Monday 26 October 2020

October 27th, 2020

 

پاکستان میں بہت سے لوگ مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ شکار اور ذاتی دفاع کے لیے کونسی سی گولیاں استعمال کریں؟

عجیب بات ہے کہ سوائے پی او ایف کے پاکستان میں کوئی بھی اچھی گولیاں نہیں بناتا۔

یہاں اس حوالے سے ہم اہم نصیحتیں کر رہے ہیں۔ آپ کے کام آئیں گی۔

 

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/3439983872723066

 


 

پاکستان میں بہت سے لوگ مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ شکار اور ذاتی دفاع کے لیے کونسی سی گولیاں استعمال کریں؟

عجیب بات ہے کہ سوائے پی او ایف کے پاکستان میں کوئی بھی اچھی گولیاں نہیں بناتا۔

یہاں اس حوالے سے ہم اہم نصیحتیں کر رہے ہیں۔ آپ کے کام آئیں گی۔

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/3439983872723066

Thursday 22 October 2020

October 22nd, 2020

 کبھی بھی کسی ملک کی فوج اکیلے جنگ نہیں لڑ سکتی۔۔۔ جب تک پوری قوم اور حکومت اس کی پشت پر نہ کھڑی ہو۔۔ بد نصیبی سے ہماری صفوں میں اس قدر غداری ہے ہے کہ انیس سو اکتر جیسا سماں پھر پیدا ہو چکا ہے۔۔۔ قیادت کی حماقتیں کتی اور صفوں کی غداریاں ہمیں بہت نقصان پہنچائیں گی۔۔

 

 https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/3428403237214463

 


سوال یہ نہیں ہے کہ بھارت حملہ کرے گا یا نہیں۔۔ آپ سوال صرف یہ ہے کہ کب کرے گا۔۔

جتنا وقت ہمیں مل رہا ہے یہ تیاری کے لیئے ہے۔۔ قومی سطح پر بھی،  اجتماعی سطح پر بھی اور انفرادی سطح پر بھی۔۔۔

یہ ملک میں خوف پھیلانا نہیں، بلکہ آنے والے خوف سے آپ کو محتاط رہنے کا حکم دینا ہے۔۔۔ اگر خط میں کوئی بری خبر ہو تو ڈاکیہ کو گولی نہیں ماری جاتی۔۔۔

آج ہماری قوم کسی بھی قسم کی حادثاتی صورت حال کے لئے تیار نہیں ہے۔۔۔ کراچی کی بارشوں نے پوری سندھ حکومت کو ننگا کر کے رکھ دیا تھا۔۔۔ اللہ نہ کرے اگر جنگ مسلط ہوئی تو باقی صوبوں کی حکومتوں کا بھی یہی حال ہوگا۔۔۔

پاک فوج پر حملے پہلے ہی شروع ہو چکے ہیں۔۔ چاہے عسکری دہشت گردوں کی جانب سے ہو یا سیاسی اداروں کی جانب سے۔۔۔

کبھی بھی کسی ملک کی فوج اکیلے جنگ نہیں لڑ سکتی۔۔۔ جب تک پوری قوم اور حکومت اس کی پشت پر نہ کھڑی ہو۔۔ بد نصیبی سے ہماری صفوں میں اس قدر غداری ہے ہے کہ انیس سو اکتر جیسا سماں پھر پیدا ہو چکا ہے۔۔۔ قیادت کی حماقتیں کتی اور صفوں کی غداریاں ہمیں بہت نقصان پہنچائیں گی۔۔

ہمارا کام اذان دینا ہے۔۔ انشاء اللہ یہ پاک سرزمین سایہ خدائے ذوالجلال میں ہے۔۔ مگر پاکستانی قوم نے اپنی جانوں پر بہت ظلم کر دیے ہیں۔۔۔

لبیک غزوہ ہند۔۔۔ 🇵🇰🇵🇰🇵🇰

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/3428403237214463

Saturday 17 October 2020

October 18th, 2020

 

‏نواز شریف کی غدّاری اور پاکستان دشمن تاریخ پر ہمارا گہرا تجزیہ۔

پاکستان کی مسلح افواج اور آئی ایس آئی آئی پر نواز شریف کے حملوں کا منہ توڑ جواب۔

ریاستی ادارے مشرقی پاکستان کے سانحے سے سبق سیکھیں

پاکستان کی عدلیہ پاکستان کی تباہی کا ذریعہ بن رہی ہے۔۔۔


https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/3415417118513075

 


 

 

‏نواز شریف کی غدّاری اور پاکستان دشمن تاریخ پر ہمارا گہرا تجزیہ۔
پاکستان کی مسلح افواج اور آئی ایس آئی آئی پر نواز شریف کے حملوں کا منہ توڑ جواب۔
ریاستی ادارے مشرقی پاکستان کے سانحے سے سبق سیکھیں
پاکستان کی عدلیہ پاکستان کی تباہی کا ذریعہ بن رہی ہے۔۔۔

 

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/3415417118513075

Monday 12 October 2020

October 12th, 2020

 جب ساری تعلیم اردو میں ہوتی تھی

 

