Thursday, 12 December 2019

December 12th, 2019

سقوط ڈھاکہ

عیاری وغداری کی شرمناک داستان
قسط-3

مشرقی پاکستان آگ و خون کا کھیل۔۔۔



سقوط ڈھاکہ

عیاری وغداری کی شرمناک داستان
قسط-3

مشرقی پاکستان آگ و خون کا کھیل۔۔۔

تحریر: سید زید زمان حامد

آج ہم سقوط ڈھاکہ کے پس منظر میں ہونیوالی اپنوں کی غداریوں اور دشمنوں کی عیاروں پر مزید بات کرتے ہیں۔

آج ایک طائرانہ جائزہ لیں گے کہ اس وقت مشرقی پاکستان اور آج کے بنگلہ دیش میں آگ و خون کا کیا کھیل کھیلا جارہا تھا۔شیخ مجیب کے غنڈوں اور کرائے کے قاتلوں جنہیں دنیا مکتی باہنی کے نام سے جانتی ہے، انہوں نے مشرقی پاکستان میں وہ قتل وغارت گری کی، وہ فساد مچایا، وہ ظلم و ستم کی داستانیں رقم کیں کہ تاریخ ہلاکو خان اور ہٹلر کو بھول گئی۔ ظلم و ستم کی ایسی داستانیں کی جنہیں پڑھ کر انسانیت شرما جائے۔

ایک اور جھوٹ جو پاکستان میں آج تک بولا جاتا ہے وہ یہ کہ 1970 کے انتخابات پاکستان کی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ پورے مشرقی پاکستان میں مکمل طور پر مجیب کی دہشت گرد تنظیم مکتی با ہنی کی حکومت تھی اور مجیب کے کسی مخالف کو کھڑا ہونے یا الیکشن جیتنے کی اجازت ہی نہیں دی گئی۔

1966 ءمیں ہی جب اگرتلہ سازش پکڑی گئی تھی توواضح ہوچکا تھا کہ شیخ مجیب ایک کھلا غدار ہے اور مکتی باہنی جیسی دہشت گرد تنظیم بنا کر ریاست پاکستان کے خلاف بغاوت کرنا چاہتا ہے۔ اس کے باوجود مجیب کی جماعت کو اپنے دہشت گرد دستوں کے ساتھ مشرقی پاکستان میں انتخاب لڑوانا ہی ایک ایسی خوفناک غلطی تھی کہ جس کا انجام پھر سقوط ڈھاکہ پر ہی منتج ہونا تھا۔

مکتی باہنی اور مجیب الرحمن نے مارچ 1971 ءکے بعد مشرقی پاکستان میں مکمل طور پر اعلان بغاوت کرکے پاکستان کے خلاف مسلح کارروائیوں کا آغاز کردیا تھا۔ پورے مشرقی پاکستان میں پھیلے ہوئے لاکھوں محب وطن پاکستانی، کہ جن میں بنگالی اور غیر بنگالی دونوں شامل تھے، مکتی باہنی کے ہاتھوں بری طرح سے ذبح کیے جارہے تھے۔ لاکھوں پاکستانیوں کو قتل کیا گیا، ان کی عورتوں کی بے حرمتی کی گئی اورآگ و خون کا وہ شیطانی کھیل کھیلا گیا کہ 1947 کے فسادات بھی ان کے آگے شرما گئے۔ مارچ 1971 ءسے لیکر اور سقوط ڈھاکہ کے کئی ماہ بعد تک مکتی با ہنی کے دہشت گرد پورے مشرقی پاکستان میں چن چن کر پاکستان سے پیار کرنے والوں کو قتل کرتے رہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد تو خاص طور پر ہزاروں کی تعداد میں ان بنگالیوں اور بہاریوں کو قتل کیا گیا کہ جنہوں نے پاکستان کا ساتھ دیا تھا اور اب ان کی حفاظت کیلئے پاک فوج وہاں موجود نہیں تھی۔

