*جاں نثارو، سرفروشو۔۔۔۔ اب وقت ہے وفا کا!*
*جاں نثارو، سرفروشو۔۔۔۔ اب وقت ہے وفا کا!*
پاک فوج کے سپہ سالار اور کور کمانڈروں کے نام
تحریر: سید زید زمان حامد
میرے مرحوم والد لیفٹیننٹ کرنل محمود الزمان حامد کا تعلق پاک فوج کی توپ خانے کی رجمنٹ سے تھا۔ 1950 ءمیں پاکستان ملٹری اکیڈمی کے پہلے Pioneer دستے یعنی 1st PMA سے ان کا تعلق تھا۔ میجر عزیز بھٹی شہید، جنرل نصیر اللہ بابر، جنرل جہانداد جیسے اعلیٰ افسر ان کے کورس میٹ تھے۔آج بھی PMA میں 1st PMA کی ساٹھویں سالگرہ کی شاندار تختی لگی ہوئی ہے کہ جس میں پاک فوج کے اس ہر اول دستے کے نام کندہ ہیں۔
65 ءاور 71 ءکی دونوں جنگوں میں اس وقت میجر محمود الزمان سیالکوٹ کے محاذ پر براہ راست دشمن سے متصادم ہوئے۔ پاک فوج کی پوری تاریخ اپنے سینے میں لیے رکھتے تھے۔ شجاعت اور دلیری کی داستانیں، قربانیوں اور شہادتوں کے عینی شاہد، بزدلی اور بے غیرتی کی ان گنت المناک سازشوں کے گواہ اور ہمارے کامیابیوں اور ناکامیوں کے اسباب کی طویل تاریخ ان کی یادداشتوں میں پتھر میں لکیر کی طرح گڑی ہوئی تھی۔
1980 ءکی دہائی میں جب میں خود جہاد افغانستان میں ایک مجاہد کی حیثیت سے سوویت یونین کے خلاف برسر پیکار تھا تو باپ اور بیٹے کے درمیان عسکری تاریخ، حکمت عملی اور روایتی اور غیر روایتی جنگوں پر تفصیلی گفتگو ہوتی، خاص طور پر پاک بھارت جنگوں میں ان کا تجربہ ذاتی طور پر میرے لیے ایک انتہائی قیمتی خزانہ تھا کہ جس میں ہر وقت ان کے وجود سے کرید کرید کر نکالتا رہتا۔
میرے لیے وہ واقعات خاص طور پر گہرے اثر انگیز تھے کہ جن میں فوجی قیادت کی غلطیوں، کوتاہیوں اور یہاں تک کہ بذدلی کی وجہ سے شدید نقصان اٹھانے پڑے، ہزاروں دلیر جوانوں کی قربانی دینی پڑی اور شکست اور ہزیمت کی ذلت برداشت کرنی پڑی۔ آپریشن جبرالٹر ہو یا گرینڈ سلام یا سقوط ڈھاکہ۔۔۔۔ اپنی کامیابیوں سے زیادہ میں ان سے اپنی شکست کے اسباب جاننے کی کوشش کرتا، تاکہ آنے والی جنگوں میں ان سے عبرت حاصل کرکے سبق سیکھے جاسکیں۔
والد صاحب فرماتے تھے کہ میدان جنگ میں 5 فیصد افسر اور جوان ایسے ہوتے ہیں کہ جو حقیقت میں پوری جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ ان کیلئے "Mad Brave" کی اصطلاح استعمال کرتے۔ یہ وہ افسر ہوتے کہ جن کو دیکھ کر باقی پوری فوج کو حوصلہ ملتا، ورنہ ان کے مطابق اکثریت میدان جنگ میں قیادت کی اہل نہیں ہوتی، اور جونہی حالات خراب ہونا شروع ہوں ان کے حوصلے پست ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہی 5 فیصد افسرہوتے ہیں کہ جو پوری فوج کو جرات اور دلیری سے متحدرکھ کر جنگ کا پانسا اپنے حق میں پلٹتے ہیں۔
والد صاحب کے مطابق ایسے افسران کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہوتی تھی کہ ان میں سے اکثر اس قدر دلیر اور آزاد طبیعت کے ہوتے تھے کہ ان کو زمانہ امن میں ان کے سینیئر کبھی بھی پسند نہیں کرتے تھے، اکثر کو ڈسپلن کے حوالے سے ڈانٹ ڈپٹ پڑتی رہتی اور کچھ تو کورٹ مارشل کے قریب تک جا پہنچتے۔ ہر وقت کچھ کر گزرنے کا جوش، دشمن پر جھپٹنے کی خواہش اور قانونی پابندیوں سے باغی، میدان جنگ میں یہی افسر دشمن پر اس طرح جھپٹتے تھے کہ پوری فوج کا حوصلہ بلند کرجاتے۔
ان کی یہ بات سن کر میں اکثر سوچتا کہ یہ ہمارے جتنے نشان حیدر پانے والے شہداءہیں اگر یہ زندہ بچ کر واپس آجاتے تو شاید ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے پر ان سب کا کورٹ مارشل کردیا جاتا۔ شاید نشان حیدر ملتا ہی اس کو ہے کہ جو روایتی ڈسپلن کو توڑ کر ناقابل یقین اور غیر متوقع حد تک دلیری اور شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف دشمن کو روند دے بلکہ خود اپنوں کو بھی حیران کر جائے۔