جب ساری تعلیم اردو میں ہوتی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رضا علی عابدی
آج کوئی مشکل ہی سے یقین کرے گا کہ جب بڑے علاقے پر انگریزوں کی حاکمیت قائم ہوگئی اور جدید علوم کی، جنہیں آپ چاہیں مغربی علوم کہہ لیں، تعلیم شروع ہوئی تو سارے مضامین اردو میں پڑھائے جاتے تھے۔ کیا سائنس، کیا ریاضی، کیا انجینئرنگ اور کیا زبانیں، سب اردو میں پڑھائی جاتی تھیں۔اس سلسلے میں دہلی کالج اور حیدرآباد دکن میں جو بے مثال کام ہوا ، دنیا اسے بھول چلی ہے جس کا دکھ ہوتا ہے۔ جب سارے علاقے میں عوام کی بہبود کے تعمیراتی کام شروع ہوئے تو سو دو سو نہیں، ہزاروں انجینئروں کی ِضرورت پڑی۔ ماہروں کی اتنی بڑی فوج انگلستان سے لانا ممکن نہ تھا۔ تب انگریزوں نے ہمالیہ کے دامن میں چھوٹے سے شہر روڑکی میں ایک بڑا اور جدید سول انجینئرنگ کالج قائم کیا۔ سڑکیں اور نہریں بنانے اور عمارتیں او رتار کا نظام قائم کرنے کے لئے ہندوستانی لڑکوں کو اردو میں تعلیم دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس مقصد کے لئے ماہرین کی خدمات حاصل کر کے ان مضامین کی نصابی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرایا گیا۔ کالج میں اردو طباعت کا چھاپہ خانہ لگایا گیا اور اس طرح یہ بڑا کام چل نکلا۔
یہاں جی چاہتا ہے اس داستان کے کچھ دل چسپ پہلو بیان کئے جائیں۔سب سے پہلے دیسی ہیڈ ماسٹر مقرر کئے گئے۔ ریکارڈ میں ان کے نام ملتے ہیں: مُنّو لال،رام چندر،مدھو سُدن چٹر جی اور بہاری لال۔اسی طرح نائب ماسٹروں میں مسیح اﷲ، عبدالرحمان، اکبر بیگ، مودود حسین، فصیح الدین، تجمل حسین، رحیم بخش، عبدالغنی اور شیخ بیچا کے نام بھی ملتے ہیں۔یہ سلسلہ سنہ 1847سے 1871 تک جاری رہا۔ان میں کچھ سروے کے استاد تھے اور کچھ ڈرائنگ کے (میرے والد بھی نئی صدی کے آغاز میں ڈرائنگ ماسٹر ہی تھے)،شیخ بیچاتخمینے کے مضمون کے استاد تھے اور سترہ سال تک لڑکوں کو ایسٹیمیٹ پڑھاتے رہے۔
تھامسن انجینئرنگ کالج روڑکی میں کتابیں لکھنے اور چھاپنے کے کام پر آج کے اسکا لروں نے کافی تحقیق کی ہے۔بعض نے لکھا ہے کہ شروع میں ساری تعلیم لڑکوں کو انگریزی زبان میں دی جاتی تھی۔ مگر ہمارے پیش نظر کتاب کے مصنف ساجد صدیق نظامی نے بڑے وثوق سے لکھا ہے کہ یہ دونوں باتیں درست نہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ پہلے دن سے ہندوستانی لڑکوں کی تعلیم ہوئی اور ان کی نصابی کتابیں اردو ہی میں چھاپی جارہی تھیں۔ کالج کا اپنا چھاپہ خانہ سنہ 1850 کے آس پاس کام شروع کرچکا تھا۔یہ بھی لکھا گیا ہے کہ انجینئرنگ جیسے مضمون کی کتابیں ترجمہ کرنے کے لئے کالج میں ایک ترجمہ کمیٹی بھی مقرر کی گئی تھی۔کسی نے لکھا ہے کہ آزادی تک کالج میں مسلمانوں کا داخلہ تقریباً نا ممکن تھا۔ مگر کالج کے ایک پرانے کیلنڈرمیں سنہ 1872تک داخل ہونے والے لڑکوں کی مکمل فہرستیں ملتی ہیںجن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندو اور مسلمان طلبا کی تعداد تقریباً برابر تھی۔کالج کے قیام سے 1870تک ہندوستانی لڑکوں کو سارے مضمون اردو میں ہی پڑھائے جاتے تھے۔ اُس وقت جدید مضامین پر کچھ کتابیں دستیاب تھیں لیکن سول انجینئرنگ کی نصابی کتابوں کا کسی نے ترجمہ نہیں کیا تھا۔تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اس موضوع پر بنیادی کتابوں کا ترجمہ روڑکی ہی میں شروع ہوا۔پہلے پہلے یہ کتابیں سکندرہ (آگرہ) کے آرفن پریس میں چھپتی تھیں، بعد میں کالج کا اپنا چھاپہ خانہ قائم ہوگیا۔
کالج کی زیادہ تر کتابیں دو استادوں نے ترجمہ کیں، وہ تھے منو لال اور بہاری لال۔ دونوں نے چھ چھ کتابیں اردو میں ڈھالیں۔ باقی کتابیں تیار کرنے والوں میں کنہیا لال، شنبھو داس اور شیخ بیچا کے نام شامل ہیں۔منو لال دہلی کے کائستھ تھے ۔ ان کے والد سوہن لال کو1857کی بغاوت میں انگریزوں کی مدد کے صلے میں بلند شہر کے تین گاؤں جاگیر کے طور پر ملے تھے۔خود منولال نے پہلے آگرہ کے انگلش اسکول میں تعلیم پائی جہاں سے وہ روڑکی آگئے اور تعلیم پوری کرکے یہیں پڑھانے لگے۔اسی دوران حیدرآباد دکن سے سالارجنگ نے روڑکی کالج کے پرنسپل کو لکھا کہ انہیں انجینئرنگ کے ایک استاد کی ضرورت ہے، جس پر منو لال کو وہاں بھیج دیا گیا۔ وہ حیدرآباد انجینئرنگ کالج کے نائب سربراہ مقرر ہوئے۔منولال نے حیدر آباد میں اینگلو ورنا کیولرگرلز اسکول قائم کیا جہاں 1885 میں پچاس ہندو او رچھبیس مسلمان لڑکیا ں تعلیم پا رہی تھیں۔تین سال بعد منو لال کی وفات ہوئی۔
دوسرے مصنف لالہ بہاری لا ل ہیں جو شروع ہی سے استاد کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ انہوں نے سات کتابیں لکھیں۔اگلے مصنف کنہیا لال ہیں جن کی کتاب ًتاریخ پنجاب‘ آج تک یاد کی جاتی ہے۔وہ 1830 میں ایٹہ یو پی میں پیدا ہوئے ۔ ثانوی درجات کی تعلیم آگرہ میں پائی جس کے بعد روڑکی میں داخلہ لیا۔ تعلیم پوری کرنے پر لاہور میں سب اسسٹنٹ سول انجینئر مقرر ہوئے اور آخر وہیں ریٹائر ہوئے۔لاہور کا ریلوے اسٹیشن اور میو اسپتال ان ہی کی نگرانی میں تعمیر ہوا۔بہت کتابیں لکھیں جن میں گلزار ہندی، یادگار ہندی ، ظفر نامہ معروف بہ رنجیت نامہ، مناجا ت ہندی، اخلاق ہندی، تاریخ پنجاب اور تاریخ لاہور آج تک حوالے کے طور پر نظر آتی ہیں۔بعد میں کالج میں ان کے نام سے ایک انعام بھی جاری ہوا تھا۔ان کی انجینئرنگ کی کتابوں میں ’رسالہ در باب آلات پیمائش ‘ قابل ذکر ہے۔سڑکوں یا نہروں کی تعمیر میں بڑا موڑ آجائے تو کیا کرنا چاہئے، تفصیل سے بتایا گیا ہے۔اسی کتاب میں ایک جگہ ایسی بھی آتی ہے کہ’’جب کبھی ایسا اتفاق آپڑتا ہے کہ سڑک کی سیدھ میں کوئی گاؤں یا اچھا باغ یا کوئی مکان کہ جس کے گرادینے میں بہت نقصان ہوتا ہو، آجاتا ہے تو اس وقت گاؤں یا مکان کو کیسے بچانا چاہئے‘‘۔
اُس زمانے اور اُن لوگوں کے گزر جانے کے بعد حالات نے ایسی کروٹ بدلی کہ کچھ بھی پہلا جیسا نہ رہا ورنہ ہم تصور کر سکتے ہیں کہ یوں بھی ہوتا کہ ہم اور ہمارے بچے دنیا کا ہر مضمون اپنی زبان میں پڑھ رہے ہوتے اور جب پڑھ رہے ہوتے تو انہیں اچھی طرح معلوم ہوتا کہ کیا پڑھ رہے ہیں۔
اب تو یہ کسی دیوانے کا خواب لگتا ہے۔
نقل و ارسال...