ڈھاکہ ریس کورس گراﺅنڈ میں میلا لگایا جاتا ، جہاں مکتی باہنی کے غنڈے محب وطن پاکستانیوں کو مجمع کے سامنے سنگینیں مار کر قتل کرتے۔ مکتی باہنی کا قصائی قادر صدیقی کہ جس نے 17 ہزار گوریلوں پر مبنی اپنی ایک الگ دہشت گرد فوج بنا رکھی تھی، اور جو براہ راست شیخ مجیب الرحمن سے حکم لیتا تھا کے بارے میں ایک غیر ملکی صحافی لارنس لفشلٹنر کیا لکھتی ہیں، آپ خود ملاحظہ کریں:
”مکتی باہنی کے رہنما عبدالقادر صدیقی نے خود بندوق کی سنگینوں سے تین قیدیوں(محب وطن پاکستانیوں) کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔اس پورے واقعے کی غیر ملکی عملے نے فلم بنائی،جس کو صدیقی نے یہ تماشا دکھانے کیلئے خاص طورپر مدعوکیا تھا“۔

یہی درندہ بعد میں نہ صرف بنگلہ دیش کی قومی اسمبلی کا رکن بھی رہا، بلکہ اسے بنگلہ دیش حکومت کی طرف سے سرکاری اعزاز ” بر اتم“ سے بھی نوازا گیا۔

بنگالی ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر عبدالمومن مکتی با ہنی کے ظلم و ستم کے حوالے سے کہتے ہیں:

”پاکستان جمہوری پارٹی کے نائب صدراور پاکستان کے سابق وزیر تجارت مولوی فرید احمدکو ڈھاکہ میں نظر بند کیا گیا۔پہلے انہیں کوڑے مارے گئے،پھر ان کی جلد پر تیز بلیڈوں سے کٹ لگائے گئے،اور زخموں پر نمک پاشی کی گئی،اس وحشیانہ سلوک کے بعد انہیں موت کی نیند سلا دیا گیا،جوش و جنون میں ان کی لاش کو مسخ کرکے اس کی بے حرمتی بھی کی گئی۔“

اس طرح کے ہزاروں واقعات تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں۔

یہ درست ہے کہ اس جنگ میں کم از کم 5 لاکھ لوگ مشرقی پاکستان میں قتل ہوئے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کو مکتی باہنی کے دہشت گردوں اور بھارتی فوج نے قتل کیا۔

سانحہ مشرقی پاکستان کے تقریباً 40 برس بعد ایک بھارتی ہندو بنگالی خاتون شرمیلا بوس نے بالآخر ایک طویل تحقیقی جدوجہد کے بعد اس حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ پاک فوج پر لگنے والے تمام الزامات صرف جھوٹ اور پراپیگنڈہ پر مبنی تھے اور ان کا مقصد بھارت کے سیاسی اور عسکری مقاصد کو پورا کرنا تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ تحقیق بھی ایک سچ بولنے والی ہندو عورت نے ہی کی، مگر پاکستان میں سرکاری یا علمی طور پر ایسی کوئی تحقیق کبھی بھی نہیں کروائی گئی۔ پچھلی کئی دہائیوں سے صرف دشمن ہی کے دیئے ہوئے جھوٹے اور خرافاتی بیانیے پر معذرت خواہانہ رویہ اختیار رکھا گیا۔

1974 ءمیں پاکستان کے ایک معروف سفارتکار قطب الدین عزیز صاحب نے مشرقی پاکستان سے آنے والے سینکڑوں خاندانوں اور افراد کا ذاتی طور پر انٹرویوکرکے ایک کتاب کی شکل میں وہ پورا ریکارڈ تیار کردیا تھا کہ جس میں مکتی باہنی کے مظالم اور نسل کشی کو مکمل طور پر بے نقاب کیا گیا تھا۔ مگر اس کے باوجود نہ تو اس کتاب کو کوئی سرکاری پذیرائی دی گئی اور نہ ہی اس کی بنیاد پرکوئی قومی بیانیہ ترتیب دیا گیا، بلکہ آج یہ کتاب ہی تاریخ کے اوراق سے غائب کردی گئی ہے۔

جاری ہے۔۔۔

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/photos/a.1643903065664498/2580469952007800/?type=3&__tn__=-R

No comments:

:)) ;)) ;;) :D ;) :p :(( :) :( :X =(( :-o :-/ :-* :| 8-} :)] ~x( :-t b-( :-L x( =))

Post a Comment