فوج کے ساتھ مشرقی پاکستان میں ہوا۔

(جاری ہے۔۔۔)

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/2582489088472553?__tn__=K-R




آپ سب براس ٹیکس کے مشن کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ الحمدللہ، یہ پاکستان کے دفاع کی ایک مضبوط ترین چٹان ہے۔

آپ میں سے جو اس مشن کو جاری رکھنے کیلئے مالی تعاون کرنا چاہتے ہیں، اب آپ کرسکتے ہیں۔ ہمیں وسائل کی ضرورت ہے




آپ سب براس ٹیکس کے مشن کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ الحمدللہ، یہ پاکستان کے دفاع کی ایک مضبوط ترین چٹان ہے۔
آپ میں سے جو اس مشن کو جاری رکھنے کیلئے مالی تعاون کرنا چاہتے ہیں، اب آپ کرسکتے ہیں۔ ہمیں وسائل کی ضرورت ہے۔
آپ مجھ پر کوئی احسان نہیں کریں گے، بلکہ یہ آپ پر اللہ کا احسان ہوگا۔

اگر آپ مشن کے لیے اللہ کے دیئے ہوئے رزق میں سے کچھ دینا چاہتے ہیں تو ہمیں ای میل کیجیئے۔

syedzaidzamanhamid@gmail.com

آپ کو تفصیلات بتا دی جائیں گی۔
پاکستان اور امت رسولﷺ کا دفاع آپ سب کی بھی ذمہ داری ہے۔۔۔

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/2582838225104306?__xts__%5B0%5D=68.ARBpWnB39QcOO2aRk3wdM3euEjIbZD3iejXgUStvY05aa_aNOEQ5r76FyRFZRapraKWqkpdB0aL9iwMymvxdOV_8O9gZCSPNRBFlm1QBcNoYkBQKeC_m4qEutx5qBBbLhoF1G_KKMSeb-YQZ2vSFz03OPWFxVkSqdqfNoiOvlrlTmiQe2Esn0WYkURQ4otADLuhBort37p2UdggB7bs34lcJO-cXYxT9FGd1w39u1qpBG5DARrHR7JDAT-DDsR3h9qaFLGgpQvGHN1i_cheiDJju9KnKhQb8aXP9RZuIF-q-w4H_e3hiLJI9ECpHdM5M70ICM4XnEHS37Wy3G_NV_w&__tn__=-R

Thursday 12 December 2019

December 12th, 2019

سقوط ڈھاکہ

عیاری وغداری کی شرمناک داستان
قسط-3

مشرقی پاکستان آگ و خون کا کھیل۔۔۔



سقوط ڈھاکہ

عیاری وغداری کی شرمناک داستان
قسط-3

مشرقی پاکستان آگ و خون کا کھیل۔۔۔

تحریر: سید زید زمان حامد

آج ہم سقوط ڈھاکہ کے پس منظر میں ہونیوالی اپنوں کی غداریوں اور دشمنوں کی عیاروں پر مزید بات کرتے ہیں۔

آج ایک طائرانہ جائزہ لیں گے کہ اس وقت مشرقی پاکستان اور آج کے بنگلہ دیش میں آگ و خون کا کیا کھیل کھیلا جارہا تھا۔شیخ مجیب کے غنڈوں اور کرائے کے قاتلوں جنہیں دنیا مکتی باہنی کے نام سے جانتی ہے، انہوں نے مشرقی پاکستان میں وہ قتل وغارت گری کی، وہ فساد مچایا، وہ ظلم و ستم کی داستانیں رقم کیں کہ تاریخ ہلاکو خان اور ہٹلر کو بھول گئی۔ ظلم و ستم کی ایسی داستانیں کی جنہیں پڑھ کر انسانیت شرما جائے۔

ایک اور جھوٹ جو پاکستان میں آج تک بولا جاتا ہے وہ یہ کہ 1970 کے انتخابات پاکستان کی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ پورے مشرقی پاکستان میں مکمل طور پر مجیب کی دہشت گرد تنظیم مکتی با ہنی کی حکومت تھی اور مجیب کے کسی مخالف کو کھڑا ہونے یا الیکشن جیتنے کی اجازت ہی نہیں دی گئی۔

1966 ءمیں ہی جب اگرتلہ سازش پکڑی گئی تھی توواضح ہوچکا تھا کہ شیخ مجیب ایک کھلا غدار ہے اور مکتی باہنی جیسی دہشت گرد تنظیم بنا کر ریاست پاکستان کے خلاف بغاوت کرنا چاہتا ہے۔ اس کے باوجود مجیب کی جماعت کو اپنے دہشت گرد دستوں کے ساتھ مشرقی پاکستان میں انتخاب لڑوانا ہی ایک ایسی خوفناک غلطی تھی کہ جس کا انجام پھر سقوط ڈھاکہ پر ہی منتج ہونا تھا۔

مکتی باہنی اور مجیب الرحمن نے مارچ 1971 ءکے بعد مشرقی پاکستان میں مکمل طور پر اعلان بغاوت کرکے پاکستان کے خلاف مسلح کارروائیوں کا آغاز کردیا تھا۔ پورے مشرقی پاکستان میں پھیلے ہوئے لاکھوں محب وطن پاکستانی، کہ جن میں بنگالی اور غیر بنگالی دونوں شامل تھے، مکتی باہنی کے ہاتھوں بری طرح سے ذبح کیے جارہے تھے۔ لاکھوں پاکستانیوں کو قتل کیا گیا، ان کی عورتوں کی بے حرمتی کی گئی اورآگ و خون کا وہ شیطانی کھیل کھیلا گیا کہ 1947 کے فسادات بھی ان کے آگے شرما گئے۔ مارچ 1971 ءسے لیکر اور سقوط ڈھاکہ کے کئی ماہ بعد تک مکتی با ہنی کے دہشت گرد پورے مشرقی پاکستان میں چن چن کر پاکستان سے پیار کرنے والوں کو قتل کرتے رہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد تو خاص طور پر ہزاروں کی تعداد میں ان بنگالیوں اور بہاریوں کو قتل کیا گیا کہ جنہوں نے پاکستان کا ساتھ دیا تھا اور اب ان کی حفاظت کیلئے پاک فوج وہاں موجود نہیں تھی۔

ڈھاکہ ریس کورس گراﺅنڈ میں میلا لگایا جاتا ، جہاں مکتی باہنی کے غنڈے محب وطن پاکستانیوں کو مجمع کے سامنے سنگینیں مار کر قتل کرتے۔ مکتی باہنی کا قصائی قادر صدیقی کہ جس نے 17 ہزار گوریلوں پر مبنی اپنی ایک الگ دہشت گرد فوج بنا رکھی تھی، اور جو براہ راست شیخ مجیب الرحمن سے حکم لیتا تھا کے بارے میں ایک غیر ملکی صحافی لارنس لفشلٹنر کیا لکھتی ہیں، آپ خود ملاحظہ کریں:
”مکتی باہنی کے رہنما عبدالقادر صدیقی نے خود بندوق کی سنگینوں سے تین قیدیوں(محب وطن پاکستانیوں) کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔اس پورے واقعے کی غیر ملکی عملے نے فلم بنائی،جس کو صدیقی نے یہ تماشا دکھانے کیلئے خاص طورپر مدعوکیا تھا“۔

یہی درندہ بعد میں نہ صرف بنگلہ دیش کی قومی اسمبلی کا رکن بھی رہا، بلکہ اسے بنگلہ دیش حکومت کی طرف سے سرکاری اعزاز ” بر اتم“ سے بھی نوازا گیا۔

بنگالی ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر عبدالمومن مکتی با ہنی کے ظلم و ستم کے حوالے سے کہتے ہیں:

”پاکستان جمہوری پارٹی کے نائب صدراور پاکستان کے سابق وزیر تجارت مولوی فرید احمدکو ڈھاکہ میں نظر بند کیا گیا۔پہلے انہیں کوڑے مارے گئے،پھر ان کی جلد پر تیز بلیڈوں سے کٹ لگائے گئے،اور زخموں پر نمک پاشی کی گئی،اس وحشیانہ سلوک کے بعد انہیں موت کی نیند سلا دیا گیا،جوش و جنون میں ان کی لاش کو مسخ کرکے اس کی بے حرمتی بھی کی گئی۔“

اس طرح کے ہزاروں واقعات تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں۔

یہ درست ہے کہ اس جنگ میں کم از کم 5 لاکھ لوگ مشرقی پاکستان میں قتل ہوئے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کو مکتی باہنی کے دہشت گردوں اور بھارتی فوج نے قتل کیا۔