 

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/3400461743341946

 

 

اسلام آباد ک ایک محفل میں پاکستان کے ماضی حال اور مستقبل پر تفصیلی گفتگوی ہوئی۔۔
اللہ پاکستان کی خیر رکھے، پاکستان کی مسلح افواج کی آبرو سلامت رہے۔۔۔ پاکستان کو پیش آنے والے تمام خطرات کا تجزیہ اور ہماری ڈیوٹی اس حوالے سے۔۔۔

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/3401016729953114




 

اسلام آباد ک ایک محفل میں پاکستان کے ماضی حال اور مستقبل پر تفصیلی گفتگوی ہوئی۔۔
یہ پہلی قسط ہے۔۔۔
اللہ پاکستان کی خیر رکھے، پاکستان کی مسلح افواج کی آبرو سلامت رہے۔۔۔ پاکستان کو پیش آنے والے تمام خطرات کا تجزیہ اور ہماری ڈیوٹی اس حوالے سے۔۔۔

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/3401016729953114

Sunday 11 October 2020

October 11th, 2020

ملت کے اتحاد کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔۔۔ اور مشرقی پاکستان کی طرح ذلیل دشمن حملہ آور ہونے کے لئے تیار ہے۔۔۔

میں پھر کہہ رہا ہوں فوجی قیادت کو اپنا کڑا احتساب کرنا ہے۔۔ حالات درست سمت میں نہیں جا رہے۔۔۔ 

 


 
 

آج سب سے کڑا احتساب خود فوج کی قیادت کو اپنا کرنا ہے۔۔۔۔

بے شک ملک ہائبرڈ وار کا شکار ہے۔۔

بے شک ملکی قیادت پر حملے ہو رہے ہیں۔۔

بے شک پاک فوج کے خلاف ناپاک پروپیگنڈاجاری ہے۔۔۔

مگر یہ ہمہ جہتی جنگ ١٩٧١ میں بھی تھی۔

اس وقت فوج کی قیادت کا کیا کردار تھا؟

‏ملک پارلیمان، سیاستدانوں اور سپریم کورٹ کی غلطیاں تو برداشت کر سکتا ہے مگر پاک فوج کی غلطی ملک کا وجود خطرے میں ڈال دے گی۔۔

١٩٧١ میں بھی پاکستان کو ہائی بریڈ وار کا سامنا تھا۔۔۔ اس وقت بھی دشمن نے فوج اور قوم کے درمیان اختلاف پیدا کیا۔۔ اس وقت بھی قومی قیادت کو نشانہ بنایا گیا۔

‏اس وقت بھی فوج آئی ایس آئی اور سپریم کورٹ موجود تھی۔۔۔ مگر پھر بھی ملک ٹوٹ گیا۔

کیوں؟ ہم اس وقت کیوں ہائبرڈ وار کا مقابلہ نہیں کرسکے؟

فوج کی اس وقت کی قیادت بہت بے شرم بے حیا اور نااہل تھی۔۔۔ ہائی بریڈ وار کا مقابلہ کیا جاسکتا اگر یحییٰ خان اور اس کے مشیروں میں قابلیت ہوتی۔۔

‏آج پاکستان اگر قائم ہے تو اللہ کے فضل سے پاک فوج کی وجہ سے۔۔

اسی لیے پاک فوج کو سب سے زیادہ کڑے احتساب کی ضرورت ہے کہ کہیں انیس سو اکتر والی غلطیاں دہرائی نہ جائیں۔۔۔

آج ایک مرتبہ پھر قوم اور فوج کے درمیان فاصلے پیدا کیے جا رہے ہیں۔۔ قومیت لسانیت اور فرقہ واریت بڑھ رہی ہے۔۔

‏ملت کے اتحاد کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔۔۔ اور مشرقی پاکستان کی طرح ذلیل دشمن حملہ آور ہونے کے لئے تیار ہے۔۔۔

میں پھر کہہ رہا ہوں فوجی قیادت کو اپنا کڑا احتساب کرنا ہے۔۔ حالات درست سمت میں نہیں جا رہے۔۔۔

یہ بات ایک دشمن کی جانب سے نہیں ایک مخلص ترین خیر خواہ کی جانب سے آ رہی ہے۔۔۔۔

 https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/3394693227252131

 

 

 
"Pakistan and Turkey should made a strong Defence Alliance
Blunt Analysis of Zaid Hamid on Foreign Policy's Report regarding India"..

   https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/3397792976942156

  



 
Today's analysis...
"Pakistan and Turkey should made a strong Defence Alliance
Blunt Analysis of Zaid Hamid on Foreign Policy's Report regarding India"..

