"لاش کے ساتھ سحری"
محمد عبداللہ کے قلم سے
"لاش کے ساتھ سحری"
محمد عبداللہ کے قلم سے
اے سی کی ٹھنڈک میں نرم و گرم بستروں پر لیٹ کر، شاندار سجے آفس میں بیٹھ کر اپنے لیپ ٹاپ، اپنے اینڈرائڈ کی اسکرین پر فوج کو گالیاں دینا، ان پر لطائف بنانا، ان کی قربانیوں کا مضحکہ انگیز تذکرہ کرنا، ان کے کردار کو مشکوک بنانا، ان کے دین و ایمان پر سوال اٹھانا
ہاں میرے سائبر وارئیرز یہ کام بہت آسان ہے. دہشت گردی کے پیچھے وردی جیسے جملے لکھنا اور بولنا بہت آسان ہے. فوجی ہمارے نوکر ہیں جیسے الفاظ کہنا بہت ہی آسانی والا کام ہے. مگر جانتے ہیں کہ خود ان فوج والوں پر کیا بیتتی ہے، ان کے گھر والوں کا کیا حال ہوتا ہے؟
رمضان کی پہلی سحری ہے سبھی نے اپنے گھروں میں اپنے والدین، اپنے اہل و عیال کے ساتھ سحری کی ہوگی مگر ایک گھر کی سحری ایسی بھی ہے کہ جس میں بیوی کا شوہر تو موجود ہے، بچوں کا والد تو موجود ہے مگر ایک لاش کی صورت .....
دے سکتے ہو ایسی قربانی؟
جی زیر نظر تصویر ملٹری انٹیلینس کے کرنل #سہیل_عابد شہید کی ہے جو گزشتہ روز بلوچستان کے ریگزاروں میں دفاع وطن کے لیے دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر گئے...
آج سحری میں جب ان کے گھر میں ان کے پیارے، ان کے بابا، ان کے مجازی خدا، ان کے بڑھاپے کے توانا سہارے، ان کے جگر کے ٹکڑے کی لاش سامنے رکھی ہوگی تو خون کی سحری کرتے ہوئے ان کی کیفیات کیا ہونگی؟
ایسے میں اچانک سے ان کے سامنے یہ فقرہ آجائے کہ دہشت گردی کے پیچھے وردی ہے تو کیا حشر ہوگا ان ورثاء شہید کا؟
کرنل سہیل عابد شہید دہشت گردوں سے اس لیے لڑتے لڑتے شہید ہوگئے کہ ان کے وطن کا نوجوان سو حفاظتی حصاروں میں اپنے گھر میں بیٹھ کر اسی فوج کے خلاف اسٹیٹس دے سکے، اسی فوج کے خلاف ٹویٹس کرسکےـ
دہشت گردی کے پیچھے فوج جیسے گندے اور غلیظ نعرے لکھ سکے....
جانتے ہو جب تیرا یہ ایک اسٹیٹس کرنل سہیل عابد کے بچوں کی نظروں کے سامنے سے گزرے گا تو ان کے دل پر کیا بیتے گی؟
واللہ میں اپنے شہداء کی یہ بے توقیری دیکھ کر لرز اٹھتا ہوں اور دل سے یہ کسک سی اٹھتی ہے کہ یہ قوم دھماکوں اور حملوں ہی کی مستحق ہے مگر پھر دل میں خیال آجاتا ہے کہ یہ وطن تو اپنا ہے اس میں رہنے والے تو اپنے ہیں کیا ہو جو زبان دشمن کی بولتے ہیں، کیا ہوا جو شہداء کے مقدس لہو کی توہین کرتے ہیں، کیا ہوا جو اہل و عیال سے دور دفاع وطن کے مورچے پر ڈٹے سپاہی کا مورال اپ کرنے کی بجائے اس کی کردار کشی کرکے اس کا مورال ڈاؤن تو کرتے ہیں مگر ہیں تو اپنے نا اور پھر ان وردی والوں کی زندگیوں اور کردار پر بھی مجھے رشک آتا ہے ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں کہ ہر درد دل پر سہے جاتے ہیں، ہر الزام پی جاتے ہیں ، ہر گالی ہنس کر برداشت کرجاتے ہیں پلٹ کر جواب نہیں دیتے مگر جب بات دھرتی ماں کی آتی ہے تو سینہ سپر ہوجاتے ہیں دشمن کا پیچھا اس کی کوکھ تک کرتے ہیں اور اس کو جالیتے ہیں پھر ان وردی والوں میں سے کچھ اللہ سے کیا ہوا وعدہ شہادت پورا کرجاتے ہیں اور کچھ پھر سے منتظر کسی نئے معرکے کے کسی نئی کاروائی کے مگر عزم و حوصلہ ذرا برابر بھی نہیں بدلہ شاید انہی لوگوں کے لیے شاعر نے کہا کہ
خون دل دے کر نکھاریں گے رخ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
#Shaheed_Col_Suhail_Abid #Pak_Army
https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/1668665066521631
میدان جنگ میں دوست اور دشمن کی صرف ایک پہچان ہے!
