Saturday 14 December 2019

December 14th, 2019

*سقوط ڈھاکہ*

عیاری وغداری کی شرمناک داستان


قسط-5

*"Bhutto: Born to be Hanged"*

Part-1




*سقوط ڈھاکہ*
عیاری وغداری کی شرمناک داستان

قسط-5
*"Bhutto: Born to be Hanged"*
Part-1

تحریر: سید زید زمان حامد

اس سے پہلے کہ ہم سانحہ سقوط ڈھاکہ میں بھٹو کی غداری پر بات کریں، مناسب ہوگا کہ بھٹو کی شخصیت اور کردار کے بارے میں پاکستان میں تعینات برطانوی سفیر کی رائے پڑھ لیں۔ حیرت انگیز طور پر مردم شناس برطانوی سفیر بھٹو کے بارے میں جس قدر سفاک انداز میں سچائی بیان کرتا ہے وہ یقینا حیران کن ہے۔

”یقینا بھٹو کے پاس وہ تمام خصوصیات تھیں کہ جو بلندیوں تک پہنچانے میں مددگار ہوتی ہیں: جوش، سحر انگیزی، تخیل، ذہانت، زندگی کی رنگینیوں کا شوق، فصاحت و بلاغت، توانائی، مضبوط اعصاب، رگ ظرافت اور بہت ہی موٹی کھال۔ایسا امتزاج شاذ و نادر ہی کسی میں پایا جاتا ہے اور یہی بھٹو کے اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کا باعث تھا۔ مگر ان سب کے باوجود.... میں کیسے کہوں.... اس کے وجود سے آتش جہنم کی غلیظ بدبو آتی تھی۔وہ حقیقتاً انتہائی درجے تک فاسد شدہ شیطان تھا۔

میرے لیے یہ بالکل واضح تھا کہ اس کے دل میں نہ تو کوئی شرم حیاءہے اور نہ ہی دوسرے انسانوں کیلئے کوئی عزت۔اس کی نظر میں سوائے اس کی اپنی ذات کے کسی اور چیز کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔مجھے اس کی ذات میں ایسی سفاکی اور ظلم کرنے کی صلاحیت نظر آئی کہ جو غیر معمولی اور غیر فطری تھی۔اس کی تمام تر صلاحیتوں کے باوجودمجھے پورا یقین تھا کہ ایک دن بھٹو اپنے آپ کو تباہ کروالے گا۔ کب؟ یہ میں نہیں بتا سکتا تھا۔

1965 ءمیں برطانوی ہائی کمشنر کی حیثیت سے اپنے ایک مراسلے میں اپنے نقطے کو واضح کرنے کیلئے میں نے لکھا کہ:
”بھٹو پیدا ہی اس لیے ہوا ہے کہ اس کا انجام پھانسی پر ہو۔“

مجھے اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ میرا یہ تبصرہ 14 برس کے بعد اس طرح حقیقت کا روپ دھار لے گا۔“

(سر جیمز مورس، پاکستان میں برطانوی سفیر، 1961-1965ء)

یہی شیطانی ذہنیت اور غلاظت کی حد تک خوشامد کرنے کی صلاحیت بھٹو کو 1950ءکی دہائی میں ہی اقتدار کے ایوانوں تک لے جاچکی تھی۔ صدر پاکستان سکندر مرزا کو لکھے گئے ایک خط میں بھٹو انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے لکھتا ہے:
” جب بھی پاکستان کی حقیقی تاریخ لکھی جائے گی، تو اس میں آپ کا نام یقینا مسٹر جناح کے نام سے بھی اوپر لکھا جائے گا۔“
اور پھر سکندر مرزا کے اقتدار سے ہٹتے ہی بھٹو نے یہی خوشامد اور بوٹ چاٹنے کا عمل جنرل ایوب خان کے ساتھ شروع کردیا اور جلد ہی ایوب خان کو اپنا ”ڈیڈی“ کہنے لگا۔ ایوب خان کی فوجی کابینہ میں بھٹو واحد سویلین تھا، اور اس کو وزارت خارجہ کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ بھٹو کی زندگی کا مقصد وزارت خارجہ پر رکنا نہیں بلکہ وزیراعظم بننا تھا، اور اس مقصد کیلئے اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود اس کا ”ڈیڈی“ تھا۔

یہ وہ دور تھا کہ جب پاکستان میں صنعتی اور زرعی ترقی میں پوری دنیا کو حیران کررہا تھا۔ چین اور جنوبی کوریا کے انجینئر پاکستان آکر تربیت حاصل کررہے تھے، ڈیم اور نہریں بنائی جارہی تھیں، پاکستان ڈیزل انجن، ٹینک اورہوائی جہاز بنانے جارہا تھا اور پی آئی اے دنیا کی بہترین ایئر لائن تھی۔ یہ سب باتیں پاکستان کی دشمن عالمی طاقتوں کے ذہن میں بری طرح کھٹک رہی تھیں۔ ایوب خان نہ صرف ایک مضبوط فوجی حکمران تھے بلکہ ہر دلعزیز بھی۔ ایوب کو اقتدار سے ہٹانے کا صرف ایک ہی طریقہ تھا کہ ان کے خلاف ایک عوامی تحریک چلائی جائے اور اس کیلئے ایوب خان کو ایک جنگ کی ضرورت تھی۔ اس کا مقصد تھا کہ اگر جنگ میں پاکستان کو شکست ہوجاتی ہے تو پھر ایوب خان کو اقتدار سے ہٹانا آسان ہوجائے گا۔