  

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/3397792976942156

 

Saturday 10 October 2020

October 10th, 2010

 آہ ! اردو۔۔۔ ہوتا ہے دل سیپارہ

 

آہ ! اردو۔۔۔ ہوتا ہے دل سیپارہ

آپ کو معلوم ہے ناں کہ اردو زبان کو شروع کرنے کا حکم حضرت نظام الدین اولیائؒ نے حضرت امیر خسروؒ کو دیا تھا۔حضرت نظام الدین اولیائؒ کس دور میں تھے؟سن 1300 ءکے آس پاس، یعنی اردو کو شروع ہوئے تقریباً 750 سال ہوچکے ہیں۔تاریخی طور پر ہمیں یہ معلوم ہے کہ ٹیپو سلطان نے بھی اردو زبان کی سرپرستی کی تھی۔ مرزا دبیر اور مرزا انیس کے مرثیے 1750 ءکے آس پاس کے ہیں، کہ جو آج بھی محرم کی مجلسوں میں پڑھے جاتے ہیں۔انگریزوں نے 1801 ءمیں فورٹ ولیم کالج میں ”اردو کالج“ قائم کیا تھا۔تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اردو اپنے آغاز سے لیکر 1857 ءتک تقریباً 550 سال پرانی اور مستند زبان بن چکی تھی، کہ جس میں اعلیٰ ترین کلام، تاریخ، شاعری اور ادب اپنی معراج کو پہنچ چکا تھا۔ مرزا غالب اور میر تقی میر کا دور بھی 1857 ءکے آس پاس کا ہی ہے۔1300ءسے لیکر 1857 ءتک اردو زبان میں پوری تاریخ اسلام، قرآن و حدیث و تفسیر، اور دیگر معاشرتی علوم مسلمانوں کو پڑھائے جاتے رہے۔ یقیناً ہزاروں لاکھوں کتابیں ان 550 سالوں میں لکھی گئی ہونگی۔

ذرا غور کریں۔ یہ لاکھوں کتابیں آج کہاں غائب ہوگئیں۔۔۔؟

یہ ہماری تاریخ کا ایک ایسا دردناک پہلو ہے کہ جس کی تاریخ ہی مٹا دی گئی ہے۔ 1857 ءکی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے لاکھوں کی تعداد میں اسلامی کتب کہ جس میں عربی، فارسی اور اردو کی لاکھوں قیمتی، ہاتھ سے لکھی ہوئی دستاویزات تھیں، کو جلا کر راکھ کردیا تھا۔آج پوری دنیا میں آپ کو 1857 ءکے بعد کی چھپی ہوئی تو اردو کی کچھ کتابیں تو مل جاتی ہیں، مگر 1857 ءسے پہلے 550 سال کی تاریخ میں ہاتھ سے لکھی گئی اردو کی کوئی کتاب ہی نہیں ملتی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کتابوں کو آسمان کھا جائے، یا زمین نگل جائے۔جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں سے جو انتقام لیا اس میں پوری اسلامی تہذیب کو ہی جلا کر راکھ کردیا گیا۔ ہزاروں علماءاور اشرافیہ کو قتل کیا گیا، مدرسے تباہ کیے گئے، لاکھوں کتابیں جلائیں گئیں اور اس ظلم کی تاریخ لکھنے پر بھی پابندی لگادی گئی۔انگریزوں کے دور میں تو پورے ہندوستان میں کسی کی مجال نہیں تھی کہ مسلمانوں کے خلاف ہونیوالے ظلم کو تحریر کرکے کوئی کتاب لکھ سکتا۔ جنہوں نے اپنی آنکھوں سے اس ظلم کو ہوتے دیکھا، وہ چند سالوں میں اس دنیا سے گزر گئے۔ آنے والی نسلوں نے صرف انگریزوں کی غلامی دیکھی۔علامہ اقبالؒ اسی بات پر آنسو بہاتے تھے کہ:

وہ علم کے موتی وہ کتابیں اپنے آباءکی

جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ

عیسائیوں نے اندلسیہ میں مسلمانوں کی لکھی سائنس کی کتب تو ترجمہ کرلیں، مگر ہندوستان میں اردو زبان کو مکمل تباہ کردیا۔ہوسکتا ہے کہ اردو زبان کی ہاتھ سے لکھی ہوئی پرانی کتب کسی کتب خانے میں، عجائب گھر میں یا کسی کی ذاتی لائبریری میں ایک آدھ رکھی ہو۔۔۔ مگر انتہائی تلاش کے باوجود مجھے ذاتی طور پر 1857ءسے پہلے لکھی گئی اردو کی کوئی کتاب آج تک نہیں ملی۔اور قوم کو اس ظلم کا احساس ہی نہیں ہے۔

آج اردو زبان اس ظلم کے باوجود بھی عالم اسلام کی دوسری بڑی نمائندہ زبان ہے۔ بنگلہ دیش سے لیکر ہندوستان، پاکستان، افغانستان، سری لنکا اور اب خلیج کے تمام ممالک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔مگر المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں یہ زبان ظلم کی حد تک رسوا کی جارہی ہے۔

