Friday 31 July 2020

July 31st, 2020

The dream of Pakistan as a great nation, is simply not compatible with this nonsense. This path leads to slavery, destruction and the eventual loss of our nation




The dream of Pakistan as a great nation, is simply not compatible with this nonsense. This path leads to slavery, destruction and the eventual loss of our nation. There is no middle way with people such as these..
We will have to choose between this democracy and Pakistan now!



ایک معمولی زکام کے خوف سے دین اسلام کے بنیادی رکن کو گرا دینے والی قوم کی اللہ کو کیا حاجت ہے؟

اللہ کیوں نا اس قوم کو تبدیل کرکے کوئی دوسری قوم لے آے جو اللہ سے پیار کرتے ہوں اور اللہ ان سے پیار کرتا ہو، اور جو اللہ کے علاوہ کسی اور سے نہ ڈریں۔۔

ہم نے اپنی جانوں پر بہت ظلم کیا




ایک معمولی زکام کے خوف سے دین اسلام کے بنیادی رکن کو گرا دینے والی قوم کی اللہ کو کیا حاجت ہے؟
اللہ کیوں نا اس قوم کو تبدیل کرکے کوئی دوسری قوم لے آے جو اللہ سے پیار کرتے ہوں اور اللہ ان سے پیار کرتا ہو، اور جو اللہ کے علاوہ کسی اور سے نہ ڈریں۔۔
ہم نے اپنی جانوں پر بہت ظلم کیا




Eid Mubarak to those who are sacrificing their selves, their sons, husbands, brothers and loved ones, their wealth and time for the sake of this Ummah and beloved Pak sarzameen......


Eid Mubarak to those who are sacrificing their selves, their sons, husbands, brothers and loved ones, their wealth and time for the sake of this Ummah and beloved Pak sarzameen......
They are true inheritors of the sacred Ibrahimic tradition....and deserve the dua.
May allah accept our sacrifices and purify us and make us the instruments of His divine will...... And the guardians of this nation...
May Allah accept your sacrifices.

Monday 27 July 2020

July 28th, 2020

مشرکوں کے ایماء  پر پاک فوج کے شیروں پر بھونکنے والے کتوں کے لیے ہمارا واضح پیغام۔۔۔ جنگ ہے تو پھر جنگ ہے۔۔! ⁦ 🇵🇰🇵🇰🇵🇰 ⁩⁦  ⁩⁦




Sunday 26 July 2020

July 26th, 2020

پاکستانی قوم کا المیہ نا تعلیم کی کمی ہے نا پیسے کی۔۔۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم غلام لوگ ہیں۔۔




پاکستانی قوم کا المیہ نا تعلیم کی کمی ہے نا پیسے کی۔۔۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم غلام لوگ ہیں۔۔

ایک احساس کمتری میں مبتلا، خوف زدہ اور غلام ذہن قیادت چاہے کتنی مالدار ہی کیوں نہ ہو جائے، کبھی غیرت و وقار کے فیصلے کر ہی نہیں سکتی ۔۔

مرد آزاد اور فقر غیور کے حامل کہاں سے لائیں؟





"جو دوسروں کی دلالی کیلئے اپنوں سے غداری کرے اس کا یہی انجام ہونا چاہیے"

 پاکستانی غداروں کے لیے پیغام۔۔۔ جلد یا بدیر۔۔۔تمہارے ساتھ بھی یہی ہو گا۔۔ ان شاءاللہ


سلطان محمود غزنوی کے پاس ایک شخص ایک چکور لایا جسکا ایک پاوں نہیں تھا۔ جب سلطان نے اس سے چکور کی قیمت پوچھی تو اس شخص نے اس کی قیمت بہت مہنگی بتائی۔ سلطان نے حیران ہو کر اس سے پوچھا کہ اسکا ایک پائوں بھی نہیں ہے پھر بھی اس کی قیمت اتنی زیادہ کیوں بتا رہے ہو؟ تو وہ شخص بولا کہ جب میں چکوروں کا شکار کرنے جاتا ہوں تو یہ چکور بھی شکار پر ساتھ لے جاتا ہوں۔  وہاں جال کے ساتھ اسے باندھ لیتا ہوں تو یہ بھہت عجیب سی آوازیں نکالتا ہے اور دوسری چکوروں کو بلاتا ہے۔  اس کی آوازیں سن کر بہت  سے چکور آ جاتے ہیں اور میں انہیں پکڑ لیتا ہوں۔

سلطان محمود غزنوی نے اس چکور کی قیمت اس شخص کو دے کر چکور کو ذبح کردیا۔ اس شخص نے پوچھا کہ اتنی قیمت دینے کے باوجود اس کو کیوں ذبح کیا؟ سلطان نے اس پر تاریخی الفاظ کہے:

"جو دوسروں کی دلالی کیلئے اپنوں سے غداری کرے اس کا یہی انجام ہونا چاہیے"

 پاکستانی غداروں کے لیے پیغام۔۔۔ جلد یا بدیر۔۔۔تمہارے ساتھ بھی یہی ہو گا۔۔ ان شاءاللہ


https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/3149837261737730


Friday 24 July 2020

July 23rd, 2020

کل جمعۃ المبارک کو اسلامی تاریخ کا ایک عظیم الشان دن ہے۔۔ تمام مسلمانوں پر شکر کے نوافل لازم ہیں۔

کل انشاءاللہ، ایاصوفیہ مسجد میں نماز جمعہ ادا کی جائے گی۔۔

اس امر کی مخالفت پوری دنیا میں صرف کفار اور منافقین کر رہے ہیں





کل جمعۃ المبارک کو اسلامی تاریخ کا ایک عظیم الشان دن ہے۔۔ تمام مسلمانوں پر شکر کے نوافل لازم ہیں۔

