کیا جنرل ضیاءنے فلسطینیوں کا قتل عام کیا تھا؟
کیا جنرل ضیاءنے فلسطینیوں کا قتل عام کیا تھا؟
کل جب ہم نے شہید سپہ سالار جنرل ضیاءالحق کے متعلق حقائق لکھے تو توقع کے مطابق غلاظت اور جھوٹ کا ایک نیا طوفان ان کے خلاف برپا کیا گیا۔ جنرل ضیاءپر لگائے گئے اکثر الزامات کا جواب تو ہم نے پہلے ہی دے دیا تھا، مگر ایک بہتان ایسا تھا کہ جس کی وضاحت کرنا ضروری ہے۔
جنرل ضیاءپر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے 1970 ءمیں اردن میں فلسطینیوں کا قتل عام کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ دیگر الزامات کی طرح یہ بھی ایک فحش جھوٹ اور من گھڑت تہمت ہے۔ آئیں اس کی تفصیل آپ کو بتاتے ہیں۔
1967 ءمیں اسرائیل نے بیت المقدس شریف پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس چھ دن کی جنگ میں تمام عرب ممالک کو شرمناک شکست ہوئی اور پاک فوج اور فضائیہ کو عرب ممالک کے دفاع کیلئے بھی بھیجا گیا تھا۔ جنگ کے بعد ایک اور عسکری تربیتی دستہ بھی اردن بھیجا گیا کہ جس میں اس وقت کے بریگیڈیئر ضیاءالحق شامل تھے۔ پاک فوج کے اس دستے کا مقصد صرف اردن کی فوج کو جنگی تربیت دینا تھا۔
1967 ءکی عرب اسرائیل جنگ کے بعد، کہ جب بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا، تو ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی مہاجر اور ان کے ساتھ پی ایل او (فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن) کہ جس کی قیادت یاسر عرفات کرتے تھے وہ بھی اردن میں آکر آباد ہوگئے۔ نظریاتی طور پر یاسر عرفات اور پی ایل او سیکولر، سوشلسٹ اور لادین قسم کے نظریات رکھتے تھے اور ان کی تمام تر ہمدریاں روس نواز کمیونسٹ بلاک کے ساتھ تھیں۔ہزاروں کی تعداد میں یہی سوشلسٹ اور سیکولر پی ایل او کے جنگجو اردن میں آکر ایسی کارروائیوں میں ملوث ہوگئے کہ جن کا کسی بھی طرح فلسطینی کی تحریک آزادی سے کوئی تعلق نہ تھا بلکہ یہ صاف صاف دہشت گردی کے زمرے میں آتی تھیں، مثلاً جہازوں کو اغواءکرنا، اولپمکس پر حملے کرنا، اردن کے قانون کی دھجیاں اڑا کر اردن کی حکومت پر قبضہ کرنے کی کوشش کرنا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے آج پاکستان نے افغان مہاجرین کو پناہ دی ہے، لیکن اگر یہ افغان مسلح گروہ بنا کر اسلام آباد پر حملہ کردیں تو پھر پاک فوج کا کیا جواب ہونا چاہیے؟