سانحہ مشرقی پاکستان کے تقریباً 40 برس بعد ایک بھارتی ہندو بنگالی خاتون شرمیلا بوس نے بالآخر ایک طویل تحقیقی جدوجہد کے بعد اس حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ پاک فوج پر لگنے والے تمام الزامات صرف جھوٹ اور پراپیگنڈہ پر مبنی تھے اور ان کا مقصد بھارت کے سیاسی اور عسکری مقاصد کو پورا کرنا تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ تحقیق بھی ایک سچ بولنے والی ہندو عورت نے ہی کی، مگر پاکستان میں سرکاری یا علمی طور پر ایسی کوئی تحقیق کبھی بھی نہیں کروائی گئی۔ پچھلی کئی دہائیوں سے صرف دشمن ہی کے دیئے ہوئے جھوٹے اور خرافاتی بیانیے پر معذرت خواہانہ رویہ اختیار رکھا گیا۔

1974 ءمیں پاکستان کے ایک معروف سفارتکار قطب الدین عزیز صاحب نے مشرقی پاکستان سے آنے والے سینکڑوں خاندانوں اور افراد کا ذاتی طور پر انٹرویوکرکے ایک کتاب کی شکل میں وہ پورا ریکارڈ تیار کردیا تھا کہ جس میں مکتی باہنی کے مظالم اور نسل کشی کو مکمل طور پر بے نقاب کیا گیا تھا۔ مگر اس کے باوجود نہ تو اس کتاب کو کوئی سرکاری پذیرائی دی گئی اور نہ ہی اس کی بنیاد پرکوئی قومی بیانیہ ترتیب دیا گیا، بلکہ آج یہ کتاب ہی تاریخ کے اوراق سے غائب کردی گئی ہے۔

جاری ہے۔۔۔

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/photos/a.1643903065664498/2580469952007800/?type=3&__tn__=-R

Wednesday 11 December 2019

December 11th, 2019

سقوط ڈھاکہ

عیاری وغداری کی شرمناک داستان


تحریر: سید زید زمان حامد


قسط-2



سقوط ڈھاکہ
عیاری وغداری کی شرمناک داستان


تحریر: سید زید زمان حامد

قسط-2

پچھلے کالم میں بات ہورہی تھی کہ 71 ءکی جنگ کے بعد کس نے اورکیوں افواج پاکستان کے قیدیوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ اس پر مزید بات کرتے ہیں۔

جیسے کہ بتایا جاچکا ہے کہ مشرقی پاکستان میں پاک فوج کی صرف ایک کور تھی۔ عام حالات میں ایک کور میں 50 ہزار کے قریب فوج ہوتی ہے، مگر مشرقی پاکستان میں ٹینکوں اور توپخانے کے دستوں کی غیر موجودگی کی وجہ سے یہ ایک کور بھی پوری نہ تھی۔ اس کے علاوہ پاک فوج میں موجود کئی بنگالی رجمنٹوں نے بغاوت بھی کردی تھی اور بھارتی فوج اور مکتی باہنی کے ساتھ ملکر پاک فوج کے خلاف ہی لڑنا شروع ہوگئے تھے۔ اس صورتحال میں پاک فوج کی زیادہ سے زیادہ تعداد صرف 32 ہزار سے 35 ہزار تک تھی۔ 8 ماہ کی جنگ میں اس میں سے بھی کوئی 5 ہزار کے قریب شہید یا زخمی ہوچکے تھے۔ لہذا کسی صورت میں بھی پاک فوج کی تعداد 30-35 سے زیادہ نہ تھی۔ اگر ان کے خاندانوں، عورتوں اوربچوں اور حکومت پاکستان کے دیگر سویلین ملازمین کو بھی شامل کرلیا جائے تو کل ملا کر قیدیوں کی تعداد 40-45 ہزار کے درمیان ہی بنتی تھی۔ دشمن، عالمی طاقتیں اور خود ذوالفقار علی بھٹو بھی اس حقیقت سے بہت اچھی طرح واقف تھے۔

”اگر پاکستان میں جمہوریت جاری رہتی تو اسلام آباد کو اس سانحے سے گزرنا ہی نہ پڑتا کہ جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں 40 ہزار فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔“
کرشن چندر پنت ، سابق بھارتی وزیر دفاع

”1971 ءمیں ڈھاکہ میں 35 ہزار پاکستانی فوجیوں کا 2 لاکھ بھارتی فوجیوں اورا ن کے تربیت یافتہ ایک لاکھ سے زائد بنگالیوں کے خلاف لڑنا، یقینی طور پر ناممکن تھا“
چارلس ولسن ، رکن امریکی کانگریس

اب سوال یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے ”90 ہزار“ قیدیوں کا پراپیگنڈہ تو سمجھ میں آتا ہے، مگر اس وقت کی حکومت کیوں اس جھوٹ کولیکر آگے پھیلاتی رہی۔

پاکستان میں اس وقت بھٹوکی حکومت تھی کہ جو خود سقوط ڈھاکہ کا ایک مرکزی مجرم تھا۔اس کی زندگی کا مقصد ہی پاکستان کو توڑ کر اور پاک فوج کو رسوا کرکے اقتدار پر قبضہ کرنا تھا۔ لہذا بھارت کے شرمناک بیانیے کے جواب میں حقیقت اور سچائی پر مبنی بیانیے کو پیش کرنا ہی بھٹو کے ذاتی و سیاسی مفادات کے خلاف تھا، چنانچہ پاکستان میں سانحہ مشرقی پاکستان پر ایک طرح سے سرکاری خاموشی اختیار کرلی گئی، نہ تو حقیقت بیان کی گئی، نہ ہی دشمن کے بیانیے کو رد کیا گیا اور نہ ہی سرکاری طور پر سانحہ مشرقی پاکستان کے مجرموں کو کوئی سزا دی گئی۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ بھٹو نے صرف اس لیے بنوائی تھی کہ اپنے پسندیدہ جج کے ذریعے شکست اور ذلت کا سارا ملبہ پاک فوج پر گرا کر اپنے اوردیگر سیاسی جماعتوں کے ناپاک کردار پر پردہ ڈال سکے۔

بھٹو اور مجیب کا پاکستان توڑنے میں ناپاک کردار 1965 ءکی جنگ کے بعد ہی شروع ہوچکا تھا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب پاکستان پوری دنیا میں عزت ووقار کے ساتھ ایک عظیم ترعالمی صنعتی طاقت کے طور پر ابھر رہا تھا۔ ایوب خان کا سنہری دور حکومت پاکستان میں زرعی اور صنعتی انقلاب برپا کرچکا تھا۔ دس سے زائد ڈیم بنائے جاچکے تھے، دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام تعمیر کیا جارہا تھا اور پاکستان کی صنعتیں اس قدر ترقی کرچکی تھیں کہ ہم ملک میں ہی ڈیزل انجن اور ٹینک بنانے جارہے تھے۔ 65 ءکی جنگ میں پاکستان نے پوری دنیا کو حیران بھی کیا تھا اور دشمنوں کوپریشان بھی۔ اسی لیے اس جنگ کے خاتمے کے فوراً بعد ہی عالمی طاقتوں نے پاکستان کے خلاف بھرپور سازشوں کا آغاز کردیا تھا کہ جن کا مقصد یہ تھا:

-1 ایوب خان کو فوری طورپر اقتدار سے ہٹا کر ایسے افراد کو طاقت میں لایا جائے کہ جو پاکستان کی صنعتی ترقی کو تباہ وبرباد کرسکیں۔

-2 مشرقی پاکستان کو پاکستان سے علیحدہ کردیا جائے۔

-3 65 ءکی جنگ میں افواج پاکستان نے جو دنیا میں عزت کمائی تھی اسے مٹی میں ملا کر قوم کے سامنے اسے رسوا کیا جائے۔

اس مشن کو پورا کرنے کیلئے بھارت، روس، امریکہ اور اسرائیل نے ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کا انتخاب کیا۔ 65 ءکی جنگ کے فوراً بعد ہی ذواالفقار علی بھٹو کہ جو ایوب خان کو اپنا ”ڈیڈی“ کہتا تھا، اور ایوب حکومت میں وزیر خارجہ تھا، حکومت سے الگ ہوکر سوشلسٹ نظریات پر پاکستان پیپلز پارٹی قائم کرتا ہے اور پورے ملک میں ایوب خان کو ہٹانے کیلئے تحریک کا آغاز کردیتا ہے۔

دوسری جانب مشرقی پاکستان میں اگرتلہ سازش پکڑی جاتی ہے کہ جس میں واضح ہوجاتا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن بھارت کے ساتھ ملکر مشرقی پاکستان میں مسلح بغاوت برپا کرنا چاہتا ہے اور ا س کیلئے مکتی باہنی جیسے دہشت گرد گروہ کو تیار کیا جارہا تھا۔
اب کھیل بالکل واضح ہوچکا تھا، مشرقی پاکستان میں مسلح بغاوت برپا ہونی تھی، اور مغربی پاکستان میں ایوب خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کا کام بھٹو کو دیا جاچکا تھا، تاکہ اسے اقتدار میں لا کر پاکستان کی تمام صنعتوں کو حکومتی ملکیت میں لے کر تباہ کردیا جائے۔واضح رہے کہ بھٹو نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد ہی پاکستان کی تمام صنعتوں کو قومیا کر مکمل تباہ و برباد کردیا کہ جس بربادی سے آج تک پاکستان نکل نہیں سکا ہے۔