کل انشاءاللہ، ایاصوفیہ مسجد میں نماز جمعہ ادا کی جائے گی۔۔

اس امر کی مخالفت پوری دنیا میں صرف کفار اور منافقین کر رہے ہیں۔

اسلامی تہذیب اب اپنی مساجد کو آزاد کرا رہی ہے۔

اللہ اکبر!! ‏آیا صوفیا مسجد کے بارے میں شیطان تمہیں شک میں نہ ڈالے۔۔

جس طرح پاکستان کا قیام اور ہمارا ایٹمی طاقت بننے کا دن اسلامی تاریخ کے عظیم الشان دن ہیں، اسی طرح ایاصوفیہ کو مسجد بنانے کا دن بھی عالم اسلام کے لئے عزت و جلال کا دن ہے۔۔

یہ ایک بہت بڑی بات ہے اگر تم سمجھو تو۔

آج مسلمانوں کے لیے لیے سب سے زیادہ محترم تین بڑی مساجد بند ہیں۔۔

مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔۔

کفار نے نے تقریبا سو برس قبل آیا صوفیا کی مسجد کو بھی بند کر دیا تھا ۔۔۔

اس کا دوبارہ مسجد بننا مسلمان تہذیب کی جانب سے اس مزاحمت کا اعلان ہے جو اب کفار کے خلاف ہوگی۔۔.


Tuesday 21 July 2020

July 20th, 2020

کتنا بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/3132893193432137


کتنا بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں
جب ہندوستان کے آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو میکنن میکنزی بحری جہاز میں بٹھا دیا گیا‘
یہ جہاز17 اکتوبر 1858ء کو رنگون پہنچ گیا‘
شاہی خاندان کے 35 مرد اور خواتین بھی تاج دار ہند کے ساتھ تھیں‘
کیپٹن نیلسن ڈیوس رنگون کا انچارج تھا‘
وہ بندر گاہ پہنچا‘
اس نے بادشاہ اور اس کے حواریوں کو وصول کیا‘
رسید لکھ کر دی اور دنیا کی تیسری بڑی سلطنت کے آخری فرمانروا کو ساتھ لے کر اپنی رہائش گاہ پر آ گیا‘
نیلسن پریشان تھا‘
بہادر شاہ ظفر قیدی ہونے کے باوجود بادشاہ تھا اور نیلسن کا ضمیر گوارہ نہیں کر رہا تھا وہ بیمار اور بوڑھے بادشاہ کو جیل میں پھینک دے مگر رنگون میں کوئی ایسا مقام نہیں تھا جہاں بہادر شاہ ظفر کو رکھا جا سکتا‘
وہ رنگون میں پہلا جلا وطن بادشاہ تھا‘
نیلسن ڈیوس نے چند لمحے سوچا اور مسئلے کا دلچسپ حل نکال لیا‘
نیلسن نے اپنے گھر کا گیراج خالی کرایا اور تاجدار ہند‘ ظِلّ سُبحانی اور تیموری لہو کے آخری چشم و چراغ کو اپنے گیراج میں قید کر دیا‘
بہادر شاہ ظفر17 اکتوبر 1858ء کو اس گیراج میں پہنچا اور 7 نومبر 1862ء تک چار سال وہاں رہا‘
بہادر شاہ ظفر نے اپنی مشہور زمانہ غزل
"لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں‘
"کس کی بنی ہے عالمِ ناپائیدار میں"
اور
"کتنا بدنصیب ہے ظفردفن کے لیے‘
"دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں،
اسی گیراج میں لکھی تھی‘
یہ 7 نومبر کا خُنَک دن تھا اور سن تھا 1862ء۔
بدنصیب بادشاہ کی خادمہ نے شدید پریشانی میں کیپٹن نیلسن ڈیوس کے دروازے پر دستک دی‘ اندر سے اردلی نے بَرمی زُبان میں اس بدتمیزی کی وجہ پوچھی‘
خادمہ نے ٹوٹی پھوٹی بَرمی میں جواب دیا‘
ظِلّ سُبحانی کا سانس اُکھڑ رہا ہے‘
اردلی نے جواب دیا‘
صاحب کتے کو کنگھی کر رہے ہیں‘ میں انھیں ڈسٹرب نہیں کر سکتا‘
خادمہ نے اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا‘
اردلی اسے چپ کرانے لگا مگر آواز نیلسن تک پہنچ گئی‘
وہ غصے میں باہر نکلا‘
خادمہ نے نیلسن کو دیکھا تو وہ اس کے پاؤں میں گر گئی‘ وہ مرتے ہوئے بادشاہ کے لیے گیراج کی کھڑکی کُھلوانا چاہتی تھی‘
بادشاہ موت سے پہلے آزاد اور کھُلی ہوا کا ایک گھونٹ بھرنا چاہتا تھا‘
نیلسن نے اپنا پسٹل اٹھایا‘ گارڈز کو ساتھ لیا‘
گیراج میں داخل ہو گیا۔
بادشاہ کی آخری آرام گاہ کے اندر بَدبُو‘ موت کا سکوت اور اندھیرا تھا‘
اردلی لیمپ لے کر بادشاہ کے سرہانے کھڑا ہو گیا‘
نیلسن آگے بڑھا‘
بادشاہ کا کمبل آدھا بستر پر تھا اور آدھا فرش پر‘
