Saturday, 10 March 2018

March 7th, 2018

اس سیاست کے ہوتے ہوئے، نہ تو پاکستان کبھی اسلامی فلاحی ریاست بن سکتا ہے اور نہ ہی امت مسلمہ کی قیادت سنبھال ہے۔ اس غلاظت کے کینسر کو پہلے تلوار کی نوک پر کاٹ کر نکالنا ہوگا۔


تو ابھی رہ گزر میں ہے، قیدِ مقام سے گزر
مصر و حجاز سے گزر، فارس وشام سے گزر
آج ہم نے آپ سے کچھ بہت ہی سخت باتیں کرنی ہیں کہ جو فرقہ پرستوں کو ہرگز ہضم نہ ہونگی۔ آج پوری مسلمان امت عمومی طور پر شیعہ، سنی اور خوارج میں تقسیم ہوچکی ہے۔ چاہے کوئی فرد ہو، مذہبی جماعت ہو، سیاسی جماعت ہو یا حکومت ہو، ہر کوئی فرقہ پرست ہے۔ ایسے تاریک دور میں سب سے بڑا ”جہاد اکبر“ ظالم حکمرانوں کے سامنے کلمہءحق بیان کرنا ہے۔
الحمدللہ، اس فقیر کی ڈیوٹی صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے۔ ہماری اذانیں، تہران، انقرہ اور ریاض کے ایوانوں میں بھی پہنچتی ہیں۔
فرقہ پرست جاہلوں کی طرف سے ہم پر عام طور پر شدید تہمتیں لگائی جاتی ہیں۔ جو سعودیوں کی تنخواہ پر چلتے ہیں وہ ہمیں ایرانیوں کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔ جو پہلے شیعہ ہیں اور بعد میں پاکستانی مسلمان وہ ہمیں سعودیوں کا ملازم کہتے ہیں۔ مگر دونوں ہی اس وقت اندھے، گونگے اور بہرے بن جاتے ہیں کہ جب ہم ایران اور سعودی عرب دونوں کو ہی فرقہ وارانہ جنگیں برپا کرنے پر ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں موجود ان کے حمایتیوں کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ پھر ہمیں کیا طعنہ دیں؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ فقیر صرف سیدی رسول اللہﷺ کا خادم ہے، اور قرآن و سنت سے واضح طور پر ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ جس کسی نے بھی اس امت کو فرقہ واریت میں تقسیم کیا اس کا نہ تو اللہ سے کوئی تعلق ہے نہ سیدی رسول اللہﷺ سے۔ اس لیے ہماری باتیں صرف ان کو سمجھ آتی ہیں کہ جو فرقہ پرستی کی غلاظت سے بلند ہو کر صرف سیدی رسول اللہﷺ کے غلام ہوں۔ جو فرقہ پرست ہوگا وہ نہ کبھی ہمیں سمجھ پائے گا، نہ اس کے نصیب میں ہدایت ہوگی، اور ہمیشہ اس کے وجود سے وہ شر ہی نکلے گا کہ جس کا مظاہرہ آج آپ پوری امت مسلمہ میں دیکھ رہے ہیں۔
ہم اکثر پاکستان اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر تجزیہ کرتے رہتے ہیں، جو تلخ بھی ہوتا ہے، کرخت بھی ہوتا ہے اور کڑوا سچ بھی۔ آج بھی ہم آپ کیلئے وہ تجزیہ پیش کررہے ہیں کہ جس کو بیان کرنے کی جرا ¿ت کسی فرقہ پرست کو نہیں ہوسکتی۔
یہ ہماری ٹویٹس کا اردو ترجمہ ہے کہ جو ہم نے گزشتہ دنوں کی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
٭ میرا ایرانیوں سے سوال ہے:
اگر اسرائیل آپ کا بدترین دشمن ہے، تو بھارت جو کہ اسرائیل کا قریب ترین دوست ہے، آپ کا بہترین دوست کیسے ہوسکتا ہے؟
کیا اسرائیل کے فلسطین پر اور بھارت کے کشمیر پر قبضے میں کوئی فرق ہے؟
............................
٭ ایرانی مجھ سے جواباً پوچھ سکتے ہیں کہ پاکستان سعودی عرب کے اتنا قریب کیوں ہے، جبکہ سعودی عرب، ایران کا دشمن ہے؟
جواب یہ ہے کہ: پاکستان سعودی عرب سے دوستی کی آڑ میں ایران پر حملے نہیں کررہا، جبکہ بھارت، ایران سے دوستی کی آڑ میں پاکستان پر حملے کررہا ہے۔ مزید یہ کہ ججاز کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔
............................
٭ یہی ایرانیوں اور سعودیوں کا مسئلہ ہے۔ یہ ایک دوسرے سے اتنی نفرت کرتے ہیں کہ اس دشمنی کیلئے یہ دیگر اسلامی ممالک کے خلاف ہندوﺅں اور صیہونیوں کے ساتھ بھی دوستی کرلیتے ہیں۔
سعودی بھی اس معاملے میں اتنے ہی منافق ہیں جتنے کہ ایرانی۔ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ دونوں ہی مذہب کی آڑ میں سیاست کرتے ہیں۔
........................
٭ عرب حکمران لفظ ”وفاداری“ سے بالکل ناواقف ہیں۔ پاکستان نے عرب۔اسرائیل جنگ میں شام، مصر، اردن اور عراق کا دفاع کیا تھا۔
اور کیا آپ جانتے ہیں کہ شام کے حکمران حافظ الاسد نے ہماری اس مدد کا شکریہ کیسے ادا کیا؟
اس نے بھٹو کے بیٹے ساتھ ملکر دہشت گرد تنظیم ”الذوالفقار“ بنائی کہ جس نے 80 ءکی دہائی میں پاکستان کے خلاف بھرپور دہشتگردی کی۔
اور یہی کچھ صدام اور قذافی نے بھی کیا۔
........................
٭ حافظ الاسد ہی کی طرح اس کا بیٹا بشار الاسد بھی لادین، کمیونسٹ، سفاک اور ظالم حکمران ہے۔
لیکن یوں شام کی ریاست کا تخت الٹنے کا کسی کو بھی حق نہیں تھا، اس سے لاکھوں معصوم مسلمان جانوں کا ضیاع ہوا۔ اور پورا ملک تباہ و برباد ہوکر رہ گیا۔
....................
٭ میں یہاں نہایت سختی اور دیانتداری سے کہوںگا کہ حافظ الاسد، بشار الاسد اور صدام پاکستان کے دشمن تھے، لیکن ان کی حکومتوں کے سی آئی اے کے ذریعے خاتمے نے صرف اسرائیل کو ہی فائدہ پہنچایا ہے۔
ایران نے بھی طالبان اور صدام کے خلاف امریکہ کی مدد کی تھی۔ یہ ایران کی سفاکی کا بہت بڑا ثبوت ہے۔
........................
٭ ایران نے امریکہ کی مدد سے عراق میں موجود بڑے خطرے، صدام، کو تو ہٹا دیا، مگر پھر اس کے نتیجے میں پھیلنے والی انارکی ایران کے بس سے باہر ہوگئی۔ مہدی ملیشیاءنے مسلکی بنیادوں پر قتل و غارت گری شروع کردی اور موساد نے داعش قائم کردی، جس نے شیعہ، سنی دونوں کا ہی قتل عام کیا۔
ایران اور امریکہ کے صدام کو ہٹانے کے اثرات پوری دنیا آج بھی بھگت رہی ہے۔
........................
٭ مسلح جارحیت یا خفیہ کارروائیوں کے ذریعے کسی ملک کا تختہ الٹنا ہمیشہ تباہی کا سبب ہی بنتا ہے۔ اس کے نتائج کسی کے بھی قابو میں نہیں رہتے۔ افسوس کہ امریکہ، سعودی عرب اور ایران نے کبھی بھی ان نتائج کو پیش نظر نہیں رکھا۔
جو کچھ ایران نے عراق میں کیا، وہی سعودی عرب شام اور یمن میں کررہا ہے۔ یہ سب ہی مجرم ہیں۔
........................
٭ مسلکی بنیادوں پر جنگ برپا کرنے والے کبھی یہ نہیں دیکھ پاتے کہ وہ کہاں غلط ہیں، یا وہ خودکتنے بڑے مجرم ہیں۔ ان کے پاس ہمیشہ اپنے جرائم کو چھپانے کیلئے جواز تیار ہوتا ہے۔ اسرائیل بھی اسی طرح اپنے جرائم کیلئے جواز پیش کرتا ہے کہ جس طرح سعودی اور ایرانی۔
....................
٭ اب وقت ہے کہ پاکستان کو ایران اور سعودی عرب، دونوں سے ہی سختی سے بات کرنا ہوگی، اس سے قبل کہ یہ دونوں پوری امت کا بیڑہ غرق کردیں۔
عراق کی طرح داعش اور موساد اب حجاز میں بھی انتشار کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں، جبکہ ایران سعودی عرب میں حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے سرگرم ہے۔