یاسر عرفات کو اپنے سوشلسٹ بلاک میں سے روس اور شام کی پوری طرح مدد حاصل تھی اور انہی کی ایما پر پی ایل او کے جنگجوﺅں نے ستمبر 1970 ءمیں براہ راست اردن کی حکومت پر حملہ کردیا اور نتیجتاً اردن کی فوج اور پی ایل او کے درمیان جنگ شروع ہوگئی۔ ساتھ ہی ساتھ شام نے بھی اپنے دو سو ٹینک اردن میں داخل کردیئے۔ اردن چونکہ امریکہ کا حلیف تھا، لہذا اس کے دفاع میں امریکہ نے اپنی فوجوں کو حرکت دے دی اور اسرائیل بھی اس جنگ میں کودنے کیلئے آمادہ ہوگیا۔اردن میں ہونیوالی اس سخت لڑائی میں کئی ہزار لوگ مارے گئے کہ جن میں اردن کی فوج بھی تھی، پی ایل او کے جنگجو بھی اور اردن کے شہری اور فلسطینی مہاجر بھی۔ کئی روز کی لڑائی کے بعد بالآخر اردن کی فوج نے پی ایل او کے جنگجوﺅں کو پیچھے ہٹا دیا اور شاہ حسین کا تختہ الٹنے سے بچ گیا۔ عالمی طاقتیں بیچ میں کود پڑیں اور یاسر عرفات اور ان کے گروہ کو اردن سے نکال کر لبنان منتقل کردیا گیا۔
اردن میں ہونیوالی اس ساری جنگ میں کوئی پاکستانی افسر شریک نہیں ہوا۔ بریگیڈیئر ضیاءکے علاوہ وہاں ایک درجن سے زائد فضائیہ اور فوج کے افسر موجود تھے، مگر کسی کو بھی نہ تو اس خانہ جنگی میں شرکت کا حکم تھا اور نہ ہی کوئی اس میں شریک ہوا۔ اردن فوج کے ٹینک دستے کا ایک کمانڈر جب میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ گیا تو اردن کے بادشاہ نے پاکستان سے درخواست کی کہ بریگیڈیئر ضیاءکو اس ٹینک بریگیڈ کا کمانڈر مقرر کردیا جائے۔ پاکستان سے اجازت آنے کے بعد بریگیڈیئر ضیاءنے اردن کی ٹینک دستے کی کمانڈ سنبھالی کہ جو شام سے آنے والے ٹینکوں کے مقابلے پر کھڑی تھی۔مگر جنگ سے پہلے ہی سیز فائر کا اعلان ہوگیا اور عملی طور پر بریگیڈیئر ضیاءکو کسی قسم کی جنگ میں حصہ نہیں لینا پڑا۔
تو یہ تھی بریگیڈیئر ضیاءکی کل شرکت اس عرب خانہ جنگی میں کہ جس میں نہ تو پاکستان کا کوئی کردار تھا اور نہ ہی پاکستانیوں کے ہاتھوں کسی فلسطینی کا خون بہا۔
1970 ءمیں اردن میں ہونیوالی اس خانہ جنگی کو ”سیاہ ستمبر“ Black September کا نام دیا جاتا ہے۔ تمام مغربی مورخ اور عرب تاریخ دان اس بات پر مکمل طور پر متفق ہیں کہ اس جنگ میں پاکستان یا کسی پاکستانی افسر کا کوئی کردار نہیں تھا۔ جنرل ضیاءکے صدر بننے کے بعد کم از کم تین مرتبہ یاسر عرفات پاکستان آئے، اور درجنوں مرتبہ جنرل ضیاءکی ان سے عالمی سطح پر ملاقاتیں ہوئیں۔ دونوں میں انتہائی محبت ، تعلق اور پیار تھا اور کبھی بھی کسی فلسطینی نے پاکستان پر یا جنرل ضیاءپر فلسطینیوں کے قتل عام کا کوئی الزام نہیں لگایا۔ یہ صرف پیپلز پارٹی اور پاکستان کے لبرل سیکولر بے غیرت ہی تھے کہ جو جان بوجھ کر ایک افواہ کو حقیقت بنا کر پیش کرتے رہے۔
https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/1403643676357106
جب بھٹو زندہ تھا!
