Sunday 15 December 2019

December 15th, 2019

*سقوط ڈھاکہ*
*عیاری وغداری کی شرمناک داستان*

*قسط-7*

*ننگ ملت، ننگ قوم*








*سقوط ڈھاکہ*
*عیاری وغداری کی شرمناک داستان*

*قسط-7*

*ننگ ملت، ننگ قوم*

*تحریر: سید زید زمان حامد*

شیخ مجیب کو جب اگرتلہ غداری کیس میں سے سیاستدانوں نے زبردستی بری کروادیا تو اب اس کے سامنے مشرقی پاکستان کو توڑ کر الگ ملک بنانے کا راستہ صاف ہوگیا تھا۔ مگر انتخابات میں حصہ لینے کیلئے اس نے انتہائی مکاری سے اپنا منشور 6 نکات کی شکل میں پیش کیا، کہ جو ظاہراً تو صوبائی خودمختاری کے حوالے سے تھے، مگر ان کے پیچھے مکمل بغاوت اور مرکز سے علیحدگی کی سازش چھپی ہوئی تھی۔

ان چھ نکات کے تحت صرف دفاع اور خارجہ پالیسی مرکزی حکومت کے ہاتھ میں ہونی تھی اور اس کے علاوہ تمام معاملات صوبوں کو منتقل کیے جانے تھے۔ یہاں تک کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کی کرنسی بھی علیحدہ ہونی تھی، علیحدہ سٹیٹ بینک ہوتا، علیحدہ ٹیکس کا نظام ہوتا اور علیحدہ داخلی سیکورٹی اور پیراملٹری کا نظام۔ یعنی الیکشن میں جانے سے پہلے ہی شیخ مجیب اپنے ناپاک ارادوں کو مکمل طور پر ظاہر کرچکا تھا۔

الیکشن کے بعد یحییٰ خان مجبور ہوگیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں بلائے۔ مگر بھٹو نے جوابی دھمکی دی کہ مغربی پاکستان سے اگر کوئی قومی اسمبلی کا رکن ڈھاکہ گیا تو ”اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی“۔ اور پھر اس سلگتے بھڑکتے ماحول میں مجیب کو مخاطب کرکے صاف کہہ دیا کہ ”ادھر تم، ادھر ہم“۔

جونہی مجیب نے بھٹو کی جانب سے یہ پیغام سنا، اس نے مشرقی پاکستان میں فوری طور پر مکمل بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے خانہ جنگی کا آغاز کردیا۔ اب مشرقی پاکستان کی علیحدگی کیلئے باقاعدہ مسلح جنگ شروع کردی گئی تھی۔

مغربی پاکستان میں اس دوران گو کہ فوجی حکومت تھی مگر وہ ایک مفلوج اور کمزور انتظامیہ تھی اور تمام تر اختیار اب بھٹو کے ہاتھ میں آچکا تھا کہ جو مجیب کی بغاوت کے بعد فوجی حکمرانوں کے ساتھ مل کر مغربی پاکستان میں اپنی آنے والی حکومت کو مستحکم کررہا تھا۔ بھٹو کے پلان میں بھی یہ بات شامل تھی کہ مشرقی پاکستان کو اب پاکستان سے علیحدہ ہی کردیا جائے اور وہاں موجود فوج کو قربانی کا بکرا بنا کر اپنے مقاصد کیلئے ایسی جنگ میں جھونک دیا جائے کہ جس میں خود پاکستان کے حکمران اپنی ہی فوج کی پشت میں خنجر مارہے تھے۔ اسی دوران مجیب الرحمن کو گرفتار کرکے مغربی پاکستان میں نظر بند کردیا گیا تھا۔

1971 ءکا پورا سال ہی مشرقی پاکستان میں جنگ اور خانہ جنگی میں گزر رہا تھا۔ 22 نومبر کو بھارتی فوج نے بھی بین الاقوامی سرحد پار کرکے مشرقی پاکستان پر بھرپور حملے کا آغاز کردیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں موجود پاک فوج کی صورتحال اب اس قدر نازک ہوچکی تھی کہ اب سوال جنگ جیتنے کا نہیں بلکہ پاک فوج کو وہاں سے باعزت نکالنے کا تھا۔

دسمبر 1971 ءکے دوسرے ہفتے میں اقوام متحدہ کا اجلاس بلایا گیا کہ جس میں پولینڈ نے قرارداد پیش کی کہ جس کے مطابق مشرقی پاکستان سے پاک فوج کو باعزت نکلنے کا راستہ دیا جائے گا اور مشرقی پاکستان کو آزادی دے دی جائے گی۔ 8 دسمبر کو صدر یحیی نے بھٹو کو اس اجلاس میں شرکت کیلئے امریکہ روانہ کیا۔ بھٹو ٹال مٹول کرتا ہوا 5 روز کے بعد 13 دسمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پہنچا اور ایک ڈرامے باز دھویں دار تقریر کی کہ جس میں ہزار سال تک لڑنے کا اعلان کیا گیا، اور پھر اسی ڈرامائی انداز میں پولینڈ کی قرارداد کو پھاڑ کر ہال سے باہر نکل گیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب سقوط ڈھاکہ میں صرف دو دن باقی رہ گئے تھے، اور پاک فوج کو مشرقی پاکستان سے باعزت نکالنے کا یہ آخری موقع تھا، اس کے باوجود بھٹو کی یہ شرمناک حرکت پوری پاکستان قوم کو ایک گہرا زخم لگا گئی۔