اُس کا ننگا سر تکیے پر تھا لیکن گردن ڈھلکی ہوئی تھی‘ آنکھوں کے ڈھیلے پپوٹوں کی حدوں سے باہر اُبل رہے تھے‘ گردن کی رگیں پھولی ہوئی تھیں اور خشک زرد ہونٹوں پر مکھّیاں بِھنبھِنا رہی تھیں‘ نیلسن نے زندگی میں ہزاروں چہرے دیکھے تھے لیکن اس نے کسی چہرے پر اتنی بے چارگی‘ اتنی غریب الوطنی نہیں دیکھی تھی‘
وہ کسی بادشاہ کا چہرہ نہیں تھا‘
وہ دنیا کے سب سے بڑے بھکاری کا چہرہ تھا اور اس چہرے پر ایک آزاد سانس,
جی ہاں.......
صرف ایک آزاد سانس کی اپیل تحریر تھی اور یہ اپیل پرانے کنوئیں کی دیوار سے لپٹی کائی کی طرح ہر دیکھنے والی آنکھ کو اپنی گرفت میں لے لیتی تھی‘
کیپٹن نیلسن نے بادشاہ کی گردن پر ہاتھ رکھا‘
زندگی کے قافلے کو رگوں کے جنگل سے گزرے مدت ہو چکی تھی‘
ہندوستان کا آخری بادشاہ زندگی کی حد عبور کر چکا تھا‘
نیلسن نے لواحقین کو بلانے کا حکم دیا‘
لواحقین تھے ہی کتنے ایک شہزادہ جوان بخت اور دوسرا اس کا استاد حافظ محمد ابراہیم دہلوی‘ وہ دونوں آئے۔
انھوں نے بادشاہ کو غسل دیا‘ کفن پہنایا اور جیسے تیسے بادشاہ کی نمازِ جنازہ پڑھی‘ قبر کا مرحلہ آیا تو پورے رنگون شہر میں آخری تاجدار ہند کے لیے دوگز زمین دستیاب نہیں تھی‘
نیلسن نے سرکاری رہائش گاہ کے احاطے میں قبر کھدوائی اور بادشاہ کو خیرات میں ملی ہوئی مٹی میں دفن کر دیا‘
قبر پر پانی کا چھڑکاؤ ہورہا تھا ‘
گلاب کی پتیاں بکھیری جا رہی تھیں تو استاد حافظ ابراہیم دہلوی کے خزاں رسیدہ ذہن میں 30 ستمبر 1837ء کے وہ مناظر دوڑنے بھاگنے لگے
جب دہلی کے لال قلعے میں 62 برس کے بہادر شاہ ظفر کو تاج پہنایاگیا‘
ہندوستان کے نئے بادشاہ کو سلامی دینے کے لیے پورے ملک سے لاکھ لوگ دلی آئے تھے اور بادشاہ جب لباس فاخرہ پہن کر‘ تاج شاہی سَر پر سَجَا کر اور نادر شاہی اور جہانگیری تلواریں لٹکا کر دربار عام میں آیا تو پورا دلی تحسین تحسین کے نعروں سے گونج اٹھا‘
نقارچی نقارے بجانے لگے‘ گویے ہواؤں میں تانیں اڑانے لگے‘
فوجی سالار تلواریں بجانے لگے
اور
رقاصائیں رقص کرنے لگیں‘ استاد حافظ محمد ابرہیم دہلوی کو یاد تھا بہادر شاہ ظفر کی تاج پوشی کا جشن سات دن جاری رہا اور ان سات دنوں میں دِلّی کے لوگوں کو شاہی محل سے کھانا کھلایا گیا مگر سات نومبر 1862ء کی اس ٹھنڈی اور بے مہر صُبح بادشاہ کی قبر کو ایک خوش الحان قاری تک نصیب نہیں تھا۔
استاد حافظ محمد ابراہیم دہلوی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘
اس نے جوتے اتارے‘
بادشاہ کی قبر کی پائینتی میں کھڑا ہوا
اور
سورۃ توبہ کی تلاوت شروع کر دی‘
حافظ ابراہیم دہلوی کے گلے سے سوز کے دریا بہنے لگے‘
یہ قرآن مجید کی تلاوت کا اعجاز تھا یا پھر استاد ابراہیم دہلوی کے گلے کا سوز,
کیپٹن نیلسن ڈیوس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘
اس نے ہاتھ اٹھایا اور اس غریبُ الوطن قبر کو سیلوٹ پیش کر دیا اور اس آخری سیلوٹ کے ساتھ ہی مغل سلطنت کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا‘
آپ اگر کبھی رنگون جائیں تو آپ کو ڈیگن ٹاؤن شِپ کی کچّی گلیوں کی بَدبُودار جُھگّیوں میں آج بھی بہادر شاہ ظفر کی نسل کے خاندان مل جائیں گے‘
یہ آخری مُغل شاہ کی اصل اولاد ہیں مگر یہ اولاد آج سرکار کے وظیفے پر چل رہی ہے‘
یہ کچی زمین پر سوتی ہے‘ ننگے پاؤں پھرتی ہے‘ مانگ کر کھاتی ہے اور ٹین کے کنستروں میں سرکاری نل سے پانی بھرتی ہے,
مگر یہ لوگ اس کَسمَپُرسی کے باوجود خود کو شہزادے اور شہزادیاں کہتے ہیں‘
یہ لوگوں کو عہد رفتہ کی داستانیں سناتے ہیں اور لوگ قہقہے لگا کر رنگون کی گلیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔

Sunday 19 July 2020

July 18th, 2020

بدترین قتلِ عام: جس میں مرنے والوں کی تدفین پچیس سال سے جاری


بدترین قتلِ عام: جس میں مرنے والوں کی تدفین پچیس سال سے جاری
تحریر: ندیم رزاق کھوہارا
حکم ہوا تمام مردوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے۔ فوجی شہر کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ ماؤں کی گود سے دودھ پیتے بچے چھین لیے گئے۔ بسوں پر سوار شہر چھوڑ کر جانے والے مردوں اور لڑکوں کو زبردستی نیچے اتار لیا گیا۔ لاٹھی ہانکتے کھانستے بزرگوں کو بھی نہ چھوڑا گیا۔ سب کے سب مردوں کو اکٹھا کر کے شہر سے باہر ایک میدان کی جانب ہانکا جانے لگا۔
ہزاروں کی تعداد میں لوگ تھے۔ عورتیں چلا رہی تھیں۔ گڑگڑا رہی تھیں۔ اِدھر اعلانات ہو رہے تھے:
"گھبرائیں نہیں کسی کو کچھ نہیں کہا جائے گا. جو شہر سے باہر جانا چاہے گا اسے بحفاظت جانے دیا جائے گا۔"
زاروقطار روتی خواتین اقوامِ متحدہ کے اُن فوجیوں کی طرف التجائیہ نظروں سے دیکھ رہی تھیں جن کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ شہر محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ لیکن وہ سب تماشائی بنے کھڑے تھے۔
شہر سے باہر ایک وسیع و عریض میدان میں ہر طرف انسانوں کے سر نظر آتے تھے۔ گھٹنوں کے بل سر جھکائے زمین پر ہاتھ ٹکائے انسان. جو اس وقت بھیڑوں کا بہت بڑا ریوڑ معلوم ہوتے تھے۔ دس ہزار سے زائد انسانوں سے میدان بھر چکا تھا۔
ایک طرف سے آواز آئی فائر۔۔۔۔۔
تڑخ تڑخ تڑخ۔۔۔۔۔۔
سینکڑوں بندوقوں سے آوازیں بہ یک وقت گونجیں۔ لیکن اس کے مقابلے میں انسانی چیخوں کی آواز اتنی بلند تھی کہ ہزاروں کی تعداد میں برسنے والی گولیوں کی تڑتڑاہٹ بھی دب کر رہ گئی۔ ایک قیامت تھی جو برپا تھی۔ ماؤں کی گودیں اجڑ رہی تھیں۔ بیویاں آنکھوں کے سامنے اپنے سروں کے تاج تڑپتے دیکھ رہی تھیں۔ بیوہ ہو رہی تھیں۔ دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھیں۔ سینکڑوں ایکڑ پر محیط میدان میں خون، جسموں کے چیتھڑے اور نیم مردہ کراہتے انسانوں کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔ شیطان کا خونی رقص جاری تھا اور انسانیت دم توڑ رہی تھی۔
ان سسکتے وجودوں کا ایک ہی قصور تھا کہ یہ کلمہ گو مسلمان تھے۔
اس روز اسی سالہ بوڑھوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے معصوم پوتوں کی لاشوں کو تڑپتے دیکھا۔ بے شمار ایسے تھے جن کی روح شدتِ غم سے ہی پرواز کر گئی۔
شیطان کا یہ خونی رقص تھما تو ہزاروں لاشوں کو ٹھکانے لگانے کو مشینیں منگوائی گئیں۔ بڑی بڑی گڑھے کھود کر پانچ پانچ سو، ہزار ہزار لاشوں کو ایک ہی گڑھے میں پھینک کر مٹی سے بھر دیا گیا۔ یہ بھی نہ دیکھا گیا کہ لاشوں کے اس ڈھیر میں کچھ نیم مردہ سسکتے اور کچھ فائرنگ کی زد سے بچ جانے والے زندہ انسان بھی تھے۔
لاشیں اتنی تھیں کہ مشینیں کم پڑ گئیں۔ بے شمار لاشوں کو یوں ہی کھلا چھوڑ دیا گیا اور پھر رُخ کیا گیا غم سے نڈھال ان عورتوں کی جانب جو میدان کے چہار جانب ایک دوسرے کے قدموں سے لپٹی رو رہی تھیں۔
انسانیت کا وہ ننگا رقص شروع ہوا کہ درندے بھی دیکھ لیتے تو شرم سے پانی پانی ہو جاتے۔ شدتِ غم سے بے ہوش ہو جانے والی عورتوں کا بھی ریپ کیا گیا۔ خون اور جنس کی بھوک مٹانے کے بعد بھی چین نہ آیا۔ اگلے کئی ہفتوں تک پورے شہر پر موت کا پہرہ طاری رہا۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اقوامِ متحدہ کے پناہ گزیں کیمپوں سے بھی نکال نکال کر ہزاروں لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ محض دو دن میں پچاس ہزار نہتے مسلمان زندہ وجود سے مردہ لاش بنا دیے گئے۔
یہ تاریخ کی بدترین نسل کشی تھی۔ ظلم و بربریت کی یہ کہانی سینکڑوں ہزاروں سال پرانی نہیں، نہ ہی اس کا تعلق وحشی قبائل یا دورِ جاہلیت سے ہے۔ یہ 1995 کی بات ہے جب دنیا اپنے آپ کو خودساختہ مہذب مقام پر فائز کیے بیٹھی تھی۔ اور یہ مقام کوئی پس ماندہ افریقی ملک نہیں بلکہ یورپ کا جدید قصبہ سربرینیکا تھا۔ یہ واقعہ اقوامِ متحدہ کی نام نہاد امن فورسز کے عین سامنے بلکہ ان کی پشت پناہی میں پیش آیا۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ مبالغہ آرائی ہے تو ایک بار سربرینیکا واقعے پر اقوامِ متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کا بیان پڑھ لیجیے جس نے کہا تھا کہ یہ قتلِ عام اقوامِ متحدہ کے چہرے پر ایک بدنما داغ کی طرح ہمیشہ رہے گا
نوے کی دہائی میں یوگوسلاویہ ٹوٹنے کے بعد بوسنیا کے مسلمانوں نے ریفرنڈم کے ذریعے سے اپنے الگ وطن کے قیام کا اعلان کیا۔ بوسنیا ہرزیگوینا کے نام سے قائم اس ریاست میں مسلمان اکثریت میں تھے جو ترکوں کے دورِ عثمانی میں مسلمان ہوئے تھے اور صدیوں سے یہاں آباد تھے۔ لیکن یہاں مقیم سرب الگ ریاست سے خوش نہ تھے۔ انہوں نے سربیا کی افواج کی مدد سے بغاوت کی۔ اس دوران میں بوسنیا کے شہر سربرینیکا کے اردگرد سرب افواج نے محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ کئی سال تک جاری رہا۔
اقوامِ متحدہ کی امن افواج کی تعیناتی کے ساتھ ہی باقاعدہ اعلان کیا گیا کہ اب یہ علاقہ محفوظ ہے۔ لیکن یہ اعلان محض ایک جھانسا ثابت ہوا۔ کچھ ہی روز بعد سرب افواج نے جنرل ملادچ کی سربراہی میں شہر پر قبضہ کر لیا اور مسلمانوں کی نسل کشی کا وہ انسانیت سوز سلسلہ شروع کیا جس پر تاریخ آج بھی شرمندہ ہے۔ اس دوران نیٹو افواج نے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی۔ کیونکہ معاملہ مسلمانوں کا تھا۔
جولائی 1995 سے جولائی 2020 تک پچیس سال گذر گئے۔ آج بھی مہذب دنیا اس کلنک کو دھونے میں ناکام ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا واحد واقعہ ہے جس میں مرنے والوں کی تدفین پچیس سال سے جاری ہے۔ آج بھی سربرینیکا کے گردونواح سے کسی نہ کسی انسان کی بوسیدہ ہڈیاں ملتی ہیں تو انہیں اہلِ علاقہ دفناتے نظر آتے ہیں۔
جگہ جگہ قطار اندر قطار کھڑے پتھر اس بات کی علامت ہیں کہ یہاں وہ لوگ دفن ہیں جن کی اور کوئی شناخت نہیں ماسوائے اس کے کہ وہ مسلمان تھے۔
سربرینیکا کا میدان، جہاں قتلِ عام ہوا تھا، کی سرسراتی ہواؤں میں آج بھی خون کی مہک آتی ہے۔ گو کہ بعد میں دنیا نے سرب افواج کی جانب سے بوسنیائی مسلمانوں کی اس نسل کشی میں اقوامِ متحدہ کی غفلت اور نیٹو کے مجرمانہ کردار کو تسلیم کر لیا۔ کیس بھی چلے معافیاں بھی مانگی گئیں۔ مگر
ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا
شروع کے چند سال ہنگامہ مچا لیکن اب یہ واقعہ آہستہ آہستہ یادوں سے محو ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا کو جنگِ عظیم، سرد جنگ اور یہودیوں پر ہٹلر کے جرائم تو یاد ہیں۔ لیکن مسلمانوں کا قتلِ عام بھولتا جا رہا ہے۔
غیروں سے کیا گلہ۔۔۔۔ ہم میں سے کتنوں کو معلوم ہے کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا بھی تھا؟ پچاس ہزار مردوں اور بچوں کا قتل اتنی آسانی سے بھلا دیا جائے؟ یہ وہ خون آلود تاریخ ہے جسے ہمیں بار بار دنیا کو دکھانا ہو گا۔
جس طرح نائن الیون اور دیگر واقعات کو ایک گردان بنا کر رٹایا جاتا ہے۔ بعینہ ہمیں بھی یاد دلاتے رہنا ہو گا۔ نام نہاد مہذب معاشروں کو ان کا اصل چہرہ دکھاتے رہنا ہو گا۔
اس واقعے میں ہمارے لیے ایک اور بہت بڑا سبق یہ ہے کہ کبھی بھی اپنے تحفظ کے لیے اغیار پر بھروسہ نہ کرو۔ یو این کے کیمپوں سے نکال کر نہتے لوگوں کو مارا گیا۔ نیٹو افواج چاہتیں تو سرب جرنیلوں کو قتلِ عام تو کیا اپنی حدود سے بھی باہر نہ نکلنے دیتیں۔ لیکن مسلمان ان پر بھروسہ کیے رہے۔ اپنی جنگ اپنے ہی زورِ بازو سے لڑی جاتی ہے۔
 