جاری ہے۔۔۔

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/2578020235586105?__tn__=K-R

Tuesday 10 December 2019

December 10th, 2019


*سقوط ڈھاکہ*

عیاری وغداری کی شرمناک داستان

قسط-1

 


*سقوط ڈھاکہ*
عیاری وغداری کی شرمناک داستان

تحریر: سید زید زمان حامد

قسط-1

سقوط ڈھاکہ ہماری تاریخ کا ایک المناک اورعبرتناک باب ہے۔ غیروں اور دشمنوں کی مکاری اور سازشوں سے تو ہمیں کوئی شکایت نہیں کہ ان کا تو قیام پاکستان سے ہی یہی کردار رہا ہے، مگر دکھ تو اپنوں کی غداری اور حماقتوں کا ہے کہ جس کے سبب پاک سرزمین کو اس قدر گہرا زخم برداشت کرنا پڑا کہ مشرک دشمن بھی اپنے تکبر میں بول پڑا کہ ”آج ہم نے مسلمانوں کے ہزار سالہ دور حکمرانی کا بدلہ لے لیا ہے“۔

سقوط ڈھاکہ کا دکھ تو اپنی جگہ، مزید تکلیف دہ امر یہ ہے کہ سانحہ کے تقریباً نصف صدی کے بعد بھی ہم بحیثیت ریاست اور قوم نہ تو اس سانحے سے کوئی سبق سیکھ سکے اور نہ ہی ریکارڈ ہی درست کرسکے کہ وہاں ہوا کیا تھا۔

پچھلے پچاس برس سے ایک شرمناک پراپیگنڈہ دشمن کی جانب سے کیا جاتا رہا ہے کہ جسے ہماری صفوں میں موجود غدار اور جاہل دونوں ہی بغیر سوچے سمجھے آنے والی نسلوں کے ذہنوں میں زہر کی طرح گھولتے رہے ہیں۔ نہ توریاست پاکستان نے، نہ حکومتوں نے، نہ میڈیا نے اور نہ ہی دانشوروں نے تاریخ و دلیل کی بنیاد پر دشمنوں کے ناپاک پراپیگنڈے کا جواب دیا۔ حیرانی اور ا فسوس کی بات تو یہ ہے کہ خود پاک فوج نے بھی سرکاری طور پر مشرقی پاکستان کی تاریخ اور حقائق پر کوئی مستند بیانیہ قائم نہیں کیا۔دو نسلیں گزر گئیں اور ابھی تک جھوٹ، افواہ، پراپیگنڈہ اور خرافات پر مبنی بیانیہ نسل در نسل آگے لے جایا جارہا ہے۔

سقوط ڈھاکہ کے بعد حکومت پاکستان اور پاک فوج کے تمام ریکارڈ اورکاغذات دشمن کے قبضے میں چلے گئے تھے۔ دنیا نے پھر وہی بیانیہ قبول کیا کہ جو جنگ میں کامیابی حاصل کرنے والے مکار دشمن نے پیش کیا۔
مشرقی پاکستان کے حوالے سے بھارت کا سب سے ناپاک پراپیگنڈہ کہ جو آج تک جاری ہے وہ یہ ہے:

٭ 92 ہزار پاکستانی فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیئے۔

٭ پاک فوج نے 30 لاکھ بنگالیوں کا قتل عام کیا۔

٭ پاک فوج نے دس لاکھ بنگالی عورتوں کی عصمت دری کی۔

حقیقت یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں پاک فوج کی صرف ایک ”کور“ تھی کہ جس کی کمانڈ ایک لیفٹیننٹ جنرل کررہا تھا۔ مشرقی کمانڈ میں موجود اس کور میں بھی مکمل نفری نہیں تھی۔ توپخانے اور ٹینکوں کی رجمنٹوں کے بغیر صرف انفنٹری (پیادہ فوج) کے تین ڈویژن تھے، کہ جن میں سپاہ کی کل تعداد 36 ہزار سے بھی کم تھی۔ جب فوج کی مکمل تعداد ہی 36 ہزار سے کم تھی تو 92 ہزار سپاہیوں نے کس طرح ہتھیار ڈال دیئے؟

یہ ایک ایسی تاریخی گمراہی ہے کہ جسے نسل در نسل خود پاکستانی قوم میں ایک منظم سازش کے تحت پھیلایا جاتا رہا کہ جس کا مقصد قوم میں احساس ذلت و رسوائی بڑھانا اور پاک فوج کو ذلیل کرنا تھا۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ آج تک سرکاری طور پر پاکستان کی جانب سے اس جھوٹے بھارتی بیانیے کو رد کرکے تاریخ کو از سر نو بیان ہی نہیں کیا گیا۔ کیوں حکومتیں اور فوج اس جھوٹے بیانیے پر خاموش رہے، اس کا جواب تو انہی کو دینا ہے، مگر حقیقت وہی ہے کہ جو ہم بیان کررہے ہیں۔

32 سے 35 ہزار عسکری جنگی قیدیوں کے ساتھ چند ہزار سویلین بھی تھے کہ جو حکومت پاکستان کے ملازم تھے کہ جو مشرقی پاکستان میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے اور اپنے خاندان، عورتوں اور بچوں کے ساتھ وہیں رہائش پذیر تھے۔ کل ملا کر یہ تعداد 45 ہزارکے قریب تھی۔ 45 ہزار کو بڑھا چڑھا کر 92 ہزار کیوں بنایا گیا، اس کی وجوہات کیا ہیں؟ اس شرمناک پراپیگنڈے کو پاکستان میں پروان کس نے چڑھایا؟ اگلے کالم میں بیان کریں گے۔

جاری ہے۔۔۔

٭٭٭٭٭

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/photos/a.1643903065664498/2575799002474895/?type=3&theater


Monday 9 December 2019

December 8th, 2019

Dhaka fell on December 16th, 1971. East Pakistan became Bangladesh. Indira Gandhi called it "a revenge for 1000 years of Hindu slavery"... But was that a noble military victory for India?




https://twitter.com/ZaidZamanHamid/status/1203670265537945607?s=19&fbclid=IwAR3ILOH-4XdQgPi9gp7E8XrIvWlXihBj1XoL7Ha0FuW8fSIuPBDEfxIMvmY

Dhaka fell on December 16th, 1971. East Pakistan became Bangladesh.
Indira Gandhi called it "a revenge for 1000 years of Hindu slavery"...
But was that a noble military victory for India?
Parsi Indian Army chief who led the war speaks the ultimate truth!
https://t.co/yG0tVPq1ktIndia

I have always claimed that they defeated Pak in 1971 but the reality is that it was USSR which fully backed, supported, equipped Indian army/Bengali terrorist gangs to revolt. CIA wanted to break Pak too.
Mujeeb & Bhutto were the "useful idiots"...
https://t.co/46TBQfeLNP

East Pakistan debacle was a systematic failure of Pakistani state & leadership. Strong man Gen Ayub was forced to leave by treacherous politicians like Bhutto & Mujeeb.

Gen Yahya was too weak & was forced to go for elections which were a trap set by USSR/India. Rest is history! https://t.co/bQzXRYlknV

Yes, USSR/India/US wanted to break Pakistan....but they could never succeed without two traitors within Pakistan's largest pol parties -- Mujeeb & Bhutto.

Mujeeb had won the elections but Bhutto wanted to become the PM & opted to break the country!
"you rule there, we here" https://t.co/1RscmVKznF

So, what Indira Gandhi claims as the greatest Hindu victory over Muslims in a 1000 years is nothing but a sordid tale or treachery, betrayal, treason, incompetence & arrogance. There is nothing noble in it except the gallant resistance of 35 thousand Pak army, outnumbered 1:15 ..

How many Pak army was made POW in 1971?
Enemies have always claimed that 92,000 Soldiers surrendered.
This is total rubbish. There was only One under sized Corp in East Pak with 35,000 troops. Few thousand more were their families, civilians. Total less than 50K.
Rest is BS.

35 Thousand Pak army was fighting a desperate war, without air or armor support, against heavily armed half a Million Indian army & quarter a million Mukti terror gangs. Still, the last stand was heroic.. The betrayal was political & diplomatic which assured a military debacle.

We lost East Pak because Gen Ayub did not hang Mujeeb in 1966 when his treason was caught in Agartala rebellion case.
Ayub was then forced to resign & Army went into the elections with the same traitors who should have been hanged earlier
Unforgivable blunders by State elements.