آئیں اب ان کے بارے میں بھی بات کرتے ہیں کہ جن کے لاڑکانہ میں تاج محل جیسے مزار بنے ہوئے ہیں، یعنی بھٹو خاندان۔
آج پاکستان کی اکثریت نے نہ بھٹو کو دیکھا ہے نہ بھٹو کا دور، صرف پیپلز پارٹی کی غلاظت کو آج سب جانتے ہیں۔ ہم نے بھٹو کو بھی دیکھا ہے اور بھٹو کے دور کو بھی۔ 65 ءکی جنگ میں بھٹو کی غداری کی بھی دیکھی اور تاشقند معاہدے میں اس کی خیانت بھی۔ پھر ایوب خان کے خلاف اس کی بغاوت بھی، اور مجیب الرحمن جیسے غدار کی حمایت بھی۔ اور 71 ءکی جنگ میں بھٹو کا ناپاک کردار کہ جس کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوا۔ ”یہاں ہم، وہاں تم“ کا نعرہ لگانے والا بھٹو کہ جس نے الیکشن میں ہارنے کے بعد یہ فیصلہ کرلیا کہ کسی صورت میں بھی اقتدار مجیب کے حوالے نہیں کرے گا چاہے اس کے لیے ملک ہی کیوں نہ توڑ دیا جائے۔ وہ دوسری بات ہے کہ مجیب خود غدار تھا۔
لیکن آج ہم آپ سے اس دور کی بات کریں گے کہ جب بھٹو پاکستان کا مطلق العنان سول ڈکٹیٹر تھا۔ ایسا بھی دور آیا کہ جب بھٹو خود چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر بھی تھا۔
ہمیں وہ دور بہت اچھی طرح یاد ہے۔ فیڈرل سیکورٹی فورس کے نام سے بھٹو نے اپنی ایک ذاتی دہشت گرد تنظیم بنائی کہ جس کا مقصد اپنے سیاسی مخالفین کو اغواءاور قتل کروانا تھا۔ہزاروں کی تعداد میں مخالفین کو پورے پاکستان سے اٹھایا جاتا، دہشت گردی کے مراکز میں اذیتیں دی جاتیں اور قتل کرکے لاشیں ویرانوں میں پھنکوا دی جاتیں۔
اپنے بڑوں سے پوچھیں انہوں نے آزاد کشمیر میں قائم ”دولائی کیمپ“ کا نام ضرور سنا ہوگا۔ یہ وہ بدنام زمانہ عقوبت خانہ تھا کہ جہاں سینکڑوں کی تعداد میں بے گناہ لوگوں کو لاکر اذیت کا نشانہ بنایا جاتا۔ اسی فیڈرل سیکورٹی فورس نے مشہور وکیل احمد رضا قصوری کے والد کو قتل کرنے کیلئے لاہور میں ان پر حملہ کیا۔ یہی وہ قتل بعد میں بھٹو کی پھانسی کا باعث بھی بنا۔ فیڈرل سیکورٹی فورس کے تمام افسران بھٹو کے خلاف گواہ بن گئے اور انہی کی شہادتوں پر احمد رضا قصوری نے بھٹو کے خلاف مقدمہ لڑا اور سزائے موت دلوائی۔ احمد رضا قصوری آج بھی زندہ ہیں اور اسلام آباد کے مشہور و کیل ہیں۔ ان کے جسم میں آج بھی وہ گولیاں پیوست ہیں کہ جو بھٹو کے حکم پر فیڈرل سیکورٹی فورس کے دہشت گردوں نے ان پر چلائی تھیں۔ لہذا اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ بھٹو کا عدالتی قتل ہوا اور وہ بے گناہ تھا تو وہ صرف ایک فحش اور جھوٹ کلمہ ادا کرتا ہے۔ بھٹو نے پاکستان بھی توڑا تھا، پاکستان سے غداری بھی کی تھی، ہزاروں لوگوں کو قتل بھی کروایا تھا، ہزاروں کو اغواءبھی کروایا تھا، دولائی کیمپ جیسے دہشت گردی کے مراکز بھی بنائے تھے، اور پھر جب وہ اللہ کے عذاب میں آیا تو ایک قتل اس کی پھانسی کا باعث بن گیا۔ بے شک اس کو ایک مقدمے میں سزائے موت ہوئی مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کو ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کے قتل پر لاکھوں دفعہ لٹکانا چاہیے تھے۔