دوسری طرف داعش اس فساد پر نظریں گاڑے بیٹھی ہے کہ موقع ملتے ہی حرمین پر قبضہ کرے۔
....................
٭ اب سعودی عرب نے ترکی کو بھی اپنے دشمنوں کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔اللہ کی پناہ!
بالکل پہلی جنگ عظیم والی صورتحال ایک مرتبہ پھر پیدا ہوگئی کہ جب عرب، ترک اور فارسی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے اور”ہاشمی بیچ رہا تھا آبروئے دین مصطفیﷺ۔“
یا اللہ کرم، یا اللہ رحم!
........................
٭ اگر پاکستان کو امت مسلمہ میں کوئی مرکزی کردار کرنا ہے تو اس کیلئے اس کو سب سے پہلے ان ناپاک سیاسی جماعتوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ نام نہاد ”سیکولر“ سیاسی جماعتیں بھی اندر سے کٹر فرقہ پرست ہیں اور قومی و بین الاقوامی پالیسیوں کی آڑ میں اپنے اپنے فرقہ وارانہ مفاد کا تحفظ کرتی ہیں، چاہے پاکستان کو کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہوجائے۔
....................
٭ پیپلز پارٹی ایک کٹر شیعہ جماعت ہے، قریباً پوری پیپلز پارٹی قیادت شیعہ ہے اور ایران سے قریبی تعلقات رکھتی ہے۔ جب زرداری صدر تھا تو اس دور میں پاکستان کے سعودیہ سے تعلقات نہایت ہی خراب ہوچکے تھے۔
اس کے برعکس نواز شریف ہمیشہ دیوبندی، تبلیغی و لشکر جھنگوی ذہنیت سے قریب رہا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ بھارت سے بھی انتہائی قریب ہے۔
....................
٭ چیئرمین سینیٹ، رضا ربانی، کٹر فرقہ پرست شیعہ ہے اور اندر خانے ایران کے ساتھ خفیہ رابطے میں ہے۔ اسے ایران سے خاطر خواہ مراعات بھی حاصل ہیں۔ جہاں دوہری شہریت کو تو عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے، وہاں یہ درپردہ فرقہ وارانہ وفاداریاں نظرانداز کردی گئی ہیں، کہ جس کے نتیجے میں پاکستان کو ہمیشہ اپنی خارجہ پالیسی میں بحران کا سامنا رہتا ہے۔
........................
٭ یہی وجہ ہے کہ ہم اس بات پراس شدت سے زور دیتے ہیں کہ اب اس سیاسی سرکس کو ختم ہونا چاہیے۔ یہ سیاستدان نہ صرف یہ کہ کرپٹ ہیں، بلکہ درپردہ فرقہ وارانہ وفاداریاں بھی رکھتے ہیں۔ بیرون ملک سے احکامات وصول کرتے ہیں اور وفاق پاکستان، نظریہءپاکستان اور پاک فوج کی جڑیں کاٹنے میں لگے رہتے ہیں۔
....................
٭ ہمارے ہاں لوگوں کے مسلکی تعصبات پر بات کرنا ایک نازک موضوع ہے، اور اکثر لوگ ایسی گفتگو کرنے کو گناہ سمجھتے ہیں۔۔ مگر ہمیں پاکستان کے دفاع کیلئے سیاسی میدان کے اس خاردار جنگل میں اترنا ہی ہوگا۔ ہماری تمام سیاسی جماعتیں یا تو فرقہ پرست ہیں، خواہ مسلکی بنیادوں پر ہوں، خواہ صوبائی، خواہ لسانی، یہ سب کے سب ریاست پاکستان اور نظریہءپاکستان کی جڑیں کاٹنے والی ہیں۔
اس سیاست کے ہوتے ہوئے، نہ تو پاکستان کبھی اسلامی فلاحی ریاست بن سکتا ہے اور نہ ہی امت مسلمہ کی قیادت سنبھال ہے۔ اس غلاظت کے کینسر کو پہلے تلوار کی نوک پر کاٹ کر نکالنا ہوگا۔

٭٭٭٭٭


https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/1594755333912605

No comments:

:)) ;)) ;;) :D ;) :p :(( :) :( :X =(( :-o :-/ :-* :| 8-} :)] ~x( :-t b-( :-L x( =))

Post a Comment