Pakistan's political parties are the breeding grounds for traitors.
Back then it was Mujeeb & Bhutto.
Now every party is swarming with snakes & they rule as well.
Altaf, AZ, NS, Achakzai, Fazal, Asfandyar.....
Pakistani state organs NEVER learnt anything from fall of Dhaka!

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/2570970606291068?__xts__%5B0%5D=68.ARAWPU7-sBmJVddnxDgi1pshiAQkTSXn2EyKUpS14G7RDLtOOLfMlr9e4rxmPWZk0prRtxgiHLYmm9oJcSFQADiMI7Km00m5fsMmMSGayj6XasWHfWuVUMOgR0Z5ZbV9ccoQ6HRQSljEuQy9N295J8b-W5hif_Db35uYT2zr6f8GtRw0lWn3-Y1kqvUyWkrGydaYRE4oBXFJuHerhQWTZP3ImKwbP3ni9UmG1KT1tdTjHe78jJoqh6bj8vrBfnLEf0hXCziSoH0cYJmsVWq-PaxHBM9Gs_MeLk8tJesOc0foRHi3090MUdHWuvjn6hMYpJynDA_bMWWjeQlvLLOweBNGLQ&__tn__=-R




They attack this army because its the only thing that's keeping Pakistan together.....  Imagine, if there was no Pak army.....or they decide to take a vacation....


https://www.facebook.com/watch/?v=460801268185046

They attack this army because its the only thing that's keeping Pakistan together.....
Imagine, if there was no Pak army.....or they decide to take a vacation....

https://www.facebook.com/watch/?v=460801268185046

Saturday 7 December 2019

December 7th, 2019

جسٹس کھڑک سنگھ

جسٹس کھڑک سنگھ ...

جسٹس کھڑک سنگھ پٹیالہ کے مہاراجہ کے ماموں تھے. ایک لمبی چوڑی جاگیر کے مالک تھے۔ جاگیرداری کی یکسانیت سے اکتا کے اک دن بھانجے سے کہا، "تیرے شہر میں سیشن جج کی کرسی خالی ہے.
( اس دور میں سیشن جج کی کرسی کا آرڈر انگریز وائسرائے جاری کرتے تھے )
تو لاٹ صاحب کے نام چٹھی لکھ دے اور میں سیشن ججی کا پروانہ لے آتا ہوں"۔
مہاراجہ سے چٹھی لکھوا کے مُہر لگوا کر ماموں لاٹ صاحب کے سامنے حاضر ہو گئے.
وائس رائے نے پوچھا، نام؟ بولے، کھڑک سنگھ
تعلیم؟ بولے کیوں سرکار؟ میں کوئی اسکول میں بچے پڑھانے کا آرڈر لینے آیا ہوں.
وائس رائے ہنستےبولے
سردار جی! قانون کی تعلیم کا پوچھا ہے۔ آخر آپ نے اچھے بروں کے درمیان تمیز کرنی ہے، اچھوں کو چھوڑنا ہے، بُروں کو سزا دینی ہے.
کھڑک سنگھ مونچھوں کو تاؤ دے کر بولے، سرکار اتنی سی بات کے لئے گدھا بھر وزن کی کتابوں کی کیا ضرورت ہے؟ یہ کام میں برسوں سے پنچائت میں کرتا آیا ہوں اور ایک نظر میں اچھے بُرے کی تمیز کر لیتا ہوں.
وائس رائے نے یہ سوچ کر کہ اب کون مہاراجہ اور مہاراجہ کے ماموں سے الجھے، جس نے سفارش کی ہے وہی اسے بُھگتے۔ درخواست لی اور حکم نامہ جاری کر دیا۔ اب کھڑک سنگھ جسٹس کھڑک سنگھ بن کر پٹیالہ تشریف لے آئے.
خدا کی قدرت پہلا مقدمہ ہی جسٹس کھڑک سنگھ کی عدالت میں قتل کا آ گیا۔
ایک طرف چار قاتل کٹہرے میں کھڑے تھے، دوسری طرف ایک روتی دھوتی عورت سر کا دوپٹہ گلے میں لٹکائے کھڑی آنسو پونچھ رہی تھی.
جسٹس کھڑک سنگھ نے کرسی پر بیٹھنے سے پہلے دونوں طرف کھڑے لوگوں کو اچھی طرح دیکھ لیا۔
اتنے میں پولیس آفیسر آگے بڑھا، جسٹس کھڑک سنگھ کے سامنے کچھ کاغذات رکھے اور کہنے لگا،
مائی لارڈ! یہ عورت کرانتی کور ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ان چاروں نے مل کر اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے خاوند کا خون کیا ہے.
کیوں مائی؟ جسٹس کھڑک سنگھ نے پولیس افسر کی بات بھی پوری نہیں سنی اور عورت سے پوچھنے لگے کیسے مارا تھا؟
عورت بولی، سرکار جو دائیں طرف کھڑا ہے اس کے ہاتھ میں برچھا تھا، درمیاں والا کسی لے کر آیا تھا اور باقی دونوں کے ہاتھ میں لاٹھیاں تھیں۔ یہ چاروں کماد کے اولے سے اچانک نکلے اور مارا ماری شروع کر دی ان ظالموں نے میرے سر کے تاج کو جان سے مار دیا.
جسٹس کھڑک سنگھ نے مونچھوں کو تاؤ دے کر غصے سے چاروں ملزموں کو دیکھا اور کہا کیوں بھئی، تم نے بندہ مار دیا؟
نہ جی نہ میرے ہاتھ میں تو بیلچہ تھا کسی نہیں، ایک ملزم بولا.
دوسرا ملزم بولا جناب میرے پاس برچھا نہیں تھا ایک سوٹی کے آگے درانتی بندھی تھی پتے ۔۔۔۔ جھاڑنے والی.
جسٹس کھڑک سنگھ بولے چلو، جو کچھ بھی تمھارے ہاتھ میں تھا وہ تو مر گیا نا.
پر جناب ہمارا مقصد تو نہ اسے مارنا تھا، نہ زخمی کرنا تھا- تیسرا ملزم بولا.
جسٹس کھڑک سنگھ نے کاغذوں کا پلندہ اپنے آگے کیا اور فیصلہ لکھنے ہی لگے تھے کہ ایک دم سے عدالت کی ایک کرسی سے کالے کوٹ والا آدمی اٹھ کر تیزی سے سامنے آیا، اور بولا، مائی لارڈ آپ پوری تفصیل تو سُنیں. میرے یہ مؤکل تو صرف اسے سمجھانے کے لئے اس کی زمین پہ گئے تھے.
ویسے وہ زمین بھی ابھی مرنے والے کے نام منتقل نہیں اس کے مرے باپ سے. ان کے ہاتھوں میں تو صرف ڈنڈے تھے، ڈنڈے بھی کہاں وہ تو کماد سے توڑے ہوئے گنے تھے.
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک منٹ ۔۔
جسٹس کھڑک سنگھ نے کالے کوٹ والے کو روکا اور پولیس افسر کو بُلا کر پوچھا یہ کالے کوٹ والا کون ہے؟
سرکار یہ وکیل ہے، ملزمان کا وکیل صفائی، پولیس افسر نے بتایا.
یعنی یہ بھی انہی کا بندہ ہوا نا جو ان کی طرف سے بات کرتا ہے، جسٹس کھڑک سنگھ نے وکیل سے کہا ادھر کھڑے ہو جاؤ قاتلوں کے ساتھ. اتنی بات کی اور کاغذوں کے پلندے پر ایک سطری فیصلہ لکھ کر دستخط کر دیئے.
جسٹس کھڑک سنگھ نے فیصلہ لکھا تھا کہ چار قاتل اور پانچواں ان کا وکیل، پانچوں کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے.
پٹیالے میں تھرتھلی مچ گئی، اوئے بچو، کھڑک سنگھ آ گیا ہے جو قاتل کے ساتھ وکیل کو بھی پھانسی دیتا ہے. کہتے ہیں جب تک جسٹس کھڑک سنگھ سیشن جج رہے، پٹیالہ ریاست میں کوئی قتل نہیں ہوا.

(ڈاکٹر سید حفیظ الرحمن)

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/?__tn__=kC-R&eid=ARCNMWPKt8IqDlKMhn9nZtKro4vQEhjuX1wWUpEHURpMKmWNNBJ-FcCXk2kAvxuBUyNjW1Eft6Xw34Aw&hc_ref=ARTB0yaF_YrG3wu5lWUFv0x46MTAgAgBN_j1W8fTcGb8_Rx60Fc6Xh4gRY-52LLOMCU&fref=nf

Friday 6 December 2019

December 6th, 2019

If history is a benchmark, then these months are ideal for war between Pakistan & India. Post monsoon season when weather is dry & rivers are not flooding


https://twitter.com/ZaidZamanHamid/status/1202982387774361605?s=19&fbclid=IwAR2vNdMehWk_nOnO0lq-iSfCrScaKVbhvIwHK7kkFi5jOQjnSba-67GCOA4

If history is a benchmark, then these months are ideal for war between Pakistan & India. Post monsoon season when weather is dry & rivers are not flooding.
1965 war was fought in September.
1971 started in November & ended on December 16th.