July 19th, 2020

پاکستان کی موجودہ کشمیر پالیسی مجرمانہ غفلت ہے۔۔ نہ صرف اس سے پوری قوم مایوس ہے بلکہ کشمیری پہلی مرتبہ پاکستان سے بدظن ہو چکے ہیں ۔۔ پاک فوج کی عزت اور وقار میں کمی آئی ہے۔۔ اور ہمارے بدترین دشمن کو موقع ملا ہے کہ کشمیر کو ایک اور فلسطینی المیہ بنا دے ۔

 
https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/3130264660361657


پاکستان کی موجودہ کشمیر پالیسی مجرمانہ غفلت ہے۔۔ نہ صرف اس سے پوری قوم مایوس ہے بلکہ کشمیری پہلی مرتبہ پاکستان سے بدظن ہو چکے ہیں ۔۔ پاک فوج کی عزت اور وقار میں کمی آئی ہے۔۔ اور ہمارے بدترین دشمن کو موقع ملا ہے کہ کشمیر کو ایک اور فلسطینی المیہ بنا دے ۔

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/3130264660361657

Friday 17 July 2020

July 17th, 2020

Following our survival series recommendations, our team is designing and making various survival gear not easily available in Pakistan....
Tactical shirts, Combat trousers, Survival backpacks, tactical gloves, survival medical packs...
Prepare while u can!
Wait for details ....


https://www.facebook.com/RhinoTactical/





Following our survival series recommendations, our team is designing and making various survival gear not easily available in Pakistan....
Tactical shirts, Combat trousers, Survival backpacks, tactical gloves, survival medical packs...

Tuesday 14 July 2020

July 14th, 2020

قربانی کرنا، اللہ کی جانب سے ایک زبردست معاشی عبادت بھی ہے۔۔

پورے معاشرے میں کئی سو ارب روپیہ امیروں کی جیبوں سے نکل کر غریب طبقے کی جانب بہتا ہے۔۔