زبانیں بھی پھلدار درختوں اور باغیچوں کی طرح ہوتی ہیں۔ ان کی آبیاری کی جائے تو پھلتی پھولتی ہیں، اپنی خوشبو اور پھل دیتی ہیں، ورنہ اجڑنے لگتی ہیں اور آخر میں سوکھ کر مر جاتی ہیں۔ہمارے پاس اب جو اردو باقی ہے، وہ صرف 1857 ءسے لیکر آج تک کی ہے۔1947 ءکے بعد جو بچی کھچی اردو زبان ہمارے حوالے کی گئی، ہم اس کا بھی حق نہ ادا کرسکے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کی جدید اصطلاحات کو اردو میں ترجمہ نہ کیا، لہذا انگریزی کے محتاج رہے۔حالانکہ تمام حکومتی معاملات اور معاشرتی علوم بہت آسانی سے اردو زبان میں چلائے جاسکتے تھے۔

دنیا کی تمام قوموں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کو اپنی اپنی زبانوں میں ترجمہ کرکے اپنی قوم کو اپنی ہی زبان میں تعلیم دی ہے۔روسی ہوں یا چینی، ترک ہوں یا عرب، ایرانی ہوں یا ہسپانوی۔۔۔ کسی کو یہ شکایت نہیں ہے کہ ان کی قومی زبان سائنس اور ٹیکنالوجی کے معاملے میں مجبور و مسکین ہے۔

ہمیں یاد ہے کہ اپنے بچپن میں ہمارے سکول میں کلاس ون، ٹو اور تھری وغیرہ نہیں ہوتے تھے، بلکہ جماعت اول، دوئم، سوئم، چہارم اور پنجم ہوتے تھے۔ہم نے پہاڑے بھی اردو میں یاد کیے تھے، جیومیٹری بھی اردو میں تھی۔زاویہءقائمہ، Right Angle Triangle تھا۔

80 کی دہائی کے بعد تو اردو زبان کو پاکستان میں مکمل طور پر یتیم کردیا گیا۔ اب اردو کو عزت دینا تو دور کی بات، اسے سرکاری طور پر سربازار رسوا کیا جاتا ہے۔”کانسٹیٹیوشن ایونیو“ ہے۔۔۔ مگر ”شاہراہ دستور“ نہیں۔اردو لکھنا تو دور کی بات، یا رومن اردو ہے یا اردو میں انگریزی۔

کسی بھی قوم کا عروج و زوال اور دنیا میں اس کی عزت و غیرت، اس کے زر مبادلہ کے ذخائر کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس وجہ سے ہوتی ہے کہ وہ کس قدر اپنی تاریخ، نظریہئ، روایات، اقدار، زبان، ثقافت اور تہذیب کے معاملے میں حساس ہے۔ہر عظیم قوم میں آپ یہ خوبی پائیں گے، اورہر خوار قوم ان سے محروم ہوگی۔جو قوم اپنی تاریخ گم کر بیٹھے، اپنی زبان کو ترک کردے، پھر چاہے کتنی مالدار ہی کیوں نہ ہوجائے، اس کے نصیب میں صرف ذلت و رسوائی ہی ہوتی ہے۔انگریزی زبان سے ہمارا رشتہ صرف غلامی کا ہے۔ جبھی ہماری پارلیمان کا اسپیکر ملکہ کو مخاطب کرکے کہتا ہے:”ہم آج بھی آپ کے غلام شہری ہیں“۔

ریاست مدینہ دنیا کی سب سے مسکین اور غریب ترین ریاست تھی، مگر دنیا کی سب سے زیادہ معزز، غیرت مند، دلیر اور عدل و انصاف کی حامل ریاست۔ریاست مدینہ کا مطلوب معیار زندگی بلند کرنے کی بجائے، معیار انسانیت کو بلند کرنا تھا۔

اپنی تاریخ، زبان، تہذیب، تمدن، اخلاقیات اورروایات کی حفاظت کرنے کے لیے کوئی مال و دولت کی ضرورت نہیں، صرف نیت و غیرت و حکمت چاہیے۔ اگر اردو ہم سے گم گئی، تو سمجھو سب کچھ ہم سے گم گیا۔اردو ایک زبان نہیں، ہماری غیرت، ہماری شناخت اور ہمارے دین و تہذیب و تمدن کی محافظ ہے۔انگریزی ضرور سیکھیں، مگر یہ کس بدبخت نے کہا ہے کہ اردو کو تباہ کردیں؟انگریزی کی ضرورت ہمیں فی الحال صرف سائنس و ٹیکنالوجی کیلئے ہے، کہ اردو کو یہاں پھلنے پھولنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ریاست و عدالت و حکومت کا تمام کام اردو زبان میں کیا جاسکتا ہے۔

جس دن آپ یہ دیکھیں کہ ریاست پاکستان کا پورا نظام اردو زبان میں چلایا جانے لگا ہے، اس دن آپ یہ سمجھ لیں کہ صحیح معنوں میں آزاد اور غیرت مند حکمران آج اس ملک کو ملے ہیں۔غلاموں، بے شرموں، بے غیرتوں اور ملک کے نوکروں کے نصیب میں یہ سعادت ہے ہی نہیں۔۔۔!!!

 

Thursday 8 October 2020

October 8th, 2020

  

لوگ ہمیشہ مجھ سے کہتے ہیں کہ غداری کے سرٹیفیکیٹ نہ بانٹیں۔۔ عدالتوں کو فیصلہ کرنے دیں۔۔

سوال یہ ہے کہ جب عدالتی کیس ہی نہ سنیں تو پھر کیا کریں؟

پتہ نہیں کس ملک کے اخبار نے کس ملک کی عدالتوں کے لیے کہا تھا کہ " یہ سرمایہ داروں کے دروازے پر بیٹھی کتیا ہیں"..


 

لوگ ہمیشہ مجھ سے کہتے ہیں کہ غداری کے سرٹیفیکیٹ نہ بانٹیں۔۔ عدالتوں کو فیصلہ کرنے دیں۔۔

سوال یہ ہے کہ جب عدالتی کیس ہی نہ سنیں تو پھر کیا کریں؟

پتہ نہیں کس ملک کے اخبار نے کس ملک کی عدالتوں کے لیے کہا تھا کہ " یہ سرمایہ داروں کے دروازے پر بیٹھی کتیا ہیں"..