War clouds are gathering again....December is a painful month for Pakistanis.
We suffered two deep wounds in this month...on the same date ... December 16th.

In 1971, we lost half of the country in a high intensity war where everything went wrong.

In 2014, the #APS_Massacre. Hundreds of kids /killed/wounded.

We Pakistanis are strange people....very strange indeed. We are resilient, brave, hospitable yet extremely naive, silly & dangerously reckless. We never learn from history...never!

We never learnt any lessons from fall of Dhaka or slaughter of APS children. Imagine .....!!Fall of Dhaka teaches us one critical lesson...Never blindly trust the leadership!

The collective wisdom of Military & pol leadership, of the entire state & its organs can also be so horribly wrong that it can destroy the country. 1971 was a catastrophic leadership failure...

There is a dangerous & silly trend in Pak to see all failures in the light of Civil-Military relations, both camps blaming each other for collective failures.

Fact is that 1971 was as much a military failure as it was political. If Yahya failed, then Bhutto & Mujeeb betrayed tooArrogance, ignorance & incompetence make a lethal destructive suicidal combination for any leadership. Add treason & betrayal to the mix & you have a recipe for national disaster, as we had in 1971.

On these counts, we still stand frozen in time....same lethal combination.

East Pakistan debacle gives us another critical lesson...
Once the political & military leadership collapsed or betrayed & sold the country, then in the end, the entire weight of saving the country fell on the Pakistan army. They fought desperately & bravely but it was too late..

Today, when India has annexed Kashmir & planning another invasion of Pak & stirring internal unrest to create urban chaos, I shiver when I see the insane quality of the pol leadership we have, the level of the national narrative being discussed & carnival mood in the nation.

If Pakistan has to go to war with this quality of leadership, then surely we will take huge losses before the Pak army begins to regain ground. This army will fight like tigers, I have NO doubt....but the national leadership is dangerously un-seriousness, naive & ignorant.

I am a soldier. A veteran. Have seen wars & seen how bad leadership destroys entire armies & the nation.
I will be the last person to take the present threats from the enemy lightly.
I am seeing this suicidal tendency in the Govt & the nation to ignore the threat. Dangerous!

At my age, I have passed that stage when I trust the leadership blindly. Have seen too many disasters & defeats at the hands of nincompoops jackasses that now I would only trust my own judgement & the collective wisdom of the like minded patriots when it comes to Pakistan. Yes!!

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/2566520650069397?__tn__=-R

December 5th, 2019

آپ خلافت عثمانیہ کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟


آپ خلافت عثمانیہ کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟!
٭کیا آپ کو معلوم ہے کہ خلافت عثمانیہ کے ہاتھوں 10 کروڑ غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا؟
٭کیا آپ کو معلوم ہے کہ اگر خلافت عثمانیہ نہ ہوتی تو شمالی افریقہ جیسے لیبیا اور تیونس ہسپانیہ کا حصہ بن چکے ہوتے اور ہم ان کا ذکر ایسے ہی کرتے جیسے اندلس کا کرتے ہیں؟
٭کیا آپ کو معلوم ہے کہ خلافت عثمانیہ نے عالم اسلام پر 25 بڑے صلیبی حملوں کو پسپا کیا؟
٭ کیا آپ کو معلوم ہے کہ خلافت عثمانیہ نے ہی اندلس کے سقوط کے بعد گاجر مولی کی طرح کٹنے والے مسلمانوں کی مدد کی؟
٭کیا آپ کو معلوم ہے کہ خلافت عثمانیہ نے مندرجہ ذیل ملکوں کو فتح کرکے عالم اسلام میں شامل کیا: یوگوسلاویہ، ہنگری، پولینڈ، آدھے روس، بلغاریا، مقدونیہ، رومانیا، البانیہ، یونان یوں خلافت تین براعظموں میں پھیل گئی؟
٭کیا آپ کو معلوم ہے کہ خلافت عثمانیہ وہ واحد اسلامی ریاست تھی جس کے خلیفہ کے انتقال پر پورے یورپ کے کلیساوں گھنٹی بجائے گئی اور عیسائی دنیا نے پوپ کی قیادت تین دن کا جشن اور یوم تشکر منایا؟
٭کیا آپ کو معلوم ہے کہ آخری با اختیار عثمانی خلیفہ نے فلسطین یہود کو دینے کی بجائے اپنا اقتدار قربان کیا اور کہا کہ اپنے جسم کا ٹکڑا کاٹنا مسلمانوں کی زمین کاٹ کر کسی کو دینے سے زیادہ آسان ہے؟

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/2561974280524034?__xts__%5B0%5D=68.ARAH08F9BSpLTAFHdzSzHrmEKadLvn1DVaQL1ygusbxPSL_577aPqtF8rp5Fb22jNqREjKRHcuAslw5vSSO7pp_TUj0mGM8_52h8LeJ5DUxZssDTnRWcBDXwiHhDnMgdK5l1LWTPefkndOmctb0sJ1KgmkkJit4ymgKIVmGS1SAUx2SCa4R-w_gSUC_d42RrDFZe-c8KWy8O1FNa8yl1KbMA3257YYh7GZsZxduCVkPUZBWdvc-CCMlM0zhm-IoLG5NTnw8lA5bnd2aYiwAXsdmFIiwwRpdd5EnFU7Nrmme_NhJiIkEIGwwbF2xGOS6INHai9bK9A2jw9-KmpBU0-g&__tn__=-R

Sunday 1 December 2019

November 30th, 2019


کیا آپ بھی کسی کے حصے کے بے وقوف ہیں؟
ترکش / آصف محمود


کیا آپ بھی کسی کے حصے کے بے وقوف ہیں؟
ترکش / آصف محمود

سوشل میڈیا پر ایک اودھم مچا ہے ۔ شائستہ اطوار لوگ بھی موجود ہیں مگر اکثریت ان کی ہے جنہیں دیکھ کر یقین ہو جاتا ہے واقعی ہر رہنما اپنے حصے کے بے وقوف ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے ۔ ہر قائد انقلاب کے حصے کے یہ بے وقوف سیاسی اختلاف پر ایک دوسرے کی عزت نفس کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں اور اس بات پر قدرت رکھتے ہیں کہ برسوں کے تعلقات ایک لمحے میں ختم کر دیں ۔ یہ صرف اپنے اپنے رہنما کے حصے کے مجاور ہیں ۔ ان لشکریوں کو سوشل میڈیا پر چاند ماری کرتے دیکھتا ہوں تو ایک سوال دامن سے آن لپٹتا ہے : جس سیاست پر یہ لوگ پہروں ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں اس سیاست میں ان کا مقام کیا ہے؟ پاسِ وضع میں قلم بوجھل نہ ہو جاتا تو پوچھتا اس سیاسی نظام میں ان کی اوقات کیا ہے؟

ووٹ کو عزت دو ، تبدیلی آ رہی ہے اور روٹی کپڑا اور مکان سے لے کر قوم پرستی اور اسلامی انقلاب کے نعرے اپنے حصے کے بے وقوفوں کو مزید بے وقوف بنانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ۔ روایتی سیاست کا طریق واردات تو آپ کو معلوم ہے ہی ذرا ان کی بات کر لیتے ہیں جن کا دعوی ہے وہ دوسروں سے اخلاقی طور پر برتر ہیں اور اعلی روایات رکھتے ہیں۔

چند گھرانے ہیں جنہوں نے اپنی بادشاہت قائم کر رکھی ہے ۔ دادو میں جتوئی اور پیروں کا گھرانہ ، جیکب آباد ، کندھ کوٹ کشمور میں جاکھرانی ، بجارانی اور مہر خاندان ہے ، سانگھڑ میں پگاڑا ، بالا میں مخدوم ، ٹھٹھہ اور بدین میں شیرازی اور مرزا ، تھر میں سید اور ارباب ، خیر پور میں سید اور وسان ، شکار پور میں مہر اور درانی اور نواب شاہ میں زردادی خاندان کی بادشاہت قائم ہے ۔ ڈیرہ غازی خان میں لغاری ، کھوسہ ، دریشک اور بزدار ، ملتان میں مخدوم ہی مخدوم یا بوسن، راجن پور میں گورچانی اور مزاری، مظفر گڑھ میں کھر ، جتوئی ، دستی اور قریشی ، رحیم یار خان میں گوریجے اور مخدوم، لودھراں میں کانجو ، بلوچ یا ترین ، جھنگ میں بھروانہ اور مخدوم ، خانیوال میں سید اور ہراج ، بھکر میں شوانی ، نوانی اور ڈھانڈلے اور گجرات میں چودھری اپنی اپنی ریاستوں کے بادشاہ ہیں ۔ بلوچستان میں اچکزئی ، رئیسانی ، بگتی ، مینگل اور زہری خاندان نے اپنے اپنی سلطنتیں بنا رکھی ہیں ۔ یہی حال کے پی کے کا ہے ۔