کون اپنی فوج پر حملے کررہا ہے، اس کو بے عزت کررہا ہے، قوم اورفوج کے درمیان نفرت پیدا کررہا ہے، خود فوج کے اندر تفرقہ ڈال رہا ہے، فوج کی حمایت اور حوصلہ افزائی کے بجائے دشمن کی زبان بول رہا ہے۔
میدان جنگ میں دوست اور دشمن کی صرف ایک پہچان ہے!
کون اپنی فوج پر حملے کررہا ہے، اس کو بے عزت کررہا ہے، قوم اورفوج کے درمیان نفرت پیدا کررہا ہے، خود فوج کے اندر تفرقہ ڈال رہا ہے، فوج کی حمایت اور حوصلہ افزائی کے بجائے دشمن کی زبان بول رہا ہے۔
دشمن کا پراپیگنڈہ کس طرح ذہن سازی اور تخریب کاری کرتا ہے، ذرا غور سے سنیں۔
پاک فوج ملک کا 80 فیصد بجٹ کھا جاتی ہے۔
71 ءمیں 92 ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔
فوج نے آج تک کوئی جنگ نہیں جیتی۔
فوج کبھی جمہوریت کو چلنے نہیں دیتی۔
بچپن سے ہم یہی خرافات اور بکواس سنتے چلے آرہے ہیں، اور آج بھی سن رہے ہیں۔ منظور پشتین ہو، جاوید ہاشمی ہو، حامد میر ہو، امتیاز عالم ہو، محمود اچکزئی ہو، ایک سے ایک بڑھ کر حرامی کہ جو نظریاتی تخریب کاری نسلوں سے کررہے ہیں۔
پاک فوج صرف 8 فیصد بجٹ استعمال کرتی ہے۔
71 ءمیں صرف چالیس ہزار کے قریب فوجی دشمن کے قبضے میں گئے تھے۔ 52 ہزار سویلین، سرکاری ملازم اور فیملیز تھیں۔
آج اگر پاکستان بحیثیت ایک ملک سلامت ہے تو پاک فوج کی وجہ سے ہے۔
جمہوریت کا بیڑا غرق زرداری اور نواز شریف نے کیا ہے، فوج نے نہیں۔
اچھی طرح یاد رکھیں کہ میڈیا اور سیاست میں بیٹھے ہوئے حرام خور ناپاک دشمن، کبھی بھی دشمن کے روپ میں سامنے نہیں آئیں گے۔ وہ تجزیہ کار بن کر آئیں گے، عالم دین بن کر آئیں گے، سیاستدان بن کر آئیں گے، اور آپ کے وجود میں جھوٹ کا زہر گھولیں گے۔
پاک فوج میں ہمارے ہی بھائی اور بیٹے ہیں ناں۔ ہمارے ہی گلی محلوں سے اٹھ کر فوج میں گئے ہیں۔ یہ کوئی فرشتوں کی فوج تو نہیں ہے، مگر یہ حقیقت ہے کہ اللہ اور اسکے رسولﷺ اور پاکستان کے دشمنوں کیلئے قہر الٰہی ضرور ہے۔ اس فوج کا ہونا ہی پاکستان اور امت کی سلامتی کا ضامن ہے۔
آج پاک فوج کو بیچ میں سے نکال دیں، پھر دیکھیں بھارت کتنی دیر پاکستان کا وجود قائم رہنے دیتا ہے۔ آج پاک فوج کو ” بیرکوں“ میں بھیج دیں، پھر دیکھیں آپ کو ”شام“ بننے میں کتنی دیر لگتی ہے۔
ٹی وی پر بیٹھ کر بھونکنے والے کیا جانیں ان بیٹوں کی قدر۔
آج بڑے بڑے صحافی اور دانشور ڈان لیکس کے معاملے پر فوج کو گالیاں بک رہے ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے کہ پاناما کے معاملے میں مافیا کا تعاقب تمہارا باپ کررہا ہے؟ جے آئی ٹی میں کام تمہارے چاچے نے کیا تھا؟ جنگ کے ایک محاذ پر پیچھے ہٹنے کا مقصد دوسرے محاذ پر حملہ بھی تو ہوسکتا ہے ناں۔۔۔
