سقوط ڈھاکہ
عیاری وغداری کی شرمناک داستان
تحریر: سید زید زمان حامد
قسط-2
سقوط ڈھاکہ
عیاری وغداری کی شرمناک داستان
تحریر: سید زید زمان حامد
قسط-2
پچھلے کالم میں بات ہورہی تھی کہ 71 ءکی جنگ کے بعد کس نے اورکیوں افواج پاکستان کے قیدیوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ اس پر مزید بات کرتے ہیں۔
جیسے کہ بتایا جاچکا ہے کہ مشرقی پاکستان میں پاک فوج کی صرف ایک کور تھی۔ عام حالات میں ایک کور میں 50 ہزار کے قریب فوج ہوتی ہے، مگر مشرقی پاکستان میں ٹینکوں اور توپخانے کے دستوں کی غیر موجودگی کی وجہ سے یہ ایک کور بھی پوری نہ تھی۔ اس کے علاوہ پاک فوج میں موجود کئی بنگالی رجمنٹوں نے بغاوت بھی کردی تھی اور بھارتی فوج اور مکتی باہنی کے ساتھ ملکر پاک فوج کے خلاف ہی لڑنا شروع ہوگئے تھے۔ اس صورتحال میں پاک فوج کی زیادہ سے زیادہ تعداد صرف 32 ہزار سے 35 ہزار تک تھی۔ 8 ماہ کی جنگ میں اس میں سے بھی کوئی 5 ہزار کے قریب شہید یا زخمی ہوچکے تھے۔ لہذا کسی صورت میں بھی پاک فوج کی تعداد 30-35 سے زیادہ نہ تھی۔ اگر ان کے خاندانوں، عورتوں اوربچوں اور حکومت پاکستان کے دیگر سویلین ملازمین کو بھی شامل کرلیا جائے تو کل ملا کر قیدیوں کی تعداد 40-45 ہزار کے درمیان ہی بنتی تھی۔ دشمن، عالمی طاقتیں اور خود ذوالفقار علی بھٹو بھی اس حقیقت سے بہت اچھی طرح واقف تھے۔
”اگر پاکستان میں جمہوریت جاری رہتی تو اسلام آباد کو اس سانحے سے گزرنا ہی نہ پڑتا کہ جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں 40 ہزار فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔“
کرشن چندر پنت ، سابق بھارتی وزیر دفاع
”1971 ءمیں ڈھاکہ میں 35 ہزار پاکستانی فوجیوں کا 2 لاکھ بھارتی فوجیوں اورا ن کے تربیت یافتہ ایک لاکھ سے زائد بنگالیوں کے خلاف لڑنا، یقینی طور پر ناممکن تھا“
چارلس ولسن ، رکن امریکی کانگریس
اب سوال یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے ”90 ہزار“ قیدیوں کا پراپیگنڈہ تو سمجھ میں آتا ہے، مگر اس وقت کی حکومت کیوں اس جھوٹ کولیکر آگے پھیلاتی رہی۔
پاکستان میں اس وقت بھٹوکی حکومت تھی کہ جو خود سقوط ڈھاکہ کا ایک مرکزی مجرم تھا۔اس کی زندگی کا مقصد ہی پاکستان کو توڑ کر اور پاک فوج کو رسوا کرکے اقتدار پر قبضہ کرنا تھا۔ لہذا بھارت کے شرمناک بیانیے کے جواب میں حقیقت اور سچائی پر مبنی بیانیے کو پیش کرنا ہی بھٹو کے ذاتی و سیاسی مفادات کے خلاف تھا، چنانچہ پاکستان میں سانحہ مشرقی پاکستان پر ایک طرح سے سرکاری خاموشی اختیار کرلی گئی، نہ تو حقیقت بیان کی گئی، نہ ہی دشمن کے بیانیے کو رد کیا گیا اور نہ ہی سرکاری طور پر سانحہ مشرقی پاکستان کے مجرموں کو کوئی سزا دی گئی۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ بھٹو نے صرف اس لیے بنوائی تھی کہ اپنے پسندیدہ جج کے ذریعے شکست اور ذلت کا سارا ملبہ پاک فوج پر گرا کر اپنے اوردیگر سیاسی جماعتوں کے ناپاک کردار پر پردہ ڈال سکے۔