ان قبیلوں اور خاندانوں میں سے بھی ایک دو گھرانے ہیں جن کی بادشاہی ہے ۔ قبیلوں کے باقی لوگوں کو صرف خوش ہونے کی اجازت ہے اور وہ ایسے ہی بغلیں بجاتے ہیں کہ ہم اقتدار میں ہیں جیسے موجودہ حکومت میں تحریک انصاف والے بجاتے ہیں ۔ان گھرانوں کی آپس میں رشتہ داریاں بھی ہیں ۔ یہی الیکٹیبلز کہلاتے ہیں۔

پہلے یہ واردات صرف جاگیردار گھرانوں نے ڈالی ، اب عالم یہ ہے کہ پرویز خٹک خود وفاقی وزیر ہیں ، ان کے داماد عمران خٹک بھی رکن قومی اسمبلی ہیں ، ان کی قریبی عزیزہ نفیسہ خٹک اور بھتیجی ساجدہ بیگم بھی مخصوص نشستوں پر ایم این اے ہیں ۔ ان کے بھائی لیاقت خٹک کے پی میں وزیر ہیں ۔ ایک اور بھائی ابراہیم خٹک بچ گئے تھے انہیں بھی ایم پی اے بنوا دیا گیا۔ سعد رفیق اپنے بھائی سلمان رفیق اور اہلیہ غزالہ سمیت اسمبلیوں میں جلوہ افروز ہیں اور اسد عمر تبدیلی کے فضائل پڑھتے ہیں جب کہ ان کے بھائی جان محمد زبیر بیانیے کے فضائل کا ابلاغ کرتے پائے جاتے ہیں ۔ بھائی ایک جماعت میں ہوتا ہے بھابھی دوسری جماعت میں ، چچا تیسری جماعت میں اور پھوپھو جان چوتھی جماعت میں ۔ حکومت کسی کی بھی ہو اقتدار انہی گھرانوں میں رہتا ہے۔ ن لیگ کی حکومت میں ننھیال کا اقتدار ، پیپلز پارٹی کی حکومت مین ددھیال کا اقتدار اور تحریک انصاف کی حکومت میں سسرال کا اقتدار۔ ان کے حصے کے بے وقوف البتہ ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑ رہے ہوتے ہیں ، گالیاں دے رہے ہوتے ہیں اور یہ اپنے اہل و عیال سمیت مزے کر رہے ہوتے ہیں۔

یہاں قیادتیں مشکوک وصیت پر وراثت میں منتقل ہوتی ہیں ۔ کسی کی دختر نیک اختر کسی قلم فروش کی لکھی تقریر سے چند جملے اچھے پڑھ لے تو گدا گران سخن دھمال ڈالنے لگتے ہیں رعایا کو مستقبل کی قیادت مل گئی اور کسی کا فرزند ارجمند اسمبلی میں رٹے ہوئے چار جملے دہرا دے تو اہل دربار دیوان لکھتے ہیں قوم کو ایک اور بھٹو مل گیا ۔

اے این پی ولی خان مرحوم کے گھر کی لونڈی ہے اور جے یو آئی مولانا فضل الرحمن کے گھر کی کنیز۔ ن لیگ نواز شریف کی ذاتی جاگیر ہے اور پیپلز پارٹی زرداری خاندان کی میراث ۔ پختونخواہ میپ محمود اچکزئی کا مال غنیمت ہے اور تحریک انصاف عمران خان کے لیے بنائے گئے بھان متی کے تازہ کنبے کی بہت ساری ریاستوں کے ان عالی جاہوں کا موسمی ’ کرش‘ ہے جو تاحکم ثانی عمران خان کی قیادت پر متفق ہو چکے ہیں۔

اس بندو بست پر سوال اٹھایا جائے تو جواب آتا ہے یہ موروثی سیاست تو امریکہ اور بھارت میں بھی ہے۔ بالکل ہے لیکن کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ کس تناسب سے ؟ امریکی کانگریس میں6 فیصد ، بھارت میں اس وقت 18 فیصد جب کہ پاکستان میں57 فیصد ۔ سوال اب یہ ہے یہ جمہوریت ہے یا چند خاندانوں کے ہمیشہ اقتدار میں رہنے کا ایک شیطانی بندوبست جس میں دولت فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے؟

گلی محلے اور سوشل میڈیا پر ایک دوسرے سے الجھنے والا سیاسی کارکن کیا اس سوال پر بھی کبھی غور فرمائے گا کہ اس سیاسی بندو بست میں اس کی اپنی حیثیت کیا ہے ؟

ویسے ایک بات پوچھوں ، مارو گے تو نہیں ، کیا آپ بھی کسی کے حصے کے بے وقوف ہیں؟

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/2551171231604339?__tn__=K-R

Sunday 24 November 2019

November 23rd, 2019


This is full program...all 5 episodes joined. Watch it again...ponder deep and share....
This is the only practical dignified honourable line of action for the govt, army, judiciary and the nation.


https://www.youtube.com/watch?v=KSBB1yh1eZk&feature=youtu.be&fbclid=IwAR1QxvxRFIHPaaH4IiNQy90PEyMgwM2kXuXqQVA4eTdZUIqfhMa40bEP4Ek

This is full program...all 5 episodes joined.
Watch it again...ponder deep and share....
This is the only practical dignified honourable line of action for the govt, army, judiciary and the nation.
Else..
ھے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔۔۔۔
Sudden death!

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/2534882829899846?__tn__=-R

Friday 22 November 2019

November 22nd, 2019


Ambassador Abdul Basit with Zaid Hamid || Pakistan's Foreign Policy challenges...

These are options for a brave foreign policy and true guidelines for the govt & assesment of the present course....


https://www.facebook.com/watch/?v=3146584182023537

Part 4/6

Ambassador Abdul Basit with Zaid Hamid || Pakistan's Foreign Policy challenges...
These are options for a brave foreign policy and true guidelines for the govt & assesment of the present course....
Candid and truthful analysis...

https://www.facebook.com/watch/?v=3146584182023537

November 21st, 2019

Ambassador Abdul Basit and Zaid Hamid || Part-2 - Civil-Military Relations; PTM, MQM and more

This is an extremely important segment



https://www.youtube.com/watch?v=OA-r2mNFssg&feature=youtu.be&fbclid=IwAR0b2YjpkhxITD001LQ7vs84EFyYhYqhRptokifp6Pp1YC8iAuN9JARoZ98

Ambassador Abdul Basit and Zaid Hamid || Part-2 - Civil-Military Relations; PTM, MQM and more

This is an extremely important segment.
After this 4 more to come...


https://www.facebook.com/watch/?v=2381139115348633




Ambassador Abdul Basit with Zaid Hamid || Part 3. What must Pakistan do about open and hidden traitors....?

https://www.youtube.com/watch?v=AV2P86fO22c&feature=youtu.be&fbclid=IwAR15B9QSQwYwQVXzHsa5YuYHyMDWSP12WTFXUoBjmZ_uVmRsDoQqFP3s72k

Ambassador Abdul Basit with Zaid Hamid || Part 3
This is part 3 of our 6 episodes analysis...
What must Pakistan do about open and hidden traitors....?

https://www.facebook.com/watch/?v=953033698402859

November 20th, 2019


Our analysis on how to handle India now ...


https://www.facebook.com/watch/?v=519535768774874

Our analysis on how to handle India now ...

https://www.facebook.com/watch/?v=519535768774874



This is s 6 part series....patriotic, deep and candid analysis for the rulers and the nation alike.
It was truly a pleasure to be with our distinguished Abdul Basit sb

https://www.facebook.com/watch/?v=2145907612175488

Ambassador Abdul Basit meets Pakistani right-wing Political Commentator - Part

This is s 6 part series....patriotic, deep and candid analysis for the rulers and the nation alike.
It was truly a pleasure to be with our distinguished Abdul Basit sb.