والد صاحب فرماتے تھے کہ زمانہ امن میں جس جوان یا افسر کو ”پٹھو“ لگا کر ”اٹھا“ مل رہا ہوتا تھا، وہی بھڑکتے میدان جنگ میں یونٹ کا ہیرو ہوتا۔
آنے والے وقت میں اب یہ بات بالکل واضح ہوچکی ہے کہ پاک فوج کوایک مرتبہ پھر براہ راست اپنے ازلی ابدی دشمنوں سے متصادم ہونا پڑے گا۔ پاک فوج کے ہر افسرکے اوپر بھی افسر ہیں اور اس کے نیچے بھی۔ ایک اعلیٰ ترین افسر کی یہ بھی پہچان ہے کہ وہ اپنے ماتحت افسروں میں ذہین اور دلیر افسروں کی پہچان کرکے ان کی پرورش بھی کرے۔ جو جتنا ذہین اور دلیر افسر ہوگا اتنا ہی آزاد طبیعت بھی رکھتا ہوگا اور بالا افسروں کیلئے اس کو ڈسپلن میں رکھنا بھی اتنا ہی مشکل ہوگا۔
سیدنا خالد بن ولیدؓ ”سیف اللہ“ تھے۔ اس قدر آزاد طبیعت کہ سوائے سیدی رسول اللہﷺ کے اور کسی حد تک سیدنا ابوبکرؓ کے کائنات میں کوئی اور وجود سیدنا خالدؓ کو کنٹرول نہیں کرسکتا تھا۔ یہاں تک کہ سیدنا عمرؓ کیلئے بھی ایک مسئلہ تھا کہ سیدنا خالدؓ کیسے روایتی ڈسپلن کے اندر رکھا جاسکے۔ مگر یہی خالدؓ تھے کہ جن کی آزاد، غیر روایتی اور خطرات مول لینے والی طبیعت نے چند ہی برسوں میں فارس اور روم کی عظیم الشان سلطنتوں کو اپنی تلوار سے اڑا کر رکھ دیا اور ایسے ایسے جنگی کارنامے سرانجام دیئے کہ انسانی تاریخ نہ تو ان سے پہلے ان کی کوئی مثال پیش کرسکتی ہے نہ ان کے بعد آج تک۔
اب جو جنگ پاک فوج لڑنے جارہی ہے، وہ ان تمام جنگوں سے مختلف ہوگی کہ جو ماضی میں ہم لڑ چکے ہیں۔ یہ جنگ روایتی بھی ہوگی اور غیر روایتی بھی، محاذ پر بھی ہوگی اور ہمارے شہروں میں بھی، مرکزی بھی ہوگی اور غیر مرکزی بھی۔۔۔۔ مگر جہاں تک جذبے اور حوصلے کا تعلق ہے تو اس کے قوانین وہی رہیں گے کہ جو ہر جنگ کے ہوتے ہیں۔۔۔۔ شیروں اور دلیروں کی ایک اقلیت کہ جو اپنے پلٹنے اور جھپٹنے کی غیر روایتی اور دلیرانہ صلاحیت کی وجہ سے ملک و قوم و ملت و فوج کو اس عظیم آزمائش میں سے گزاریں گے۔
پاک فوج کے تمام سالاروں کو یہ بات بہت اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان کی صفوں میں لاکھوں کی تعداد میں غدار موجود ہیں اور یہ سیاسی اور مذہبی دہشت گرد عین اس وقت بغاوت برپا کریں گے کہ جب پاک فوج مشرق کی جانب سے اٹھنے والی آندھی کا مقابلہ کررہی ہوگی۔ اس لیے اس خطرے کو سامنے رکھتے ہوئے ہر سینئر افسر کو اب ذہنی طور پر تیار ہونا ہوگا کہ اس خطرناک اور غیر یقینی صورتحال سے نمٹنے کیلئے بھی غیر روایتی اور انتہائی متحرک حکمت عملی وقت اورحالات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ مرتب کرنا ہوگی۔ اس بات کے قوی امکان ہیں کہ ایک مرکز سے پورے پاکستان کی جنگوں کو کنٹرول نہ کیا جاسکے، اور مختلف علاقوں میں پاک فوج کے کمانڈروں اور افسروں کو اپنے اپنے علاقوں کی مقامی صورتحال کے مطابق حربی حکمت عملی کو متحرک طور پر ترتیب دینا پڑے۔
جب ملک میں غدار موجود ہوں اور دشمن کے حملے کی وجہ سے پورا ملک میدان جنگ بن چکا ہو تو اس وقت کوئی کتابی قانون اور قاعدہ کام نہیں کرتا۔ مقامی اعلیٰ کمانڈروں کو خود ہی جرات اور دلیری سے حالات کے مطابق فیصلے کرنے ہونگے۔
ان شاءاللہ، اس پاک سرزمین کی حفاظت ہر طرح کی قربانی پیش کرکے کی جائے گی، مگر اس قوم کے اجتماعی گناہوں کی فہرست اس قدر طویل ہے کہ اب اس کا کفارہ خون سے ادا کرنا ہوگا۔ پاک فوج ہی اس پاک سرزمین کے دفاع اور حفاظت کی ضامن ہے، مگر جب معاشرے میں غدار چیونٹیوں کی طرح رینگ رہے ہوں تو پھر پاک فوج کے ہر افسر کو انہی ” 5 فیصد“ میں سے ہونا پڑے گا۔
جاں نثارو، سرفروشو۔۔۔۔ اب وقت ہے وفا کا!
https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/photos/a.1643903065664498/2402949449759852/?type=3&theater
No comments:
Post a Comment