70 ءکی دہائی کا آغاز پاکستان ٹوٹنے سے ہوا تھا۔ پھر بھٹو کا دور حکومت شروع ہوتا ہے، اور ساتھ ہی فحاشی اور عریانی کے ایک ایسے دور کا آغاز ہوتا ہے کہ الامان الحفیظ! شرم، حیائ، دین اور شریعت کو بحیرہ عرب میں غرق کردیا جاتا ہے۔ پورے ملک میں گلی گلی شراب خانے کھولے جاتے ہیں، زناءاور بدکاری کے اڈے قائم کیے جاتے ہیں، پی ٹی وی کے اوپر رات دس بجے کے بعد فحش فلموں کا آغاز ہوتا ہے۔ آج بھی کراچی کے ساحل پر مشہور سند باد کے نام سے بچوں کا پلے لینڈ ہے۔ یہ بھٹو کے دور میں ایشیاءکا سب سے بڑا جوا خانہ بن رہا تھا، کہ جو بعد میں اس کے دفعہ ہونے کے بعد بچوں کے پارک میں تبدیل کردیا گیا۔
نظریاتی طور پر بھٹو ایک لادین سوشلسٹ مکتبہءفکر سے تعلق رکھتا تھا، کہ جو ہر صورت میں مذہب کو سیاست اور ریاست سے دور رکھتے ہوئے ملک کو مکمل طور پر ایک سیکولر ریاست بنا رہا تھا۔ اس کا مشہور نعرہ تھا ”اسلام ہمارا مذہب ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے اور سوشلزم ہماری معیشت“۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں نظریہءپاکستان اور اسلام کو مکمل طور پر دفن کردیا گیا تھا، اور معاشرے کے ہر طبقے میں کرپشن، بدکاری، شراب اور زناءمکمل طور پر فروغ پاچکا تھا۔ ایک ایسی قوم کہ جو چند سال پہلے ہی اللہ کے عذاب میں گرفتار ہو کر آدھے ملک سے ہاتھ دھو بیٹھی تھی، اب ایک عذاب سے نکل کر دوسرے عذاب میں گرفتار ہوچکی تھی۔
یہی وجہ تھی کہ 1977 ءمیں جب بھٹو کے خلاف تحریک چلی تو اس کا نام ”نظام مصطفی تحریک“ تھا۔ پوری قوم اس لادینیت، بے حیائی اور بے غیرتی کے خلاف شریعت کے نام پر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ اسی آخری دور میں کہ جب بھٹو کو اپنے اقتدار کی کرسی ڈوبتی ہوئی نظر آئی تو اس کے عوام کے غم و غصے کو ٹھنڈا کرنے کیلئے شراب پر پابندی لگائی اور جمعے کی چھٹی کا اعلان کیا، ورنہ اس سے پہلے وہ اپنی مشہور تقریر میں پوری قوم کے سامنے اپنی شراب نوشی کا اقرار ان الفاظ میں کرچکا تھا کہ ” تھوڑی سی پیتا ہوں کوئی زیادہ تو نہیں پیتا“۔
اپنے سوشلسٹ نظریات کی وجہ سے بھٹو نے پاکستان کی تمام تر صنعت کو مکمل طور پر تباہ کردیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب پاکستان میں بڑے بڑے کارخانے کام کررہے تھے، جدید ملیں لگائی جارہی تھیں، اور صنعتی اعتبار سے پاکستان بہت ترقی کررہا تھا۔ بھٹو نے آتے ہی تمام کارخانوں کو قومی تحویل میں لے لیا۔ نتیجتاً جیسا کہ سرکاری اداروں کے ساتھ ہوتا ہے، ایک دو سال کے اندر اندر ہی تمام منافع بخش کارخانے کھنڈر بن کر یا تو بند ہوگئے یا نقصان میں چلنے لگے۔ ملکی معیشت کو اس سے زیادہ کاری ضرب اور نہیں لگائی جاسکتی کہ جتنی بھٹو نے لگائی۔ اس دن سے لیکر آج تک پاکستان صنعتی میدان میں دوبارہ اپنے پاﺅں پر کھڑا نہیں ہوسکا۔
