بھارت جب پاکستان کے تمام دریاؤں پر پانی روک کر پاکستان کو بنجر کررہا تھا تو پیپلز پارٹی کے حرام خوروں کو سانپ سونگھ چکا تھا۔ اب جبکہ پاکستان اپنے ڈیم بنانا چاہتا ہے تو یہ زہریلے ناگ اپنے بلوں سے نکل کر پھنکار رہے ہیں۔ یہ آر یا پار کا وقت ہے، اگر ان کی دھمکیوں میں آئے تو آنے والی نسلیں پیاسی مریں گی
یہ تقریباً 1998 ء کی بات ہے۔ نواز شریف کی حکومت ایک نہر بنانا چاہتی تھی کہ جس کی لاگت تقریباً 120 ارب روپے لگائی گئی۔
مشرف نے اس کی لاگت کا تخمینہ دوبارہ لگوایا تو خرچ 65 ارب تک کم ہوگیا۔
جب مشرف نے تیسری مرتبہ تخمینہ لگوایا تو معلوم ہوا کہ یہ نہر تو صرف 22 ارب میں بنوائی جاسکتی تھی۔
وہ نہر کہ جس کا تخمینہ نواز شریف کی 98 ء کی حکومت نے 120 ارب لگوایا تھا، وہ مشرف دور میں تقریباً 22 ارب میں مکمل ہوئی۔
پاکستان کے تمام بڑے بڑے عوامی منصوبوں کا یہی حال ہوتا ہے۔
ہر منصوبے میں سینکڑوں ارب روپے حرام کے کھائے جاتے ہیں۔ چاہے میٹرو ہو، ڈیم ہوں، موٹروے ہو، اورنج ٹرین ہو۔۔۔۔۔۔
اگر کسی عوامی منصوبے کا خرچ 100 ارب لگایا گیا ہے تو اس میں یقینی طور پر 70 ارب ٹھیکیداروں کا منافع ، وزیروں کا کمیشن اور سرکاری افسروں کی اوپر کی کمائی ہوتی ہے۔ منصوبے کا اصل خرچ 30 ارب ہی ہوتا ہے، مگر قوم کو 100 ارب کا ٹیکا لگایا جاتا ہے۔
ہر عوامی منصوبے میں تقریباً یہی تناسب ہے۔
آج اگر ایک ڈیم کیلئے 1000 ارب کا خرچ بتایا جارہا ہے، تو یقینی طور پر سمجھ لیں کہ ڈیم 200-300 ارب کے درمیان آسانی سے بنایا جاسکتا ہے، اگر اس کا ٹھیکہ ان سرکاری اداروں کو دیا جائے کہ جو نفع نقصان کے بغیر صرف ملک کی خدمت کے جذبے سے اس کو تعمیر کریں۔
شاہراہ ریشم فوج کی FWO نے بنائی ہے اور دنیا کی مشکل ترین اور سستی ترین شاہراہ ہے۔
جب پوری قوم اپنے خون پسینے کی کمائی ڈیم فنڈ کیلئے دے رہی ہو، تو اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا کہ کوئی حرام خور ٹھیکیدار اس منصوبے سے 300 ارب روپے کا منافع نکال لے۔
ایسے منصوبے صرف اچھی شہرت کے حامل سرکاری اداروں کو مکمل کرنے چاہئیں، جو اس کے اصل خرچ پر اس کو تعمیر کریں اور قوم کے کئی سو ارب ضائع ہونے سے بچائے جاسکیں۔
ایک بات بہت اچھی طرح سمجھ لیں کہ ڈیموں کی تعمیر کی اصل رقم اسی وقت جمع ہوگی کہ جب حرام خوروں کے پیٹ پھاڑ کر ملک کا لوٹا ہوا پیسہ برآمد کیا جائے۔ صرف ایک رات میں 1000 ارب روپیہ اکٹھا کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے اگر حکومت، عدلیہ اور فوج ذرا جرأت رندانہ سے کام لیں۔
بھٹو کو بڑا تکبر تھا کہ اس کو پھانسی نہیں دی جاسکتی کہ پورا سندھ بغاوت کردے گا۔ پھر تاریخ نے یہ عبرتناک منظر بھی دیکھا کہ تاریکی میں پڑھے گئے اس کے جنازے میں بیس افراد بھی شریک نہ ہوئے، سندھ میں ایک بھی احتجاج نہ ہوا، ایک بھی ٹرین نہ رکی۔۔۔۔
بھارت جب پاکستان کے تمام دریاؤں پر پانی روک کر پاکستان کو بنجر کررہا تھا تو پیپلز پارٹی کے حرام خوروں کو سانپ سونگھ چکا تھا۔ اب جبکہ پاکستان اپنے ڈیم بنانا چاہتا ہے تو یہ زہریلے ناگ اپنے بلوں سے نکل کر پھنکار رہے ہیں۔ یہ آر یا پار کا وقت ہے، اگر ان کی دھمکیوں میں آئے تو آنے والی نسلیں پیاسی مریں گی۔
سندھ اور کراچی شہر میں پہلے ہی پانی کا قحط پڑا ہوا ہے۔ پچھلے 30 برس سے تقریباً پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور یہ پوری حکومت پانی کا مافیا ہے۔ یہ کسی صورت کراچی کو پانی کی فراہمی نہیں چاہتے کہ ان کی ٹینکر مافیا سے روز کی اربوں کی کمائی ماری جاتی ہے۔ اسی لیے یہ ڈیم کی مخالفت بھی کرتے ہیں۔