 
 

 

Wednesday 7 October 2020

October 7th, 2020

 

قوم پر اللہ کا عذاب ہوتا ہے کہ معاشرے کے سب سے ذلیل ترین کمینے ان پر حکمران بن جاتے ہیں۔۔

اور قوم اور اس کی اشرافیہ جب پھر بھی توبہ نہیں کرتے تو پھر اللہ ان کو تبدیل کر دیتا ہے۔۔۔

یہ فطرت کے فیصلے ہیں کسی کے ماننے یا نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔

 

 

 قوم پر اللہ کا عذاب ہوتا ہے کہ معاشرے کے سب سے ذلیل ترین کمینے ان پر حکمران بن جاتے ہیں۔۔

اور قوم اور اس کی اشرافیہ جب پھر بھی توبہ نہیں کرتے تو پھر اللہ ان کو تبدیل کر دیتا ہے۔۔۔

یہ فطرت کے فیصلے ہیں کسی کے ماننے یا نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔

 
 

 

Tuesday 6 October 2020

October 6th, 2020

 پاک سرزمین کے غدار

 


*پاک سرزمین کے غدار۔۔۔!*
تحریر: سید زید زمان حامد
تاریخ اسلام گواہ ہے کہ مسلمان ریاستوں نے جب بھی بیرونی دشمنوں سے شکست کھائی ہے تو اس کی اصل وجہ اندر کے غدار تھے، اور یہ غدار ہمیشہ ریاست کے اعلیٰ ترین عہدوں پر پوری قوت اور طاقت کے ساتھ براجمان تھے۔
کوئی ملک کا وزیراعظم تھا، کوئی وزیر دفاع اور کوئی سپہ سالار۔۔۔
خلافت عباسیہ کی تباہی کے کئی اسباب ہیں، مگر اس کو ضرب قاتل اس وقت لگی جب خلیفہ کا وزیراعظم ابن علقمی غداری کرکے تاتاریوں سے مل گیا اور نہ صرف ریاست کے تمام خفیہ راز ہلاکو خان تک پہنچائے بلکہ اپنے اختیار اور طاقت کو استعمال کرکے چار لاکھ کی مسلح افواج کو بھی غیر مسلح کرکے تتر بتر کروادیا۔ نتیجہ پھر وہی نکلا جو تاریخ کا ایک عبرتناک باب ہے۔
میر جعفر اور میر صادق دونوں بنگال اور دکن کے سپہ سالار، وزیردفاع اور وزیراعظم تھے۔ اب تاریخ میں رہتے دم تک اس طرح جانے جاتے ہیں:
جعفر از بنگال، صادق از دکن
ننگ ملت، ننگ دیں، ننگ وطن
مگر اس وقت ان کی غداری سے دو مسلمان ریاستیں نہ صرف تباہ ہوئیں بلکہ ہند میں ایک ہزار سال تک رہنے والی اسلامی حکومت بھی تباہ و برباد ہو کر ایسے فنا ہوئی کہ پورا ہند ہی کفار کا غلام بن گیا اور آج تک اس زخم سے لہو بہہ رہا ہے۔
بزرگ کہتے ہیں کہ جو قومیں تاریخ سے سبق نہیں سیکھتیں، جلد ہی ان کا جغرافیہ بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔ ہم پاکستانی تو اس حکمت کا انتہائی تکلیف دہ عملی مظاہرہ دیکھ بھی چکے ہیں۔ ہم نے نہ بغداد کے غداروں سے کچھ سیکھا، نہ بنگال و دکن کے، نتیجتاً 1971 ءمیں اپنا جغرافیہ تبدیل کروابیٹھے۔
مگر اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے پچاس برس کے بعد بھی اس قوم نے کوئی سبق سیکھ کر نہیں دیا۔ ایک ناقابل یقین بات لگتی ہے کہ 1971 ءکے اتنے بڑے سانحے پر کسی ایک غدار کو بھی نہ تو سزا دی گئی اور نہ ہی کوئی سبق سیکھا گیا۔ نتیجتاً آج دو نسلیں گزرنے کے بعد بھی ہم وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں جو پاکستان بنانے والی نسل نے کی تھیں۔۔۔ غداروں کو عہدہ، طاقت اور اختیار دینا۔۔۔!
شیخ مجیب الرحمن ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ تھا۔ 65 ءکی جنگ کے بعد ہی کھل کر بھارت کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان کو توڑنے کی سازش بناچکا تھا۔ اگرتلہ سازش تاریخی حقیقت بھی ہے اور عبرتناک باب بھی۔ ہر طرح کے قانونی اور آئینی شواہد ہونے کے باوجود کھلم کھلا غداروں کو نہ صرف باعزت بری کیا گیا بلکہ دوبارہ الیکشن میں حصہ دلوا کر ریاست کی حکمرانی تک حوالے کرنے کی نوبت آن پہنچی۔ اور پھر اس ریاستی حماقت کا بھی وہی نتیجہ نکلا جو بغداد و بنگال و دکن میں نکلا تھا۔
میں اللہ و حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ آج پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں غداروں سے اٹی پڑی ہیں۔ شرعی اور قانونی طور پر الطاف حسین، زرداری، نواز شریف، فضل الرحمن، اچکزئی، اسفندیار ولی اور منظور پشتین ہر لحاظ سے ملک و قوم و ملت کے غدار ہیں۔ یہ پاکستان کے وجود کو صرف اس وقت تک قبول کرتے ہیں کہ جب تک ان کو حق حکمرانی دے کر اس ملک و قوم کی ہڈیوں تک سے گودہ تک نکال لینے کی اجازت ہو۔ جس لمحے ان سے اختیار و طاقت و دولت لوٹنے کا موقع چھین لیا جائے، یہ کھلم کھلا ملک دشمن اوروقت کے مجیب الرحمن و میر جعفر و میر صادق و ابن علقمی بن کر نکلتے ہیں۔
اگر ایک پٹواری رشوت لے تو اسے کرپشن کہتے ہیں۔ جب ملک کا وزیراعظم رشوت لے تو اسے غداری اور معاشی دہشت گردی کہتے ہیں۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان معاشی دہشت گرد تو ہیں ہی، مگر سیاسی اور دفاعی طور پر بھی کھلم کھلا دشمن کے مفادات کے لیے کام کرنے والے اور ملک و قوم و ملت کے غدار ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی نظریاتی پاکستانی نہیں ہے۔ دو ٹکے کے لچے لفنگے، سڑکوں پر گندی فلموں کے ٹکٹ بلیک کرنے والے، یا طوائفوں کے بازار میں گجرے بیچنے والے، شارٹ کٹ لگا کر سیاست کے ذریعے جب ملک و قوم کے حاکم بن بیٹھیں تو ہر قدم پر ان حرامزادوں کا کمینہ پن ابل ابل کر باہر آئے گا۔