بھٹو ایک جنونی فاشسٹ تھا اور چینی سوشلزم کا پیروکار۔ اس نے اپنا لباس بھی ماوزے تنگ جیسا بنا لیا تھا۔ سوشلسٹ نظریات کی وجہ سے وہ قذافی، حافظ الاسد اور یاسر عرفات کے بھی بہت نزدیک تھا۔ اسی لیے لاہور میں سٹیڈیم کا نام بھی قذافی سٹیڈیم رکھا گیا تھا۔ 1973 ءمیں اسلامی سربراہی اجلاس نے لاہور میں ہی ہونا تھا اور چونکہ اس وقت بھٹو کی حکومت تھی لہذا بھٹو نے اس کا سارا کریڈٹ اپنے سر لے لیا۔
اسی دور میں اس ”جمہوری“ وزیراعظم نے مارشل لاءبھی لگایا اور خود چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر بھی بنا۔
بھٹو کی تمام تر خباثت اور نجاست کے باوجود اللہ نے اس کو مجبور کیا کہ وہ پاکستان کیلئے کچھ کام بھی کرے۔ چونکہ بھارت ایٹمی دھماکہ کرچکا تھا لہذا اب بھٹو بھی مجبور تھا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کرے۔
دوسری جانب چونکہ افغانستان مسلسل پشتونستان بنانے کیلئے پاکستان میں دخل اندازی کررہا تھا تو اس کے جواب میں بھٹو نے بھی افغانستان کے اندر مسلح گروہوں کی تیاری کا سلسلہ شروع کیا کہ جو بعد میں آگے جا کر روسی جارحیت کے خلاف مجاہدین کے نام سے مشہور ہوئے۔
اس دور میں مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان فسادات شروع ہوگئے تھے اور بھٹو کو مجبوراً پارلیمنٹ میں قادیانیوں کو بلا کر ان کا موقف پوچھنا پڑا۔ جب قادیانیوں نے پوری پارلیمان کے سامنے تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیا تو جذبات بہت زیادہ بھڑک گئے اور بھٹو کیلئے ممکن نہ رہا کہ وہ عوام کے جذبات کے سامنے کوئی مزاحمت کرسکتا۔ لہذا مجبوراً پوری پارلیمان کے فیصلے کے مطابق اسے قادیانیوں کو کافر قرار دینا پڑا، حالانکہ وہ خود مکمل طور پر سیکولر سوشلسٹ نظریات کا حامل تھا۔
1977 ءکے الیکشنز میں دھاندلی کے بعد بھٹو کے خلاف نظام مصطفیٰ تحریک چل پڑی۔ بھٹو نے اپنی مخالفت کو دبانے کیلئے فیڈرل سیکورٹی فورس کے غنڈوں کے ذریعے بے دریغ طاقت کا استعمال کیا۔ سینکڑوں لوگوں کو شہید اور زخمی کیا گیا اور ہزاروں کو گرفتار۔ مگر مظاہرے بڑھتے ہی رہے ۔ حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آگیا کہ فوج کو بلا لیا گیا۔ بھٹو نے فوج کو براہ راست حکم دیا کہ عوام پر گولیاں چلائے۔ لاہور میں چار بریگیڈیئروں نے اس حکم کو ماننے سے انکار کردیا اور فوج میں بغاوت پھیل گئی۔ اب صورتحال بہت نازک ہوچکی تھی۔ فوج کا ڈسپلن ٹوٹ رہا تھا، پورے ملک میں مظاہرے ہورہے تھے، اور بھٹو بضد تھا کہ فوج اپنے ہی عوام کا قتل عام کرے۔ یہ وہ موقع تھا کہ جب مجبوراً اس وقت کے سپہ سالار جنرل ضیاءالحق کو ملک میں مارشل لاءلگانا پڑا۔ لوگ ضیاءالحق کو مارشل لگانے پر تو گالیاں دیتے ہیں مگر کوئی ان اسباب کا ذکر نہیں کرتا، نہ بھٹو کے جرائم کی بات کرتا ہے کہ جن کی وجہ سے فوج مجبور ہوئی کہ عوام کو بچانے کیلئے مارشل لاءلگائے۔