حکومت کو آج کے معاشی بحرانوں میں ہر صورت میں قربانی کرنے میں سہولت دینی چاہیے۔

قربانی پر کوئی پابندی نہ لگایں۔ سہولت دیں


 قربانی کرنا، اللہ کی جانب سے ایک زبردست معاشی عبادت بھی ہے۔۔
پورے معاشرے میں کئی سو ارب روپیہ امیروں کی جیبوں سے نکل کر غریب طبقے کی جانب بہتا ہے۔۔
حکومت کو آج کے معاشی بحرانوں میں ہر صورت میں قربانی کرنے میں سہولت دینی چاہیے۔
قربانی پر کوئی پابندی نہ لگایں۔ سہولت دیں۔
‏حکومت جتنے مرضی قوانین بنا لے کبھی بھی اتنی بھاری رقوم امیروں کی جیبوں سے نکل کر غریبوں کی جانب نہیں جا سکتیں۔۔ مگر اللہ کا ایک حکم مسلمان معاشرے میں معاشی انقلاب برپا کر دیتا ہے۔۔
اگر یہ بے وقوف حکومت نظام زکوٰۃ بھی نافذ کر دے تو اس کی تمام معاشی مشکلات دور ہو جائیں۔۔
‏جب اللہ دلوں پر مہر لگا دیتا ہے ہے تو پھر انسان وہی کرتا ہے جو آج کی حکومتیں کر رہی ہیں۔۔
سود کے نظام کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں، زکات نافذ کرنے کے بجائے بھاری ظالمانہ ٹیکس لگاتے ہیں اور مسلمانوں کا مال لوٹنے والے کے ہاتھ نہیں کاٹتے۔۔
پھر کہتے ہیں معیشت خراب ہے
 
 

Sunday 12 July 2020

July 12th, 2020


پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد، ترکی کا یہ مزاحمتی قدم اور مسجد کو دوبارہ قایم کرنا، امت مسلمہ کی جانب سے کفار کے لیے بہت دلیرانہ پیغام ہے۔ اسکو ہلکا نہ سمجھیں ۔۔ یہ امت کے دوبارہ عروج کی جانب ایک بہت بڑا قدم ہے۔

ہمارا تفصیلی تجزیہ۔۔۔


https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/3105993269455463


 
 
پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد، ترکی کا یہ مزاحمتی قدم اور مسجد کو دوبارہ قایم کرنا، امت مسلمہ کی جانب سے کفار کے لیے بہت دلیرانہ پیغام ہے۔ اسکو ہلکا نہ سمجھیں ۔۔ یہ امت کے دوبارہ عروج کی جانب ایک بہت بڑا قدم ہے۔
ہمارا تفصیلی تجزیہ۔۔۔
 
 
 

Crusades never ended...they continue even today.Civilisations are posturing for dominance.
Israel wants to destroy Masjid Aqsa.

 
Crusades never ended...they continue even today.
Civilisations are posturing for dominance.
Israel wants to destroy Masjid Aqsa.
Saudis have shut down two holiest Masjids in Hijaz & going secular..
Turks are reclaiming their Islamic identity taken away from them after WW1.
There has been little joy in the Muslim world lately.....the civilization on the whole is in decline, being decimated & humiliated. Ruled by jackasses and outright traitors.
Within the darkness, few events have brought smiles in Islamic world.
Reclaiming of #HagiaSophiaMosque
Israel is aggressively expanding its illegal existence. Muslim world is in retreat....
Pakistan's nuclear power & Turkey's great leadership potential makes a deadly combo for Israel & all Zionists.
Its an open war now. Any side which is not proactive will be humiliated & beaten.
The Zionist's New World Order is a threat to entire humanity but only Islamic civilization has the moral, religious & ideological strength to present an alternate counter narrative.
Back this ideological strengths with nuclear weapons & great leadership, we have a deadly combo.
Israel only sees Pakistan & Turkey as the last roadblocks to its total domination of the Middle East & world at large.
You can be sure that total war is already being waged against both these countries.
India will be used to degrade Pakistan along with orchestrated chaos inside
Arabs have been neutralized by Israel. There is NO military threat to Israel from Arabs anymore.
Major Arab countries have been destroyed.
The Gulf monarchies are firmly under Israeli control.
Iran is NOT a threat to Israel at all.
That leaves Turkey & Pakistan to deal with.
Turks are the most dignified Muslim nation today.
They have a history to back their courage & honor.
They have not forgotten the humiliation they suffered at the hands of the Crusaders.
Rest assured, they have remained a dagger in European hearts for centuries & will remain so! 
 