میموگیٹ اٹھا کر پڑھ لیں، حسین حقانی اور زرداری نے یہ سازش کی تھی کہ امریکہ اور بھارت کے ذریعے جی ایچ کیو پر اس وقت حملہ کروایا جائے جب وہاں کور کمانڈر کانفرنس ہورہی ہو اور پھر امریکیوں کو اختیار دیا جائے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں پر قبضہ کرسکیں۔ پاکستان کے حصے بخرے کرکے سندھ کو الگ کردیا جائے جہاں زرداری اپنی الگ حکومت بنالے۔ اس کیس کو فوج اور آئی ایس آئی کی طرف سے سپریم کورٹ میں داخل کیا گیا تھا، مگر افتخار چوہدری جیسے جہنمی قاضی نے معاملے کو ایسا دبا دیا کہ آج کسی کو کان و کان خبر نہیں کہ زرداری کتنی بڑی چال چل گیا تھا۔۔۔
نواز شریف کو طیارہ اغواءکرنے کے کیس میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ مگر اس کا جرم تو فوج میں بغاوت کروانا تھا کہ جس پر نہ تو کوئی مقدمہ چلا اور نہ ہی اسے کوئی سزا سنائی گئی۔ فوج کے حاضر سروس سپہ سالار کے خلاف فوج میں ہی بغاوت کروا کر ڈی جی آئی ایس آئی کو خفیہ طور پر نیا سپہ سالار بنا دیا گیا اور جس کے نتیجے میں صورتحال اس قدر خطرناک ہوگئی کہ پاک فوج کے دستے مسلح ہو کر ایک دوسرے کے آمنے سامنے تقریباً خون خرابا کرنے صف آراءہوگئے۔ ملک میں دو سپہ سالار تھے، اور فوج تقسیم ہوچکی تھی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ نواز شریف کو اس جرم پر کوئی سزا نہیں دی گئی۔ ابھی بھی دی جاسکتی ہے۔۔۔!
کیا الطاف حسین کے غدار ہونے پر کسی کو شک ہے۔۔۔؟
کیا اچکزئی، اسفندیار ولی اور منظور پشتین کے غدار ہونے پر کسی کو شک ہے۔۔۔؟
کیا فضلو کے بھارت اور پاکستان دشمن طاقتوں سے تعلقات پر کسی کو شک ہے۔۔۔؟
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں عدالت نام کا کوئی ادارہ وجود ہی نہیں رکھتا۔ ملک کے قاضی القضاءشراب کی بوتلوں پر تو ”ازخود نوٹس“ لے سکتے ہیں، مگر سیاست دانوں کی کھلم کھلا غداریوں پر سکتے طاری ہوجاتے ہیں۔
لہذا یہ کہنا کہ جب تک عدالتوں سے سزا نہ ہو کسی کو غدار نہیں کہا جاسکتا ایک بے معنی اور لا یعنی جملہ ہے۔ نہ غداروں پر مقدمے چلائے جاتے ہیں نہ ان کو سزائیں دی جاتی ہیں بلکہ جو جتنا بڑا غدار ہو ملک میں وہ حرامی اتنا ہی بڑا معزز ہوتا ہے۔
کیا فوج میں بھی غدار ہوتے ہیں۔۔۔؟
جی ہاں۔۔! جب ملک کا سپہ سالار شرمناک حد تک بدکردار ہوکہ اس کی حماقت اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے ملک ٹوٹ جائے تو یہ جرم بھی غداری میں شمار ہوتا ہے۔ کسی بھی باکردار ملک میں ایسے سپہ سالار کو گولی سے اڑا دیا جاتا ہے، مگر پاکستان میں یحییٰ خان کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا جو بھٹو اور مجیب کے نصیب میں آیا، یعنی مکمل بریت۔۔۔
حال ہی میں فوج نے ایک لیفٹیننٹ جنرل اور بریگیڈیئر کو غداری کے جرم میں سزائیں سنائیں ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل کو تو شاید عمر قید دی گئی ہے، مگر بریگیڈیئر کو پھانسی چڑھا دیا گیا ہے۔ فوج نے اپنے اندر احتساب کرکے اچھی روایت قائم کی ہے۔
کیا ججوں میں بھی غدار ہوتے ہیں۔۔۔؟
جی ہاں۔۔۔! آج اگر پاکستان کی ریاست تباہ و برباد ہے تو عدالتی دہشت گردی کی وجہ سے ہے۔ سیاسی یا نظریاتی طور پر اپنے فیصلوں کو دشمنوں کے ہاتھ فروخت کرنے والے قاضیوں کی اس ملک میں کوئی کمی نہیں ہے۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی لحاظ نہیں ہے کہ آج پاکستان ایک مرتبہ پھر 1971 ءکے دوراہے پر کھڑا ہے۔ اس وقت تین بڑے غدار تھے، آج ہر سیاسی جماعت میں چونٹیوں اور سنڈیوں کی طرح رینگ رہے ہیں۔ شرمناک اور حیران کن بات ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی سیاستدان کو غداری کے جرم پر سزا نہیں دی گئی۔ ہم نے تاریخ سے کچھ بھی نہیں سیکھا اور مجھے خوف ہے کہ کہیں فطرت ایک مرتبہ پھر ہمارے جغرافیے کو تبدیل نہ کردے۔
کسی سیاسی کمینے پر غداری کا کیس خراب کرنا ہو تو اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کیس کو اس قدر پھیلا دیا جائے اور اتنے لوگوں کو ملوث کردیا جائے کہ غداری کے اصل جرم سے نگاہ ہٹ کر صرف سیاسی انتقام میں الجھ جاتی ہے۔ ن لیگ کے خلاف حالیہ غداری کیس بھی اسی مکاری کا نتیجہ ہے۔ اصل غدار حلق پھاڑ پھاڑ کر سیاسی انتقام کا بیانیہ پھیلارہے ہیں، ورنہ سادی سی حقیقت ہے کہ نواز اور زرداری ملک و قوم و ملت کے بدترین دشمن اور غدار ہیں۔۔۔!!!
آج ملک کا وزیراعظم، قاضی القضاءاور سپہ سالار ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ اگر ملک میں سانپ اور کتے کھلے پھررہے ہیں تو انہی سے سوال کیا جائے گا۔ اگر ملک ترقی اور خیر کی راہ پر چلتا ہے تو اس کیلئے دعائیں بھی انہیں کو ملیں گی۔ لیکن اگر ملک و قوم کو نقصان ہوا تو پھر امت کی بدعائیں بھی انہی کے نصیب میں ہونگی۔ یہ فیصلہ آج ان کو کرنا ہے، کل تاریخ کرے گی۔۔۔!!!