بھٹو کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد اس کے بیٹوں مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو نے ایک باقاعدہ ایشیاءکی سب سے پہلی اور منظم دہشت گرد تنظیم ”الذوالفقار“ بنائی اور پاکستان کے خلاف باقاعدہ جنگ کا آغاز کیا۔ الذوالفقار نے پشاور سے پی آئی اے کا جہاز اغواءکیا اور اسے کابل لے گئے، کہ جہاں اس وقت روسی موجود تھے۔ کابل ایئر پورٹ پر الذوالفقار کے دہشت گرد سلام اللہ ٹیپو نے طارق رحیم نامی پاکستانی سفارتکار کو گولی مار کر جہاز سے نیچے پھینک دیا۔ کابل سے جہاز اڑ کر دمشق لے جایا گیا کہ جہاں حافظ الاسد حکومت مکمل طور پر پاکستان کے خلاف الذوالفقار کے دہشت گردوں کی حمایت کررہی تھی۔ جہاز کے بے گناہ مسافروں کو بازیاب کرانے کیلئے مجبوراً کئی سو پیپلز پارٹی کے جیالوں اور دہشت گردوں کو پاکستان کی جیلوں سے آزاد کیا گیا اور انہیں شام روانہ کردیا گیا کہ جس کے بعد پی آئی اے کا اغواءکردہ جہاز اور اس کے مسافر بحفاظت پاکستان پہنچ سکے۔
مرتضیٰ بھٹو نے ایک شامی لبنانی عورت سے شادی کی، کہ جو آج بھی پاکستان میں غنویٰ بھٹو کے نام سے رہتی ہے۔ شاہ نواز سے افغانی کمیونسٹ عورت سے شادی کی۔ الذوالفقار پورے پاکستان میں کئی برس تک دہشت گردی کی خونریز کارروائیاں کرتی رہی۔ بینظیر بھٹو مکمل طور پر اپنے بھائیوں کے ساتھ اس دہشت گردی میں شامل تھی۔ بینظیر نے کبھی بھی اپنے بھائیوں کے خلاف نہ کوئی کارروائی کی، نہ ان کو دہشت گردی سے روکا اور نہ ہی بعد میں ان پر مقدمے چلائے کہ جب وہ خود وزیراعظم بن چکی تھی۔ پیپلز پارٹی کے وہ تمام دہشت گرد کہ جو جہاز اغواءکرنے کے نتیجے میں رہا کیے گئے تھے آج بھی پاکستان میں مختلف سیاسی جماعتوں کے جیالے ہیں۔
بعد میں اللہ نے ہی شاہ نواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو سے انتقام لیا۔ شاہ نواز اور مرتضیٰ کی پیسوں کے تنازعے پر لڑائی ہوئی اور اسی جھڑپ میں شاہ نواز مارا گیا۔ اس کی موت کو چھپانے کیلئے خودکشی کا نام دیا گیا۔ پیپلز پارٹی والے کہتے ہیں کہ اس کو اس کی بیوی نے زہر دیا، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ مرتضیٰ سے لڑائی میں مارا گیا تھا۔