اگر کسی شخص نے سو قتل کیے ہوں، تو اس کو پھانسی چڑھانے کیلئے قتل کا ایک مقدمہ بھی کافی ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ سو کے سو مقدمے چلائے جائیں، جبکہ وقت اور وسائل محدود ہوں۔ نواز شریف کے خلاف بھی درجنوں مقدمات بنتے ہیں۔ پاناما کافی ہے اس کو لٹکانے کیلئے۔
پاناما کے کیس کو جنرل راحیل اور جنرل رضوان کے دور میں فوج کی حمایت حاصل ہوئی تھی۔ بعد میں جنرل باجوہ نے بھی اس کیس کو پوری حمایت دی۔ ظاہر ہے کہ سپریم کورٹ اور نیب بغیر فوج اور آئی ایس آئی کی مدد کے ہرگز اس کیس میں اتنے طاقتور مافیا کے خلاف کھڑے نہیں ہوسکتے تھے۔
فوج جب مارشل لاءنہیں لگانا چاہتی تو پھر اس کو عدالتوں کے راستے ہی چلنا پڑتا ہے اور یہ ایک طویل سفر ہے۔ عدالت سے سزا پانے کے بعد نواز شریف سیاسی شہید نہیں بن سکے گا۔ اگر اسے فوجی عدالت سے سزا دی جاتی تو لازماً بنتا۔
آپ اچھے رہیں گے کہ اگر براس ٹیکس اور پاک فوج پر اعتبار کریں۔ میڈیا آپ کا بیڑا غرق کرے گا۔ وہاں بیٹھے ہوئے مخلص صحافی بھی پوری طرح حقیقت سے واقف نہیں ہوتے، اور جو حرامخور ہیں وہ تو ویسے ہی جھوٹ پھیلانے بیٹھے ہیں۔
دفاعی اور انٹیلی جنس کے معاملات انتہائی حساس اور نازک ہوتے ہیں۔ ان کی مکمل تصویر آپ کو نہ کبھی نظر آسکتی ہے نہ کبھی بتائی جائے گی۔ جیسے آپ اپنے جہاز کے پائلٹ پر جہاز اڑانے کیلئے اعتبار کرتے ہیں، اسے ہر جھٹکے پر گالیاں نہیں بکتے، سوال نہیں کرتے، اسی طرح پاک فوج پر اعتبار کریں۔
جب پاناما کا کیس شروع ہوا تو پاکستانی قوم میں کسی ایک کو بھی اعتبار نہیں تھا کہ نواز شریف کو سزا سنائی جائے گی۔ ہم نے اس وقت آپ سے کہا تھا کہ جو کچھ ہورہا ہے اس سے پہلے نہیں ہوا اور اب کی دفعہ یہ مافیا جیل جائے گا۔ ہمارا بہت مذاق اڑایا گیا، اور آج۔۔۔۔
ہم آپ میں سے ہر ایک کے ہر سوال کا جواب نہیں دینگے۔ جو آپ کو بتایا جارہا ہے اس کو عزت سے سنیں اور اعتبار کریں۔ آپ نہ دفاعی تجزیہ کار ہیں، نہ آپ کے وہ ذرائع ہیں کہ جو ہمارے پاس ہیں، نہ آپ کا وہ تجربہ ہے۔ پھر بلا وجہ ہماری بات کاٹ کر اپنے آپ کو ”بلاک“ کیوں کرواتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ فوج کے سامنے ایک کنکریٹ کی دیوار کھڑی ہے اور راستہ نکالنے کی کوئی راہ نظر نہیں آرہی۔ یہ نظام چل نہیں سکتا، مارشل لاءوہ لگانا نہیں چاہتے، سیاسی قیادت غدار ہے یا احمق، عدلیہ کچھوے کی چال چل رہی ہے، دشمن چاروں طرف سے گھیر چکا ہے۔
اب کیا کریں۔۔۔۔؟
لہذا اس مشکل صورتحال میں فوج اور اس کے جرنیلوں کو گالیاں بکنے کے بجائے تھوڑی سی شرم کرلیں۔ ہر ہفتے درجنوں کی تعداد میں ہمارے افسر اور جوان شہید و زخمی ہورہے ہیں۔ کیا ہم اتنے بے غیرت اور بے حس ہوگئے ہیں کہ صرف اپنے محسنوں کو رسواءہی کرسکتے ہیں؟ ہم پھر کہہ رہے ہیں، تھوڑی سی شرم کرلیں۔۔۔
https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/1668852379836233
No comments:
Post a Comment