https://www.facebook.com/watch/?v=2145907612175488

Saturday 16 November 2019

November 16th, 2019

الحمدللہ، آپ یہاں سے یہ رزق مفت ڈاؤنلوڈ کر سکتے ھیں۔

اب آپ کا نصیب ھے کہ اس سے آپ کتنی خیر حاصل کر سکتے ھیں۔

آنے والے وقتوں میں ھماری قوم کو ایسی ھی آزمایش سے گزرنا ھو گا۔ یہ تجربات و مشاہدات ایک بابرکت رزق ھے‌ ۔۔ اسے ضایع نہ کرنا


https://www.scribd.com/document/435269327/Darya-e-Sindh-Se-Darya-e-Aamu-Tak-by-Syed-Zaid-Zaman-Hamid?fbclid=IwAR2je5JXiNeaL4s1jI-NpKNQr81sw5xJfdcYiR_CCe8Sc9is08vaCLpA6b0

الحمدللہ، آپ یہاں سے یہ رزق مفت ڈاؤنلوڈ کر سکتے ھیں۔
اب آپ کا نصیب ھے کہ اس سے آپ کتنی خیر حاصل کر سکتے ھیں۔
آنے والے وقتوں میں ھماری قوم کو ایسی ھی آزمایش سے گزرنا ھو گا۔ یہ تجربات و مشاہدات ایک بابرکت رزق ھے‌ ۔۔ اسے ضایع نہ کرنا۔
اللہ کرم فرمائے۔۔

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/2518625014858961?__xts__%5B0%5D=68.ARD7matNqkl6QLJjofQN0OjwYnAfFnwiO5fQTFnenGXXObBYDhroOEM5Nigr1JMw2NCeK9jPYjs2xH8k6mG-FuOcQO6IlaCXuYxQZQhINJmSn-ojn5pp1KU5FelauxHb8czuD774oVM4EsiytlOY7QwtsOGU1VZKioyQ5a1Wn3hhNh8hnuFMa4aN0p4hzfNskN7cWviAP799NQXVoc7ov_4m47_WIfdQuCEJ9aDeIZXxXBGH1Wg6CszmRNvCM-9hlKLKgCcOtP95VJYz3w5aVNcjlQyLgg9Bt98ICr9RI0i5oZi7FidYUjyqfNekThTT9IEGs3z1eA3EF4bMXGYC-A&__tn__=-R

 


آج کے عدالتی فیصلے کے بعد آپکو مغل حکمرانوں کی عبرتناک رسوای کی وجہ سمجھ آ جاے گی۔ پاکستانی قوم عبرت پکڑے۔۔۔اب عذاب زیادہ دور نہیں۔ بھوک و خوف و ذلت کا عذاب۔۔۔


آج کے عدالتی فیصلے کے بعد آپکو مغل حکمرانوں کی عبرتناک رسوای کی وجہ سمجھ آ جاے گی۔ پاکستانی قوم عبرت پکڑے۔۔۔اب عذاب زیادہ دور نہیں۔ بھوک و خوف و ذلت کا عذاب۔۔۔

------------------------------------------------------

جب ہندوستان کے آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو میکنن میکنزی بحری جہاز میں بٹھا دیا گیا‘
یہ جہاز17 اکتوبر 1858ء کو رنگون پہنچ گیا‘
شاہی خاندان کے 35 مرد اور خواتین بھی تاج دار ہند کے ساتھ تھیں‘
کیپٹن نیلسن ڈیوس رنگون کا انچارج تھا‘
وہ بندر گاہ پہنچا‘
اس نے بادشاہ اور اس کے حواریوں کو وصول کیا‘
رسید لکھ کر دی اور دنیا کی تیسری بڑی سلطنت کے آخری فرمانروا کو ساتھ لے کر اپنی رہائش گاہ پر آ گیا‘
نیلسن پریشان تھا‘
بہادر شاہ ظفر قیدی ہونے کے باوجود بادشاہ تھا اور نیلسن کا ضمیر گوارہ نہیں کر رہا تھا وہ بیمار اور بوڑھے بادشاہ کو جیل میں پھینک دے مگر رنگون میں کوئی ایسا مقام نہیں تھا جہاں بہادر شاہ ظفر کو رکھا جا سکتا‘
وہ رنگون میں پہلا جلا وطن بادشاہ تھا‘
نیلسن ڈیوس نے چند لمحے سوچا اور مسئلے کا دلچسپ حل نکال لیا‘
نیلسن نے اپنے گھر کا گیراج خالی کرایا اور تاجدار ہند‘ ظِلّ سُبحانی اور تیموری لہو کے آخری چشم و چراغ کو اپنے گیراج میں قید کر دیا‘
بہادر شاہ ظفر17 اکتوبر 1858ء کو اس گیراج میں پہنچا اور 7 نومبر 1862ء تک چار سال وہاں رہا‘
بہادر شاہ ظفر نے اپنی مشہور زمانہ غزل
"لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں‘
"کس کی بنی ہے عالمِ ناپائیدار میں"
اور
"کتنا بدنصیب ہے ظفردفن کے لیے‘
"دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں،
اسی گیراج میں لکھی تھی‘
یہ 7 نومبر کا خُنَک دن تھا اور سن تھا 1862ء۔
بدنصیب بادشاہ کی خادمہ نے شدید پریشانی میں کیپٹن نیلسن ڈیوس کے دروازے پر دستک دی‘ اندر سے اردلی نے بَرمی زُبان میں اس بدتمیزی کی وجہ پوچھی‘
خادمہ نے ٹوٹی پھوٹی بَرمی میں جواب دیا‘
ظِلّ سُبحانی کا سانس اُکھڑ رہا ہے‘
اردلی نے جواب دیا‘
صاحب کتے کو کنگھی کر رہے ہیں‘ میں انھیں ڈسٹرب نہیں کر سکتا‘
خادمہ نے اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا‘
اردلی اسے چپ کرانے لگا مگر آواز نیلسن تک پہنچ گئی‘
وہ غصے میں باہر نکلا‘
خادمہ نے نیلسن کو دیکھا تو وہ اس کے پاؤں میں گر گئی‘ وہ مرتے ہوئے بادشاہ کے لیے گیراج کی کھڑکی کُھلوانا چاہتی تھی‘
بادشاہ موت سے پہلے آزاد اور کھُلی ہوا کا ایک گھونٹ بھرنا چاہتا تھا‘
نیلسن نے اپنا پسٹل اٹھایا‘ گارڈز کو ساتھ لیا‘
گیراج میں داخل ہو گیا۔
بادشاہ کی آخری آرام گاہ کے اندر بَدبُو‘ موت کا سکوت اور اندھیرا تھا‘
اردلی لیمپ لے کر بادشاہ کے سرہانے کھڑا ہو گیا‘
نیلسن آگے بڑھا‘
بادشاہ کا کمبل آدھا بستر پر تھا اور آدھا فرش پر‘
اُس کا ننگا سر تکیے پر تھا لیکن گردن ڈھلکی ہوئی تھی‘ آنکھوں کے ڈھیلے پپوٹوں کی حدوں سے باہر اُبل رہے تھے‘ گردن کی رگیں پھولی ہوئی تھیں اور خشک زرد ہونٹوں پر مکھّیاں بِھنبھِنا رہی تھیں‘ نیلسن نے زندگی میں ہزاروں چہرے دیکھے تھے لیکن اس نے کسی چہرے پر اتنی بے چارگی‘ اتنی غریب الوطنی نہیں دیکھی تھی‘
وہ کسی بادشاہ کا چہرہ نہیں تھا‘
وہ دنیا کے سب سے بڑے بھکاری کا چہرہ تھا اور اس چہرے پر ایک آزاد سانس,
جی ہاں.......
صرف ایک آزاد سانس کی اپیل تحریر تھی اور یہ اپیل پرانے کنوئیں کی دیوار سے لپٹی کائی کی طرح ہر دیکھنے والی آنکھ کو اپنی گرفت میں لے لیتی تھی‘
کیپٹن نیلسن نے بادشاہ کی گردن پر ہاتھ رکھا‘
زندگی کے قافلے کو رگوں کے جنگل سے گزرے مدت ہو چکی تھی‘
ہندوستان کا آخری بادشاہ زندگی کی حد عبور کر چکا تھا‘
نیلسن نے لواحقین کو بلانے کا حکم دیا‘
لواحقین تھے ہی کتنے ایک شہزادہ جوان بخت اور دوسرا اس کا استاد حافظ محمد ابراہیم دہلوی‘ وہ دونوں آئے۔