مرتضیٰ بھٹو پاکستان واپس آیا کہ جب اس کی بہن ملک کی وزیراعظم بن چکی تھی۔ آصف زرداری جیسا ناپاک اور پلید ڈاکو بینظیر کا شوہر تھا۔ بینظیر کے شوہر اور بھائی میں اختیارات اور دولت کی تقسیم کے تنازعے شدت اختیار کرتے جارہے تھے اور بالآخر ایک دن زرداری نے دن دیہاڑے کراچی کی سڑکوں پر مرتضی کو بھی اپنے ساتھیوں سمیت قتل کروادیا۔ مرتضی کی بیٹی فاطمہ بھٹو آج بھی کھل کر کہتی پھرتی ہے کہ اس کے باپ کو زرداری نے قتل کروایا، مگر آج بھی سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور کسی عدالت یا پولیس کی اتنی جرا¿ت نہیں ہے کہ مرتضی کے قتل کا مقدمہ زرداری پر قائم کرسکے۔ مرتضی کا بیٹا ذوالفقار علی بھٹو آج ایک ہیجڑہ ہے جو کھل کر اپنے قوم لوط میں سے ہونے کا اقرار کرتا ہے۔ زرداری کا بیٹا ایک دوسرا ہیجڑہ ہے کہ جس کو اب زرداری آئندہ پاکستان کا وزیراعظم بنانے کیلئے تیار کررہا ہے۔
بھٹو کی بیٹی پاکستان کی وزیراعظم بنی مگر پاکستان کو اسی طرح لوٹا اور تباہ و برباد کیا کہ جیسے پہلے اس کا باپ کرچکا تھا۔ بالآخر وہ بھی اپنے عبرتناک انجام کو پہنچی۔ ابھی یہ تحقیق ہونا باقی ہے کہ بینظیر کا قاتل وہ خودکش حملہ آور تھا یا اس کا وہ شوہر کہ جو بعد میں ایک فرضی وصیت لے کر ملک کا صدر بن بیٹھا۔
پورا اندرون سندھ، کہ جہاں ”آج بھی بھٹو زندہ ہے“ ، غربت اور افلاس کی عبرتناک تصویر ہے۔ اربوں روپے کی لاگت سے قائم کردہ بھٹو خاندان کے مقبرے کے ساتھ ہی وہ پانی کا جوہڑ ہے کہ جہاں انسان اور حیوان اکٹھے پانی پیتے ہیں۔ جبکہ زرداری اور بھٹو خاندان کی باقیات کا یہ عالم ہے کہ قارون کے خزانے ان کے آگے کم نظر آتے ہیں۔ پوری دنیا میں ان کی دولت بکھری ہوئی ہے کہ جس کا حساب کرنا بھی ناممکن ہے۔
تو یہ ہے مختصر سی تاریخ بھٹو اور اس کے خاندان کی کہ جو پچھلے تقریباً پچاس برس سے پاکستان پر اللہ کے عذاب کی طرح مسلط ہے۔ پہلے بھٹو، پھر مرتضی اور شاہنواز، پھر بینظیر، پھر زرداری، اور اب بلاول۔ ہر آنے والی نسل پچھلی سے زیادہ ناپاک، زیادہ حرام خور اور زیادہ جہنمی ہے۔
ان شاءاللہ، اب وقت آگیا ہے کہ جس طرح بھٹو اللہ کی گرفت میں آیا اور پھانسی چڑھا، اسی طرح اب زرداری جیسا ڈاکو اللہ کی گرفت میں لایا جائے گا، ان شاءاللہ۔ اس سے زیادہ ناپاک خاندان پاکستان کی تاریخ میں پیدا نہیں ہوا۔ ایک سے ایک بڑھ کر غدار، قاتل، ڈاکو اور بدکار۔
اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ اللہ زرداری اور اس کی باقیات اپنی گرفت میں لیتا ہے یا پاکستان سے پیار کرنے والی کی گرفت
میں دیتا ہے۔ اس فتنے کو اب دفن کرنا لازم ہے ، ان شاءاللہ۔
https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/photos/a.109687115752775.23119.109463862441767/1403891256332348/?type=3&theater
Gave a beeper today against Mehmood Achakzai and other traitors in Pol parties
https://www.youtube.com/watch?v=YAHVmkj2dHE&feature=youtu.be
Gave a beeper today against Mehmood Achakzai and other traitors in Pol parties
https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/1403978309656976
No comments:
Post a Comment