Thursday 9 July 2020

July 9th, 2020

کیا آپ لوگوں نے غور کیا کہ دنیا کس سمت میں جا رہی ہے؟

چین کا صدر زی تاحیات اقتدار کے لئے منتخب ہو چکا ہے۔

روس کا صدر پوٹن تاحیات صدر رہے گا۔۔

صہونی پوری دنیا میں ایک نیا ظالمانہ عالمی نظام‌ لا رہے ہیں۔

پوری دنیا آمرانہ حکومتوں کی جانب بڑھ چکی ہے، چاہے شخصی ہو یا گروہی آمریت





کیا آپ لوگوں نے غور کیا کہ دنیا کس سمت میں جا رہی ہے؟
چین کا صدر زی تاحیات اقتدار کے لئے منتخب ہو چکا ہے۔
روس کا صدر پوٹن تاحیات صدر رہے گا۔۔
صہونی پوری دنیا میں ایک نیا ظالمانہ عالمی نظام‌ لا رہے ہیں۔
پوری دنیا آمرانہ حکومتوں کی جانب بڑھ چکی ہے، چاہے شخصی ہو یا گروہی آمریت۔
‏پوری دنیا میں ایک نیا عالمی نظام تشکیل دیا جا رہا ہے ہے کہ جس کا مقصد عالم اسلام کو مکمل طور پر تباہ کرنا ہے۔ دین اسلام کے بنیادی ارکان سے لے کر مسلمان ممالک کی معیشت، تہذیب اور جغرافیہ تک کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔
پوری اسلامی تاریخ میں اتنا بڑا حملہ ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔۔
‏اتنی ہولناک تباہی جو پوری مسلم دنیا میں برپا کی جا رہی ہے، اس کے خلاف اسلامی تہذیب کا کیا ردعمل ہے؟
دہشت زدہ خرگوشوں کی طرح ایک ایک کرکے ذبح کیے جا رہے ہیں۔۔ نہ کوئی سیاسی قیادت ہے، نہ کوئی عسکری اتحاد اور نہ کوئی معاشی تحفظ۔۔
پورے عالم اسلام میں موت کا سکتہ ہے۔۔
‏عالم اسلام میں پاکستان مضبوط ترین ایٹمی طاقت ہے۔ فطری عمل یہ ہونا چاہئے تھا کہ پاکستان امت مسلمہ کے دفاع کے لئے آگے بڑھے اور آنے والی قیامت اور زلزلوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے، مگر اصل قیامت تو یہ ٹوٹی کے خود پاکستان شتر بے مہار کی طرح سکتے کے عالم میں گم سم ہے۔۔
‏پوری دنیا کے کفار پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ جب تک پاکستان قائم و سلامت ہے، صیہونی اور مشرک کبھی سکون سے نہیں بیٹھ سکتے۔
حتی کہ خود چین کو بھی ہمارے اسلامی تشخص سے خوف ہے اور دین اسلام کو سرکاری طور پر ایک کینسر اور وائرس سمجھا جاتا ہے۔۔
اور آج ہمارا کیا حال ہے؟
‏پاکستان کے تمام ریاستی ادارے اس عالمی خطرے کو سمجھنے میں شرمناک حد تک ناکام ہو چکے ہیں۔ ملک کے اندر ریاستی اداروں میں اس قدر انارکی اور فساد پھیلا ہوا ہے کے لگتا ہے کہ کسی بھی آندھی کی صورت میں ریاستی ادارے منہدم ہی ہو جائیں گے۔۔
ملکی قیادت خطرناک حد تک جہالت کا مظاہرہ کر رہی ہے
‏ان حالات میں نوشتہ دیوار پڑھنا اب کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔۔
ایک راہ گم کردہ بھیڑوں کا ہجوم کہ جس کی قیادت ہی بھیڑیے کر رہے ہوں، اس کا انجام بھیانک ہی ہوتا ہے۔
قیادت کی شرمناک جہالت اور قوم کی غیر سنجیدگی مجھے دہشت گردہ کر رہی ہے۔۔
آخری امید عمران خان نہیں اللہ کی ہی ذات پاک ہے۔
‏آپ نے کرونا کے معاملے میں دیکھ ہی لیا کہ اس قیادت اور اشرافیہ نے کس قدر شرمناک جہالت اور خیانت کا مظاہرہ کیا ہے۔ بدانتظامی جہالت نااہلی اور خیانت کا ایسا شرمناک امتزاج کے خود شیطان بھی شرما جاے۔
آنے والے دنوں میں ملک پر دہشت گردی اور پھر ایک بڑی جنگ منڈلا رہی ہے۔
تب کیا ہو گا؟
‏اس پاک سرزمین پر تو سایہ خدائے ذوالجلال ہے اور اللہ اس کی ہمیشہ حفاظت کرے گا، مگر اب بالکل واضح نظر آرہا ہے کہ اللہ کی سخت سزا اس ملک کے حکمرانوں، اشرافیہ اور عوام عوام کو لگنے والی ہے۔
اب تقدیر خون بہا کر کفارہ طلب کرے گی۔
اس قوم اور اسکے حکمرانوں نے توبہ نہیں کرنی۔۔
یا اللہ!
 https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/3098476273540496






جس سلطان کے بارے میں سیدی رسول اللہ میں جنت کی بشارت دی ہو اس کے بارے میں بدگمانی نہ کیا کریں۔۔ اس نے جو کچھ بھی کیا اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق کیا اور جنت کی بشارت کا حقدار ٹھہرا۔۔۔





 جس سلطان کے بارے میں سیدی رسول اللہ میں جنت کی بشارت دی ہو اس کے بارے میں بدگمانی نہ کیا کریں۔۔ اس نے جو کچھ بھی کیا اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق کیا اور جنت کی بشارت کا حقدار ٹھہرا۔۔۔