معروف پاکستانی سفارتکار اکرم ذکی اس حوالے سے اپنی ذاتی معلومات کی بنیاد پر کہتے ہیں:

”بھٹو کہا کرتا تھا کہ صدر ایوب خان کو ہٹانے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ بھارت سے جنگ چھیڑ دی جائے“۔

1965 کے انہی دنوں میں فوجی ہائی کمان میں کشمیر کی تحریک آزادی کی حمایت اور مسلح جدوجہد کے حوالے سے سوچ پائی جاتی تھی۔ بھٹو نے ایوب کو یقین دلایا کہ اگر پاکستان کشمیر پر چڑھائی کردے تو عالمی طاقتیں مداخلت نہیں کریں گی، اور یہ کہ جنگ صرف کشمیر تک ہی محدود رہے گی۔

آپریشن جبرالٹر کا آغاز اگست 1965 ءمیں کیا گیا کہ جس کے تحت پاکستانی کمانڈو دستوں کو مقبوضہ کشمیر میں اتار دیا گیا اور پاکستانی فوج اکھنور پر قبضے کیلئے آگے بڑھنے لگی۔ عین اس وقت یعنی 3 ستمبر 1965 ءکو بھارت میں موجود پاکستانی ہائی کمشنر ارشد حسین نے وزارت خارجہ کو ایک اہم انتباہی ٹیلی گرام بھیجا گیا کہ بھارت 6 ستمبر کو بین الاقوامی سرحد عبور کرکے پاکستان پر حملہ کرنے جارہا ہے۔ یہ مراسلہ بھٹو نے پڑھا اور خاموشی سے اپنی میز پر ہی چھوڑ دیا اور ایوب خان کو اس کی اطلاع نہیں دی۔

اس شدید ترین غداری کا انجام یہ ہوا کہ 6 ستمبر کی صبح دشمن لاہورپر اور پھر سیالکوٹ پر پوری طاقت سے حملہ آور ہوگیا اور نزدیک تھا کہ یہ دونوں شہر پاکستان کے ہاتھ سے ہی نکل جاتے۔ پاک فوج ان شدید حملوں کیلئے بالکل تیار نہیں تھی کیونکہ بھٹو ایک جانب تو یہ یقین دہانی کرائی ہوئی تھی کہ بھارت بین الاقوامی سرحد کے پار حملہ نہیں کرے گا اور دوسری جانب حملے کی اطلاح بروقت ملنے کے باوجود اسے فوجی قیادت تک نہیں پہنچایا گیا۔ یہ ناقابل معافی اور نہ ناقابل تلافی غداری تھی۔ (جاری ہے۔۔۔)

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/2584970841557711?__tn__=K-R



















سقوط ڈھاکہ

عیاری وغداری کی شرمناک داستان


قسط-6


"Bhutto: Born to be Hanged"

Part-2





سقوط ڈھاکہ
عیاری وغداری کی شرمناک داستان

قسط-6

"Bhutto: Born to be Hanged"
Part-2

تحریر: سید زید زمان حامد

بھٹو کو امید تھی کہ 65 ءکی جنگ میں پاکستان کو شکست ہوگی اور اس کے نتیجے میں ایوب خان کو اقتدار سے الگ کردیا جائے گا۔ مگر جنگ کا نتیجہ اس کے توقع کے خلاف نکلا۔ نہ صرف یہ کہ پاک فوج نے پاکستان کا بھرپور دفاع کیا بلکہ اس کے نتیجے میں ایوب خان بھی مزید طاقتور اور ہردلعزیز حکمران بن کر ابھرا۔ اب بھٹو کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا سوائے اسے کے کہ سول نافرمانی کے ذریعے ایوب خان کے خلاف بغاوت برپا کی جائے۔

65 ءکی جنگ کے نتائج صرف بھٹو کیلئے ہی نہیں بلکہ پاکستان کے تمام دشمنوں کیلئے خطرے کی گھنٹی تھے۔ اس سے قبل پاکستان بڑی تیزی سے صنعتی و زرعی انقلاب کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اس جنگ کے بعد پاکستان ایک بھرپوری عسکری قوت کے طور پر بھی دنیا کے سامنے ابھرا۔ عالمی طاقتوں کے سامنے اب تین اہداف تھے۔

-1 ایوب خان کو راستے سے ہٹایا جائے، اور ناپاک اور خائن سیاسی حکمرانوں کو اقتدار منتقل کیا جائے۔