سقوط ڈھاکہ کے وقت کہ جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو اس وقت بھی بنگالیوں کا کمینہ بابائے قوم پاکستان کی قید میں تھا۔ قدرت کی طرف سے بھٹو اور موقع دیا جارہا تھا کہ وہ پاکستانی جنگی قیدیوں کو شیخ مجیب کے بدلے باعزت رہا کرواسکے۔ مگر یہاں بھی اس کی مکاری اور غداری آڑے آئی۔ بھٹو نے فوری طور پر بغیر کسی شرط کے شیخ مجیب کو باعزت رہا کردیا اور اسے مشرقی پاکستان بھجوا دیا گیا۔ گرفتار ہونیوالی پاک فوج اور پاکستانی سویلین اب مکمل طور پر بھارتیوں اور بنگالیوں کے رحم و کرم پر تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ بھٹو کسی بھی صورت میں مشرقی کمانڈ کے گرفتار شدہ فوجیوں کو پاکستان نہیں لانا چاہتا تھا کہ جو اس کے خلاف غم و غصے میں بھرے ہوئے تھے۔ اس کا مقصد تھا کہ پہلے کئی سال بھارت کی جیلوں میں سڑایا جائے اور جب اس کے قدم مضبوط ہوجائیں تب اس فوج کو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں کی شکل میں واپس لایا جائے اور یہی اس نے کیا۔ کئی برس تک بھارت کی قید میں رہنے کے بعد شملہ معاہدے کے تحت ان 35 ہزار فوجیوں اور چند ہزار سول شہریوں کو اس طرح آہستہ آہستہ واپس لایا گیا کہ پہلے اور آخری دستے کے درمیان تقریباً 10 ماہ کا عرصہ حائل ہوا۔

پہلے دو ڈھائی سال انتہائی بھارت کی قید میں چھوڑا گیا اور پھر واپسی کا سفر بھی گھسیٹ کر ایک سال تک طویل کردیا گیا۔ واپس آنے والے اکثر افسروں کو ریٹائر کردیا گیا یا پھر اس طرح بکھیر دیا گیا کہ وہ حکومت کیلئے کوئی خطرہ نہ بن سکیں۔

مغربی پاکستان میں حکومت سنبھالنے کے فوراً بعد بھٹو نے اپنے دیئے گئے مشن کے ایک اور اہم پہلو پر فوری عملدرآمد کیا۔
پاکستان کی تمام صنعت کو قومی تحویل میں لے پیپلز پارٹی کے جیالوں کے حوالے کردیا گیا۔ پچھلے دس برس میں کی گئی صنعتی ترقی یک مشت ایک فیصلے سے تباہ و برباد کردی گئی اور پاکستان آج تک اس تباہی سے باہر نہیں آسکا۔

(جاری ہے۔۔۔)

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/2587045781350217?__tn__=K-R




*سقوط ڈھاکہ*

*عیاری وغداری کی شرمناک داستان*


*آخری قسط*


*انتقام قدرت۔۔۔*



*سقوط ڈھاکہ*
*عیاری وغداری کی شرمناک داستان*

*آخری قسط*

*انتقام قدرت۔۔۔*

*تحریر: سید زید زمان حامد*

پاکستان کو توڑنے کے تین بڑے کردار تھے۔

بھٹو، مجیب اور اندرا گاندھی

دور حاضر کی تاریخ میں کم ایسی مثالیں ہونگی کہ جب ملک کی دو سب بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہ اس قدر غدار، سفاک، انسان دشمن اور غلیظ ہوں۔
مجیب الرحمن کے ہاتھوں پانچ لاکھ سے زائد بے گناہ پاکستانی مسلمان مشرقی پاکستان میں انتہائی بے دردی سے ذبح کیے گئے۔ اس کے اس گناہ میں ذوالفقار علی بھٹو مکمل طور پر شریک جرم تھا۔ ملک کا وزیراعظم بننے اور اقتدار حاصل کرنے کی ہوس نے ان دونوں ناپاک اور پلید سیاستدانوں کو دشمنوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنا کر رکھ دیا۔