انھوں نے بادشاہ کو غسل دیا‘ کفن پہنایا اور جیسے تیسے بادشاہ کی نمازِ جنازہ پڑھی‘ قبر کا مرحلہ آیا تو پورے رنگون شہر میں آخری تاجدار ہند کے لیے دوگز زمین دستیاب نہیں تھی‘
نیلسن نے سرکاری رہائش گاہ کے احاطے میں قبر کھدوائی اور بادشاہ کو خیرات میں ملی ہوئی مٹی میں دفن کر دیا‘
قبر پر پانی کا چھڑکاؤ ہورہا تھا ‘
گلاب کی پتیاں بکھیری جا رہی تھیں تو استاد حافظ ابراہیم دہلوی کے خزاں رسیدہ ذہن میں 30 ستمبر 1837ء کے وہ مناظر دوڑنے بھاگنے لگے
جب دہلی کے لال قلعے میں 62 برس کے بہادر شاہ ظفر کو تاج پہنایاگیا‘
ہندوستان کے نئے بادشاہ کو سلامی دینے کے لیے پورے ملک سے لاکھ لوگ دلی آئے تھے اور بادشاہ جب لباس فاخرہ پہن کر‘ تاج شاہی سَر پر سَجَا کر اور نادر شاہی اور جہانگیری تلواریں لٹکا کر دربار عام میں آیا تو پورا دلی تحسین تحسین کے نعروں سے گونج اٹھا‘
نقارچی نقارے بجانے لگے‘ گویے ہواؤں میں تانیں اڑانے لگے‘
فوجی سالار تلواریں بجانے لگے
اور
رقاصائیں رقص کرنے لگیں‘ استاد حافظ محمد ابرہیم دہلوی کو یاد تھا بہادر شاہ ظفر کی تاج پوشی کا جشن سات دن جاری رہا اور ان سات دنوں میں دِلّی کے لوگوں کو شاہی محل سے کھانا کھلایا گیا مگر سات نومبر 1862ء کی اس ٹھنڈی اور بے مہر صُبح بادشاہ کی قبر کو ایک خوش الحان قاری تک نصیب نہیں تھا۔
استاد حافظ محمد ابراہیم دہلوی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘
اس نے جوتے اتارے‘
بادشاہ کی قبر کی پائینتی میں کھڑا ہوا
اور
سورۃ توبہ کی تلاوت شروع کر دی‘
حافظ ابراہیم دہلوی کے گلے سے سوز کے دریا بہنے لگے‘
یہ قرآن مجید کی تلاوت کا اعجاز تھا یا پھر استاد ابراہیم دہلوی کے گلے کا سوز,
کیپٹن نیلسن ڈیوس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘
اس نے ہاتھ اٹھایا اور اس غریبُ الوطن قبر کو سیلوٹ پیش کر دیا اور اس آخری سیلوٹ کے ساتھ ہی مغل سلطنت کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا‘
آپ اگر کبھی رنگون جائیں تو آپ کو ڈیگن ٹاؤن شِپ کی کچّی گلیوں کی بَدبُودار جُھگّیوں میں آج بھی بہادر شاہ ظفر کی نسل کے خاندان مل جائیں گے‘
یہ آخری مُغل شاہ کی اصل اولاد ہیں مگر یہ اولاد آج سرکار کے وظیفے پر چل رہی ہے‘
یہ کچی زمین پر سوتی ہے‘ ننگے پاؤں پھرتی ہے‘ مانگ کر کھاتی ہے اور ٹین کے کنستروں میں سرکاری نل سے پانی بھرتی ہے,
مگر یہ لوگ اس کَسمَپُرسی کے باوجود خود کو شہزادے اور شہزادیاں کہتے ہیں‘
یہ لوگوں کو عہد رفتہ کی داستانیں سناتے ہیں اور لوگ قہقہے لگا کر رنگون کی گلیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔
یہ لوگ‘
یہ شہزادے اور شہزادیاں کون ہیں؟
یہ ہندوستان کے آخری بادشاہ کی سیاسی غلطیاں ہیں‘ بادشاہ نے اپنے گرد نااہل‘ خوشامدی اور کرپٹ لوگوں کا لشکر جمع کر لیا تھا‘
یہ لوگ بادشاہ کی آنکھیں بھی تھے‘
اس کے کان بھی اور اس کا ضمیر بھی‘
بادشاہ کے دو بیٹوں نے سلطنت آپس میں تقسیم کر لی تھی‘
ایک شہزادہ داخلی امور کا مالک تھا
اور دوسرا خارجی امور کا مختار‘
دونوں کے درمیان لڑائی بھی چلتی رہتی تھی اور بادشاہ ان دونوں کی ہر غلطی‘ ہر کوتاہی معاف کر دیتا تھا‘
عوام کی حالت انتہائی ناگُفتہ بہ تھی‘
مہنگائی آسمان کو چھو رہی تھی‘
خوراک منڈیوں سے کٹائی کے موسموں میں غائب ہو جاتی تھی‘
سوداگر منہ مانگی قیمت پر لوگوں کو گندم‘ گڑ اور ترکاری بیچتے تھے‘
ٹیکسوں میں روز اضافہ ہوتا تھا‘
شہزادوں نے دلی شہر میں کبوتروں کے دانے تک پر ٹیکس لگا دیا تھا‘
طوائفوں کی کمائی تک کا ایک حصہ شہزادوں کی جیب میں چلا جاتا تھا۔

شاہی خاندان کے لوگ قتل بھی کر دیتے تھے تو کوئی ان سے پوچھ نہیں سکتا تھا‘ ریاست شاہی دربار کے ہاتھ سے نکل چکی تھی‘ نواب‘ صوبیدار‘ امیر اور سلطان آزاد ہو چکے تھے اور یہ مغل سلطنت کو ماننے تک سے انکاری تھے‘ فوج تلوار کی نوک پر بادشاہ سے جو چاہتی تھی منوا لیتی تھی‘
عوام بادشاہ اور اس کے خاندان سے بیزار ہو چکے تھے‘ یہ گلیوں اور بازاروں میں بادشاہ کو ننگی گالیاں دیتے تھے اور کوتوال چپ چاپ ان کے قریب سے گزر جاتے تھے جب کہ انگریز مضبوط ہوتے جا رہے تھے‘
یہ روز معاہدہ توڑتے تھے اور شاہی خاندان وسیع تر قومی مفاد میں انگریزوں کے ساتھ نیا معاہدہ کر لیتا تھا۔
انگریز بادشاہ کے وفاداروں کو قتل کر دیتے تھے اور شاہی خاندان جب احتجاج کرتا تھا تو انگریز بادشاہ کو یہ بتا کر حیران کر دیتا تھا ’’ظل الٰہی وہ شخص آپ کا وفادار نہیں تھا‘ وہ ننگ انسانیت آپ کے خلاف سازش کر رہا تھا‘‘ اور بادشاہ اس پر یقین کر لیتا تھا‘ بادشاہ نے طویل عرصے تک اپنی فوج بھی ٹیسٹ نہیں کی تھی چنانچہ جب لڑنے کا وقت آیا تو فوجیوں سے تلواریں تک نہ اٹھائی گئیں‘
ان حالات میں جب آزادی کی جنگ شروع ہوئی اور بادشاہ گرتا پڑتا شاہی ہاتھی پر چڑھا تو عوام نے لاتعلق رہنے کا اعلان کر دیا‘
لوگ کہتے تھے ہمارے لیے بہادر شاہ ظفر یا الیگزینڈرا وکٹوریا دونوں برابر ہیں‘
مجاہدین جذبے سے لبریز تھے لیکن ان کے پاس قیادت نہیں تھی۔
بادشاہ ڈبل مائینڈڈ تھا‘ یہ انگریز سے لڑنا بھی چاہتا تھا اور اپنی مدت شاہی بھی پوری کرنا چاہتا تھا چنانچہ اس جنگ کا وہی نتیجہ نکلا جو ڈبل مائینڈ ہو کر لڑی جانے والی جنگوں کا نکلتا ہے‘ شاہی خاندان کو دلی میں ذبح کر دیا گیا جب کہ بادشاہ جلاوطن ہو گیا‘
بادشاہ کیپٹن نیلسن ڈیوس کے گیراج میں قید رہا‘ گھر کے احاطہ میں دفن ہوا اور اس کی اولاد آج تک اپنی عظمت رفتہ کا ٹوکرا سر پر اٹھا کر رنگون کی گلیوں میں پھر رہی ہے‘
یہ لوگ شہر میں نکلتے ہیں تو ان کے چہروں پر صاف لکھا ہوتا ہے‘
جو بادشاہ اپنی سلطنت‘ اپنے مینڈیٹ کی حفاظت نہیں کرتے‘ جو عوام کا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں‘ ان کی اولادیں اسی طرح گلیوں میں خوار ہوتی ہیں‘
یہ عبرت کا کشکول بن کر اسی طرح تاریخ کے چوک میں بھیک مانگتی ہیں
لیکن ہمارے حکمرانوں کو یہ حقیقت سمجھ نہیں آتی‘
یہ خود کو بہادر شاہ ظفر سے بڑا بادشاہ سمجھتے ہیں۔
~ وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا ---
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔۔
کیا سبق لیا جاے، مصلیحت یا بیغیرت بن کر سربراہ کنبا یا سلطنت اپنی نسلوں کو وہی مقدر مسلط کروادیتا ھے جو اسکے عمال کے نتیجے میں پیدا ھوتے رہتے ہیں۔

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/2518770371511092?__tn__=K-R