-2 پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس کی افرادی اور عسکری قوت کو تباہ کیا جائے۔

-3 پاکستان میں برپا ہونیوالے بھرپور صنعتی و زرعی انقلاب ہر حال میں روکا جائے۔

ان مقاصد کو پورا کرنے کیلئے مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان میں بھٹو کو منتخب کیا گیا۔

65 ءکی جنگ کے بعد کہ جب بھٹو پاکستان کا وزیرخارجہ ہی تھا تو پاکستان اور بھارت کے درمیان روس کے شہر تاشقند میں ایک جنگ بندی کا معاہدہ ہوا، کہ جس میں پاکستان کی جانب سے ایوب خان اور بھٹو اور بھارت کی جانب سے وزیراعظم شاستری نے دستخط کیے۔
تاشقند سے واپس پہنچتے ہی بھٹو نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا اور اپنی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھ دی۔ عین اسی وقت مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن نے بھارت کے شہر اگرتلہ میں بھارتی فوج اور را سے رابطہ کرکے مشرقی پاکستان میں مسلح بغاوت برپا کرنے کے مکمل پلان پر عمل درآمد شروع کردیا۔ بعد میں یہ سازش پکڑی بھی گئی اور مشہور ”اگرتلہ سازش کیس“ کے نام سے جانی گئی۔ ایوب خان شیخ مجیب پر غداری کا مقدمہ چلانا چاہتا تھا، مگر بھٹو نے اب مغربی پاکستان میں ایک منظم سیاسی بغاوت کا آغاز کردیا تھا اور اس کیلئے اس نے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں خصوصاً شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ اتحاد کرلیا تھا۔
جس طرح حالیہ دور میں صدر مشرف کے خلاف وکلاءتحریک بڑھتے بڑھتے تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے تحریک مزاحمت بن گئی تھی، بالکل اسی طرح سیاسی جماعتیں ایوب خان کے خلاف منظم و متحد ہوتی چلیں گئیں۔

نوابزادہ نصراللہ خان، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی اور حتیٰ کہ آج کے دور کے شیخ رشید بھی بھٹو کے ساتھ مل کر ایوب خان کے خلاف ملک میں خانہ جنگی اور فساد برپا کرنے لگے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے ایوب حکومت پر دباﺅ ڈالا کہ مجیب الرحمن کے خلاف غداری کے مقدمات کوواپس لیا جائے اور ملک میں نئے انتخابات کروائے جائیں۔ 1969ءتک حالات اس قدر خراب ہوچکے تھے کہ ایوب خان کو استعفیٰ دینا پڑا اور اقتدار اس وقت کے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کے حوالے کردیا، کہ جس نے سیاسی دباﺅ میں آکر ملک میں انتخابات کروانے کا اعلان کردیا۔

اب صورتحال یہ بن چکی تھی کہ مشرقی پاکستان مکمل طور پر مجیب الرحمن اور اس کے دہشت گرد گروہ مکتی باہنی کے کنٹرول میں جا چکا تھا اور مغربی پاکستان میں بھٹو کی پیپلز پارٹی سب سے مضبوط جماعت کے طور پر سامنے آچکی تھی۔

1970 ءکے انتخابات کے نتائج بھی وہی سامنے آئے کہ جو متوقع تھے۔ یعنی مشرقی پاکستان میں مکمل طورپر مکتی باہنی کے دہشت گردوں کے ذریعے مجیب نے اکثریت حاصل کرلی، اور مغربی پاکستان میں بھٹو نے اکثریت حاصل کرلی۔

300 کی قومی اسمبلی میں مجیب کے 160 نشستیں اور بھٹو کی 81 نشستیں تھیں۔

اب صورتحال انتہائی خطرناک ہوچکی تھی اور مکمل طورپر فوج کے کنٹرول سے باہر تھی۔ یحییٰ خان فوجی حکمران تو تھا مگر انتخابات کروانے کے بعد مزید مارشل لاءلگانے کا نہ تو کوئی جواز نہ اور نہ ہی فوج ان سیاسی جماعتوں سے تصادم کا راستہ اختیار کرسکتی تھی۔ مجیب الرحمن کو وزیراعظم بنانے کا مطلب صرف یہ تھا کہ اندرا گاندھی کو پاکستان کا وزیراعظم لگا دیا جائے۔ مگر دوسری جانب اپنی اقتدار کی ہوس کی وجہ سے بھٹو بھی کسی صورت میں مجیب کو وزیراعظم بنتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ ان دو غداروں کی آپس کی جنگ اور حصول اقتدار کی ہوس نے پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔

(جاری ہے۔۔۔)

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/photos/a.1643903065664498/2585582184829910/?type=3&theater

No comments:

:)) ;)) ;;) :D ;) :p :(( :) :( :X =(( :-o :-/ :-* :| 8-} :)] ~x( :-t b-( :-L x( =))

Post a Comment