ٹینکر مافیا کے علاوہ زرداری اور ڈاکٹر عاصم PSO کے ذریعے آئل مافیا کو بھی کنٹرول کرتے ہیں۔ ہر سال اربوں ڈالر کا تیل درآمد کیا جاتا ہے کہ جس کی کثیر تعداد بجلی بنانے پر استعمال ہوتی ہے اور جہاں ان حرام خوروں کا اصل کمیشن ہے۔ ڈیم بن گئے تو پھر تیل سے مہنگی بجلی کون بنائے گا، اور ان حرامیوں کی لگی آمدنی ماری جائے گی۔
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی تمام قیادت کو جیل میں ڈالنا ہوگا۔ یہ مصلحتوں اور سیاسی مفاہمتوں کا وقت نہیں ہے، معیشت کے استحکام اور ملک کے دفاع کا وقت ہے۔
بلدیہ فیکڑی کے زندہ جلائے گئے 300 معصوموں کا خون کیسے معاف کیا جاسکتا ہے؟؟؟
تھر کے ہزاروں بچوں کی قحط سے موت کیسے بھلائی جاسکتی ہے؟؟؟
یہ بات بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کا موجودہ عدالتی نظام دہشت گردوں اور غداروں کا سب سے بڑا محافظ ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب پاکستان کی محبت میں سرتوڑ کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان کا دفاع کیا جاسکے، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ جس نظام کے سربراہ ہیں وہ بذات خود ایک کینسر ہے۔
آج پاکستان میں جتنے جتنے بڑے اصلاحی فیصلے کیے جارہے ہیں اس کا سہرا چیف جسٹس ثاقب نثار کے سر جاتا ہے۔ یہ بات تو خود عمران نے تسلیم کی کہ ڈیم بنانا سپریم کورٹ کا نہیں حکومتوں کا کام تھا، مگر حکومتوں کی ناکامی کی وجہ سے سپریم کورٹ کو یہ ذمہ داری لینی پڑی۔
عمران! کالا باغ ڈیم پر جرأت سے بات کریں۔
کالا باغ ڈیم کے معاملے پر پوری قوم کی ذہن سازی کی بھی ضرورت ہے۔ ہمارا مشرک دشمن اندرونی غداروں کے ساتھ ملکر اس قدر فساد پھیلا چکا ہے کہ جہاں ہمیں غداروں کے سر قلم کرنے ہیں، وہیں جاہلوں کی ذہن سازی بھی کرنی ہے۔ جو میڈیا یا اخبار اس راہ میں رکاوٹ بنے اس کو سختی سے کچل دیں۔
پوری دنیا کے کفار، مشرک اور غدار پاکستان بننے کی بھی تو مخالفت کرہی رہے تھے نا۔۔۔!!! مگر پھر بھی اللہ کے فضل سے اس وقت کی مضبوط ترین قیادت نے یہ ’’ناممکن‘‘ ممکن کردکھایا نا!
بات قیادت کی ہے۔ اگر جرأت کردار ہو تو ہم دنیا کی مخالفت کے باوجود پاکستان بھی بناسکتے ہیں ، اس کو ایٹمی طاقت بھی بناسکتے ہیں تو پھر کالا باغ ڈیم بنانا کونسا مسئلہ ہے؟؟؟
آج بھی پاکستان میں ایک قانونی اور آئینی نظام موجود ہے کہ جس کے تحت صوبوں کے درمیان پانی تقسیم ہوتا ہے۔ کسی صوبے کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ تو پھر جب کالا باغ ڈیم بن جائے گا تو تب کیوں اور کیسے سندھ کا پانی چوری ہونے لگے گا؟
واضح بات ہے جو یہ طوفان کھڑا کررہے ہیں وہ بدکردار غدار ہیں۔
اس بات پر بھی غور کریں کہ وہ تمام کمینے جو آج کالا باغ ڈیم کے نام پر پاکستان توڑنے کی دھمکی دیتے ہیں، ان سب کو ہمارے مشرک دشمن کی طرف سے ہڈی ملی ہوئی ہے۔ جب بھارت پاکستان کا پانی روکتا ہے تو یہ اپنے سانس روک لیتے ہیں، جب ہم اپنا ڈیم بناتے ہیں تو یہ بھونکنے لگتے ہیں۔
یہودیوں کے ایک بہت بڑے عالمی ادارے کی رپورٹ ہے کہ 2027 ء تک بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کے مسئلے پر ایک خونریز ایٹمی جنگ ہوگی۔
آج پاکستان اور بھارت کے درمیان جو پانی کا تنازع کھڑا ہوچکا ہے اور پاکستان کو جو قحط سالی کا سامنا ہے، اس سے تو یہ بات بالکل درست معلوم ہوتی ہے۔
ماضی کا ایک چینی دانشور کہتا ہے کہ اگر تم ایک سال کی تیاری کرنا چاہتے ہو تو چاول اگاؤ۔ اگر دس سال کی تیاری کرنا چاہتے ہو تو درخت لگاؤ، اگر سو سال کی تیاری کرنا چاہتے ہو تو اپنی قوم کو تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کرو۔
ہمارے سیاست دان تو صرف اگلے الیکشن کی تیاری کرتے ہیں، قوم جائے بھاڑ میں
https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/1836191849768951?__tn__=K-R
No comments:
Post a Comment