مگر مکافات عمل فطرت کا ایک مستند اصول ہے۔

بنگلہ دیش کا بابائے قوم شیخ مجیب الرحمن اپنی حکمرانی کے مزے بھی نہ اٹھا سکا اور 1975 ءمیں بھارتی یوم آزادی کے ہی دن یعنی 15 اگست کو اپنی ہی فوج کے ہاتھوں خاندان سمیت بے دردی سے اپنے ہی گھر میں قتل کردیا گیا۔

اندرا گاندھی کہ جو بنگلہ دیش کے قیام کو ”ہزار سالہ ذلت “ کا انتقام قرار دے رہے تھی، 1984 ءمیں اپنے ہی محافظوں کے ہاتھوں قتل کردی گئی۔ کچھ عرصے بعد اس کا بیٹا راجیو گاندھی بھی خود بھارت کے تیار کردہ تامل دہشت گردوں کے ہاتھوں بری طرح سے قتل ہوا اوراس کا دوسرا بیٹا سنجے گاندھی طیارے کے حادثے میں ہلاک ہوگیا۔

تیسری طرف بھٹو جس نے مغربی پاکستان میں حکومت حاصل کرنے کے بعد ظلم و دہشت گردی کا بازار گرم کیا ہوا تھا، بالآخر قتل کے ایک مقدمے میں 1979 ءمیں پھانسی چڑھا دیا گیا۔ وہ شخص جس کے بارے میں برطانوی سفیر نے برسوں پہلے پیشن گوئی کی تھی کہ یہ شخص بالآخر پھانسی چڑھایا گیا، وہ من و عن پوری ہوگئی۔

بھٹو کے مرنے کے بعد اس کے دونوں بیٹوں اور بیٹی نے الذوالفقار نامی دہشت گرد تنظیم بنا کر ایک مرتبہ پھر پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کیں۔ مگر جلد ہی مرتضیٰ بھٹو اپنے ہی بہنوئی آصف زرداری کے ہاتھوں کراچی کی سڑکوں پر مارا گیا۔
اس کا بھائی شاہ نواز بھٹو ملک شام میں اپنی افغان بیوی کے ہاتھوں زہر سے مارا گیا۔ اور بیٹی بینظیر بھٹو 2007 ءمیں راولپنڈی میں دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل کردی گئی۔
مرتضیٰ بھٹو کا بیٹا ذوالفقار علی بھٹو جونیئر ایک ہیجڑا اور ہم جنس پرست بن چکا ہے اوریورپ کی سڑکوں پر ناچ ناچ کر نشان عبرت بنا ہوا ہے۔ بینظیر کا بیٹا بلاول زبردستی بھٹو کا جانشین بننے کی کوشش کررہا ہے مگر نہ تووہ بھٹو ہے اور نہ ہی اس کا کوئی مستقبل۔
بھٹو خاندان، شیخ مجیب اور اندرا کے خاندان کی طرح نشان عبرت بنایا جاچکا تھا۔

بزرگ کہتے ہیں کہ یہ پاکستان حضرت صالحؑ کی اونٹنی کی طرح ہے، جس نے بھی اسے نقصان پہنچایا، وہ خود بھی عبرت کا نشان بنایا گیا ہے، اور اس کی نسلیں بھی تباہ کردی جائیں گی۔

سانحہ مشرقی پاکستان کے کرداروں کا انجام اس ازلی ابدی حقیقت کی زندہ مثال ہے۔

یہ پاک سرزمین ان شاءاللہ ہمیشہ قائم رہنے کیلئے بنی ہے، اس پر سایہءخدائے ذوالجلال بھی ہے اور سیدی رسول ﷺ کی نگاہ کرم بھی۔
اس پاکستان کو چوٹ تولگ سکتی ہے، مگر جو تقدیر اللہ اور اسکے رسولﷺ نے اس مدینہءثانی کے نصیب میں لکھ دی ہے وہ تبدیل نہیں ہوسکتی۔ اس پاکستان نے اب پھیلنا ہے، غزوئہ ہند بھی ہونا ہے اور آنے والے وقتوں میں اسی قوم و ملک سے وہ وعدہ بھی کیا گیاہے کہ جس کی بشارت ہے کہ:

” لیا جائے گا تجھ سے کام، دنیا کی امامت کا“

پاکستان ان شاءاللہ قائم رہے گا، صرف لوگ خوش نصیب اور بدنصیب ہونگے۔ آج نہ نماز کام آئے گی، نہ روزہ کام آئے گا، نہ حج کام آئے گا، نہ کوئی نیکی کام آئے گی، اگر کسی نے اللہ کے رسولﷺ کی اس امانت، اس پاک سرزمین سے خیانت کی۔ پاکستان کے حکمرانوں کو یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے۔ بھٹو اور مجیب کو سمجھ نہیں آئی تھی۔

ختم شد
٭٭٭٭٭

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/2587456724642456?__tn__=K-R


No comments:

:)) ;)) ;;) :D ;) :p :(( :) :( :X =(( :-o :-/ :-* :| 8-} :)] ~x( :-t b-( :-L x( =))

Post a Comment