Saturday 1 September 2018

August 6th, 2018

اگر اب تک نہیں لگایا ہے، تو آج اپنے گھروں اور سواریوں پر یہ سبز ہلالی پرچم ضرور لہرائیں۔
کچھ لوگ کہتے ہیں جھنڈا نہ لگاﺅ، درخت لگاﺅ۔ اللہ کے بندو، درخت بھی لگاﺅ اور پرچم بھی لگاﺅ۔ درخت ماحول کی حفاظت کیلئے ہے، اور پرچم اپنی نظریاتی اورروحانی اساس کے دفاع کیلئے۔





اگر اب تک نہیں لگایا ہے، تو آج اپنے گھروں اور سواریوں پر یہ سبز ہلالی پرچم ضرور لہرائیں۔
کچھ لوگ کہتے ہیں جھنڈا نہ لگاﺅ، درخت لگاﺅ۔ اللہ کے بندو، درخت بھی لگاﺅ اور پرچم بھی لگاﺅ۔ درخت ماحول کی حفاظت کیلئے ہے، اور پرچم اپنی نظریاتی اورروحانی اساس کے دفاع کیلئے۔

اس سبز ہلالی پرچم کو، کوئی معمولی جھنڈا نہ سمجھنا۔ یہ پرچم ستارہ و ہلال، یہ رہبر ترقی و کمال ہے، یہ ترجمان ماضی بھی ہے اور شانِ حال بھی، اور اس پر سایہءخدائے ذوالجلال بھی ہے۔
سیدی رسول اللہﷺ کے اس مدینہءثانی کی آبرو بھی ہے اور غزوئہ ہند میں ہمارے جلال کی پہچان بھی۔

یہی وہ سبز ہلالی پرچم ہے کہ جسے احادیث مبارکہ میں ”رایات سود“ فرمایا گیا ہے۔ لوگ اس کا ترجمہ ”کالے جھنڈے“ کرتے ہیں۔ حقیقت میں اس کا ترجمہ ہے” بابرکت، بزرگ، جلال والے جھنڈے“۔۔۔
”سود“ کا ترجمہ سیاہ بھی ہوتا ہے اور پر جلال بھی۔ اور پھر عربی زبان میں گہرے سبز رنگ کو بھی ”سود“ یعنی سیاہ سے تشبیہ دی جاتی ہے۔

جب اس پاک سرزمین میں سیدی رسول اللہﷺ کا نظام نافذ ہوگا، تو پھر اس پرچم کو بھی مکمل سبز ہلالی کردیا جائے گا۔ پاکستان میں بسنے والی اقلیتیں سیدی رسول اللہﷺ کی پناہ میں ہونگی۔ وہ ہمارے وجود اور معاشرے کا حصہ ہونگی۔ ان کو اپنے سے دھکیل کر الگ شناخت دینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

جب ہم کہتے ہیں کہ” اس پرچم کے سائے تلے، ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں“ تو اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں بسنے والے تمام مسلمان اور غیر مسلم اس سبز ہلالی پرچم تلے، شریعت رسول ﷺ میں، برابر کے شہری ہیں۔ ایک اسلامی ریاست اقلیتوں کو حقوق دینا جانتی ہے۔

دنیا کے 180 ممالک اور خطے ہیں کہ جن کے الگ الگ پرچم ہیں۔ کسی ایک نے بھی اقلیتوں کیلئے اپنے جھنڈے پر الگ لکیریں نہیں لگائی ہوئیں۔ تمام ممالک اپنے تمام شہریوں کو اپنے اندر ضم کرتے ہیں، ایک قومی شناخت دیتے ہیں، مساوی حقوق دیتے ہیں اور حفاظت کا ذمہ لیتے ہیں۔ ہمارا ”سبز“ کافی ہے، ”سفید“ کی نمائندگی کیلئے۔

بہت سے لوگ یہ اعتراض کریں گے کہ پرچم میں سفید لکیر تو قائداعظم اور لیاقت علی خان نے بھی قبول کرلی تھی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے تو مجبوراً پاکستان کو برطانوی ”ذیلی ریاست“ Dominion بھی قبول کرلیا تھا کہ جس کو 1958 ءمیں تبدیل کیا گیا۔
اس وقت بہت سے کام مجبوراً کیے گئے تھے جنہیں اب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

اس پاکستان کا پورا نظام ہم نے تبدیل کردینا ہے۔ اس کفر کے بنائے ہوئے غلامانہ عدالتی، سیاسی اور معاشی نظام کو جڑ سے اکھاڑنا ہے۔ تعمیر پاکستان کے بعد بھی ہم آج تک غلام ہی ہیں۔ جو مرد آزاد اس کفر کے نظام کو اکھاڑ کر یہاں خلافت راشدہ کا نظام لائے گا، وہی پرچم بھی درست کر لے گا۔

قائداعظم نے بڑے دکھ سے یہ بات فرمائی تھی کہ میری قوم آزاد تو ہوچکی ہے، لیکن اسے ابھی تک اس بات کا احساس نہیں ہے، یہ ابھی تک ذہنی اور فکری طور پر غلام ہے، جس دن اس کو اپنی آزادی کا احساس ہوگیا، اس دن اس قوم کو آسمان کی بلندیوں کو چھونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔

پاکستان کے اس یوم آزادی پر ہمیں یہ عہد کرنا ہے کہ ہم اس پاک سرزمین کو حقیقی معنوں میں ”آزاد ریاست“ بنائیں گے۔ کفر سے آزاد، ظلم سے آزاد، سود و رباءسے آزاد، انگریزی قوانین سے آزاد، قومیت، لسانیت اور فرقہ واریت سے آزاد، معاشی طور پر آزاد، سیاسی طور پر آزاد، نظریاتی طور پر آزاد۔۔۔۔

ہمارا المیہ ہی آج یہ ہے کہ ہمارے حکمران غلام ہیں، اور غلام کبھی ایک مرد آزاد کی طرح نہ فقر غیور رکھتا ہے، نہ نگاہ بلند، نہ سخن دلنواز، نہ جاں پرسوز۔ قوم کا معیار اس کا قدر غلیظ ہوچکا ہے کہ موجودہ سیاسی حکمرانوں کو ہی اپنا مسیحا سمجھ بیٹھے ہیں۔ حالانکہ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے کہ جو اس ملک میں قرآن و سنت نافذ کرنے کی جرات بھی رکھتا ہو۔

اس پاک سرزمین کی ہمیں ہر حال میں حفاظت کرنی ہے، چاہے آج یہاں انگریز کا نظام ہی نافذ کیوں نہ ہو۔ وہ اس لیے کہ یہ سرزمین ہوگی تو یہاں خلافت راشدہ کا نظام قائم کیا جاسکے گا۔ مدینہءثانی کی ریاست ہی نہ ہو، تو خلافت راشدہ کا نظام کہاں نافذ کریں گے؟؟؟
اللہ ہمیں ایسے حاکم دے گا۔ جو نظر آرہے ہیں، یہ وہ حاکم نہیں ہیں۔

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/1776485629072907?__tn__=-R


No comments:

:)) ;)) ;;) :D ;) :p :(( :) :( :X =(( :-o :-/ :-* :| 8-} :)] ~x( :-t b-( :-L x( =))

Post a Comment