بھٹو اور مجیب کا پاکستان توڑنے میں ناپاک کردار 1965 ءکی جنگ کے بعد ہی شروع ہوچکا تھا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب پاکستان پوری دنیا میں عزت ووقار کے ساتھ ایک عظیم ترعالمی صنعتی طاقت کے طور پر ابھر رہا تھا۔ ایوب خان کا سنہری دور حکومت پاکستان میں زرعی اور صنعتی انقلاب برپا کرچکا تھا۔ دس سے زائد ڈیم بنائے جاچکے تھے، دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام تعمیر کیا جارہا تھا اور پاکستان کی صنعتیں اس قدر ترقی کرچکی تھیں کہ ہم ملک میں ہی ڈیزل انجن اور ٹینک بنانے جارہے تھے۔ 65 ءکی جنگ میں پاکستان نے پوری دنیا کو حیران بھی کیا تھا اور دشمنوں کوپریشان بھی۔ اسی لیے اس جنگ کے خاتمے کے فوراً بعد ہی عالمی طاقتوں نے پاکستان کے خلاف بھرپور سازشوں کا آغاز کردیا تھا کہ جن کا مقصد یہ تھا:
-1 ایوب خان کو فوری طورپر اقتدار سے ہٹا کر ایسے افراد کو طاقت میں لایا جائے کہ جو پاکستان کی صنعتی ترقی کو تباہ وبرباد کرسکیں۔
-2 مشرقی پاکستان کو پاکستان سے علیحدہ کردیا جائے۔
-3 65 ءکی جنگ میں افواج پاکستان نے جو دنیا میں عزت کمائی تھی اسے مٹی میں ملا کر قوم کے سامنے اسے رسوا کیا جائے۔
اس مشن کو پورا کرنے کیلئے بھارت، روس، امریکہ اور اسرائیل نے ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کا انتخاب کیا۔ 65 ءکی جنگ کے فوراً بعد ہی ذواالفقار علی بھٹو کہ جو ایوب خان کو اپنا ”ڈیڈی“ کہتا تھا، اور ایوب حکومت میں وزیر خارجہ تھا، حکومت سے الگ ہوکر سوشلسٹ نظریات پر پاکستان پیپلز پارٹی قائم کرتا ہے اور پورے ملک میں ایوب خان کو ہٹانے کیلئے تحریک کا آغاز کردیتا ہے۔
دوسری جانب مشرقی پاکستان میں اگرتلہ سازش پکڑی جاتی ہے کہ جس میں واضح ہوجاتا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن بھارت کے ساتھ ملکر مشرقی پاکستان میں مسلح بغاوت برپا کرنا چاہتا ہے اور ا س کیلئے مکتی باہنی جیسے دہشت گرد گروہ کو تیار کیا جارہا تھا۔
اب کھیل بالکل واضح ہوچکا تھا، مشرقی پاکستان میں مسلح بغاوت برپا ہونی تھی، اور مغربی پاکستان میں ایوب خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کا کام بھٹو کو دیا جاچکا تھا، تاکہ اسے اقتدار میں لا کر پاکستان کی تمام صنعتوں کو حکومتی ملکیت میں لے کر تباہ کردیا جائے۔واضح رہے کہ بھٹو نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد ہی پاکستان کی تمام صنعتوں کو قومیا کر مکمل تباہ و برباد کردیا کہ جس بربادی سے آج تک پاکستان نکل نہیں سکا ہے۔
جاری ہے۔۔۔
https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/2578020235586105?__tn__=K-R
No comments:
Post a Comment