 

Saturday 3 October 2020

October 3rrd, 2020

اب تو ایک اندھے کو بھی نظر آرہا ہے کہ اس پارلیمانی جمہوریت کے کینسر شدہ نظام میں غلیظ غدار سیاسی جماعتوں کے ساتھ پاکستان صرف غرق ہو سکتا ہے اٹھ نہیں سکتا۔

مگر وزیر اعظم چیف جسٹس اور سپہ سالار پورا اختیار رکھنے کے باوجود اسی غلیظ نظام کو چلانا چاہتے ہیں۔

سزا تو ہماری بنتی ہے

https://twitter.com/ZaidZamanHamid/status/1312114397922299904?s=19&fbclid=IwAR3Tk1zjXjYP0SPHJdSU3YZ05dquZqbH75X9GPffrYKxHhPv8zyU-6JoNoQ

 


 


لگتا ہے ان صاحب نے میری کوئی پرانی تقریر حال ہی میں سنی ہے۔۔

پچھلے ١٣ برس سے ہر روز میں یہی بات دہرا رہا ہوں۔

مگر آج بھی الطاف حسین حکومت کا حصہ ہے، خود انہوں نے نواز شریف کو ملک سے باہر بھیجا، زرداری آج بھی ملک پر حکومت کر رہا ہے، پی ٹی ایم کو یہ خود سمبلی میں لے کر آئے۔۔

‏کیا میں سالوں سے یہ بات نہیں کہہ رہا کہ اصل مقدمات پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر غداری کے بنتے ہیں کرپشن کے نہیں۔۔

آج شیخ مجیب الرحمن کی طرح تمام سیاسی جماعتوں کو بھارتی را یا سی ای اے خرید چکی ہے ۔۔

اب خود تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ غدار ہیں ۔ پھر پکڑ کر لٹکاتے کیوں نہیں؟

‏میں نے کہا نہ کہ تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کے اسی نظام سے مفاد وابستہ ہے۔۔ اگر غداروں کو پکڑتے ہیں تو جمہوریت ختم ہوتی ہے۔۔ جمہوریت ختم ہوتی ہے تو ان کی حکومت جاتی ہے۔۔ لہذا غداروں کو پکڑنے کے بجائے ان کو پارلیمان میں حصہ دار بنایا جاتا ہے۔۔

یہی غلاظت 70 سال سے چل رہی ہے۔

‏وزیراعظم کہتا ہے کہ اگر فوج اور آئی ایس آئی میری مرضی کے خلاف کام کرے تو میں فورا ان کو برطرف کر دو ں۔

کم از کم اس سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ ملک میں بننے والی ہر پالیسی کا خود ذمہ دار وزیراعظم ہے۔

چاہے کشمیر کی فروخت ہو، یا ڈاکو کو ملک سے فرار کرانا۔

عدالت یا فوج پر الزام نہ دیں

‏ایک ہفتے کا کام ہے پاکستان کو ٹھیک کرنا۔۔ مگر جیسا کہا نہ کہ یہ کرنا ہی نہیں چاہتے کتے کیونکہ ان کے اپنے مفادات اسی کینسر زدہ نظام سے وابستہ ہیں۔

چور کے ہاتھ کاٹیں اور قاتل ڈاکو کو سولی چڑھایں۔

ملک میں صدارتی نظام لگائیں اور نظام تبدیل کریں۔

مگر یہ تو نہیں کرنا انہوں نے۔

‏اب تو ایک اندھے کو بھی نظر آرہا ہے کہ اس پارلیمانی جمہوریت کے کینسر شدہ نظام میں غلیظ غدار سیاسی جماعتوں کے ساتھ پاکستان صرف غرق ہو سکتا ہے اٹھ نہیں سکتا۔

مگر وزیر اعظم چیف جسٹس اور سپہ سالار پورا اختیار رکھنے کے باوجود اسی غلیظ نظام کو چلانا چاہتے ہیں۔

سزا تو ہماری بنتی ہے۔

 

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/3368092279912226

October 1st, 2020

#Turkish subtitles of our message for #AzerbaijanNotAlone
Let the armies of the Crescent unite....🇹🇷🇹🇷🇵🇰🇵🇰🇦🇿🇦🇿

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/3364414340280020 

 


 

#Turkish subtitles of our message for #AzerbaijanNotAlone
Let the armies of the Crescent unite....🇹🇷🇹🇷🇵🇰🇵🇰🇦🇿🇦🇿

 

 https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/3364414340280020