https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/3100641409990649

Wednesday 8 July 2020

July 8th, 2020

آپ اپنے مندروں میں جانے کیلئے آزاد ہیں، مگر۔۔۔





آپ اپنے مندروں میں جانے کیلئے آزاد ہیں، مگر۔۔۔

تحریر: سید زید زمان حامد
گزشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر یہ رجحان ”کیا ہندو کم درجے کے پاکستانی ہیں؟“ چلایا جارہا ہے۔سوچا ذرا اس کا جواب دے دیں۔
ایک بات میں پاکستان میں رہنے والے ہندوﺅں پر واضح کرتا چلوں۔ پچاس لاکھ مسلمانوں نے اپنی جانیں قربان کرکے اپنے لیے ایک الگ اسلامی ریاست قائم کی تھی تا کہ اس میں اسلامی قوانین اور شریعت کا نفاذ کیا جاسکے۔ ہمارا یہ مضمون پڑھتے وقت اس اہم بات کو مدنظر رکھیے گا۔
برصغیر کے ہندو کبھی بھی پاکستان کے قیام کے حق میں نہیں تھے۔ چنانچہ انہوں نے بہیمانہ مزاحمت کے ساتھ مسلمانوں کے اس مادر وطن کی تعمیر کوروکنے کی کوشش کی۔ اس نسل کشی کے نتیجے میں ہم نے 1947 ءمیں پچاس لاکھ مسلم جانیں گنوائیں۔ ہندوﺅں کا پاکستان کی تعمیر میں کوئی کردار نہ تھا۔ یہ کسی بھی تعصب سے پاک ایک تاریخی حقیقت ہے۔
مسلمانوں نے ہندوﺅں پر ایک ہزار سال تک حکومت کی۔ نہ کوئی نسل کشی ہوئی، نہ زبردستی کسی کو مذہب بدلنے پر مجبور کیا گیا اور نہ ہی کوئی جبری ہجرت کروائی گئی۔ ذرا تصور کیجیئے، ہزار سال کہ جس میں درجنوں مختلف حکمران کہ جن کا تعلق مختلف سلطنتوں سے تھا، سب نے ہندوﺅں کے ساتھ ایک سی رواداری اور برداشت کا رویہ رکھا۔ یہ ہے اسلام!
آج ہزار سال کے بعد تقسیم شدہ ہند میں جب ہندوﺅں کے پاس اقتدار آیا تو ان کا مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک ہے؟ان کی تو نسل کشی کی جارہی ہے۔ لہذا یہ بات آغاز میں ہی واضح ہوجائے کہ پاکستان شریعت کے نفاذ کیلئے بنا تھا نہ کہ سیکولر قوانین کے اطلاق کی غرض سے۔ گو کہ آج ہمارے ملک میں دونوں ہی قوانین رائج ہیں۔
چودہ سو سال کی اسلامی تاریخ اور شرعی قوانین، کہ جو تمام مسلم سلطنتوں میں رائج تھے، میں ہم غیر مسلموں کے ساتھ برداشت اور احسان کا سلوک ہوتا دیکھتے ہیں۔ عیسائی، یہودی، آتش پرست ، مشرک اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے نہایت امن کے ساتھ مسلمان ریاستوں کے اندر رہا کرتے تھے۔
مگر یہ جان لیجیئے کہ جو شرعی قوانین ان اقلیتوں کو حفاظت فراہم کرتے ہیں، ان کی چند شرائط بھی ہیں۔
شریعت مشرکین کیلئے مسلمانوں کے آباد کیے ہوئے شہروں میں مندر بنانے کی اجازت نہیں دیتی۔ مسلم حکومت پہلے سے موجود مندروں میں عبادت کی اجازت تو دے سکتی ہے، مگر وہ مسلمانوں کا پیسہ اور زمین نئے مندر بنانے میں صرف نہیں کرسکتی کہ جہاں بتوں کی پوجا ہو۔ یہ ہمارا شرعی قانون ہے!
پاکستان میں تمام ہندو، یہاں تک کہ ”اچھوت“ یعنی شودور اور دلت بھی ہندوستان سے زیادہ محفوظ ہیں۔ یہاں ان کے اپنے مندر ہیں اور بطور شہری انہیں پورے حقوق حاصل ہیں۔ یہ طاقت کے ایوانوں، سیاست، میڈیا یہاں تک کہ فوج میں بھی موجود ہیں اور ان سے کوئی جزیہ بھی وصول نہیں کیا جاتا۔
لہذا کوئی یہ ڈرامے بازی نہ کرے کہ پاکستان میں ہندوﺅں پر ظلم و ستم کیا جارہا ہے اور یہ کہ مسلمان اسلام آباد میں بسنے والے 178 ہندوﺅں کیلئے مندر کی تعمیر کو روکنے کی کوشش کرکے ان کے حقوق سلب کررہے ہیں۔براہ مہربانی ہماری شریعت اسلامی کی توہین نہ کریں۔
درحقیقت اس مندر کی تعمیر ملک میں بسنے والے کمینے سیکولر طبقے کی طرف سے سیاسی بازی گری ہے کہ جس کے ذریعے یہ پاکستان کے اسلامی تشخص کی توہین کرنا چاہتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام آباد میں پہلے ہی سے صدیوں پرانے تین مندر موجود ہیں کہ جنہیں مسلمانوں نے کبھی نقصان نہیں پہنچایا۔یہ 178 ہندو ان مندروں میں جانے کیلئے پوری طرح آزاد ہیں۔
پاکستانی اشرافیہ زیادہ تر کمینوں پر مشتمل ہے۔ یہ اسلامی قوانین کا مطالبہ صرف اس وقت کرتے ہیں کہ جب ان کے اپنے مفاد میں ہوتا ہے۔ مثلاً قتل کے مقدمات میں خون بہا کا قانون، کہ جواینگلو سیکسن قانون میں موجود نہیں۔ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے آئین کے مطابق شریعت کے خلاف کوئی قانون بن ہی نہیں سکتا۔
چنانچہ پاکستان میں بسنے والے ہندوﺅں سے ہم کہیں گے کہ آپ اپنے مندروں میں جانے کیلئے پوری طرح آزاد ہیں۔ ہم مسلمان آپ کو کبھی نہیں روکیں گے۔ مگر آپ ہم سے یہ توقع نہ رکھیں کہ ہم آپ کیلئے اپنی پاک سرزمین پرکہ جس کو ہم نے لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر حاصل کیا ہے،بت پرستی کے اڈے بھی تعمیر کرکے دیں گے۔ لہذابلاوجہ شور نہ مچائیں اور سکون سے رہیں!
پاکستانی ہندوﺅں کو میری یہ مخلصانہ تنبیہ ہے کہ مودی کے یار اور پاکستان کے لادین کمینے آپ کو بھڑکانا چاہ رہے ہیںتاکہ پاکستان میں ہندو۔مسلم فساد برپا کیا جاسکے۔آپ اس دھوکے میں مت آئیے۔آپ یہاں محفوظ ہیں اور آپ کو اپنے مندروں میں جانے کی پوری آزادی حاصل ہے، مگر شریعت کی توہین نہ کریں۔
پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے کہ جس نے اپنے سبز ہلالی پرچم میں بھی اقلیتوں کو جگہ دی ہے، حالانکہ پورا سبز ہلالی پرچم زیادہ خوبصورت لگتا ہے۔ہماری صلہ رحمی اور نرمی کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں اورپاکستان کی اسلامی ریاست میں شریعت اسلامی کے تابع رہیں۔

Monday 6 July 2020

July 6th, 2020

How to zero your gun effectively with a telescope or red dot sight..
Also, we review the Pakistani clone of M4 Colt made by Farhat ullah of Royal Arms Peshawar...
دوربین یا سرخ نقطے والے عدسے کو اپنی بندوق پر صفر کس طرح کریں؟


https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/3090062784381845





How to zero your gun effectively with a telescope or red dot sight..
Also, we review the Pakistani clone of M4 Colt made by Farhat ullah of Royal Arms Peshawar...
دوربین یا سرخ نقطے والے عدسے کو اپنی بندوق پر صفر کس طرح کریں؟

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/3090062784381845