Monday 19 March 2018

March 16th, 2018

یہ نظام صرف انہی زرداریوں اور پٹواریوں کو لا سکتا ہے۔ کیا آپ اپنی آنے والی نسلیں ان حرام خوروں کی غلام رکھنا چاہتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر نظام تبدیل کریں۔



پاکستان کی تاریخ میں اب ہم شعور کی اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ پوری پاکستانی قوم نے اچھی طرح دیکھ لیا ہے کہ موجودہ جمہوریت سوائے غلاظت، خیانت اور حرام خوری کے کچھ بھی نہیں۔ ہر حال میں اس سیاسی نظام کو تبدیل کرنا لازم ہوچکا ہے۔

اس سیاست کے تابوت میں آخری کیل حالیہ سینیٹ الیکشن تھے کہ جس میں ممبران اسمبلی کی اس طرح خریدوفروخت ہوئی کہ جس طرح ماضی قدیم میں بازاروں میں غلام اور کنیزیں بکتی تھیں۔ بے شرمی، بے حیائی اور بے غیرتی کی آخری حدیں اب پار ہوچکی ہیں۔

اب جبکہ موجودہ حکومت اپنا وقت پورا کرچکی ہے، وقت آچکا ہے کہ آنے والی عبوری حکومت کے ذریعے معاشرے میں نہ صرف ایک سفاک احتساب کیا جائے بلکہ سیاسی اور پارلیمانی نظام میں ایسی بنیادی تبدیلیاں لائی جائیں کہ موجودہ کینسر کا خاتمہ کیا جاسکے۔

براس ٹیکس اب ایک نئی قومی بحث کا آغاز کررہا ہے۔ آئیے مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نکالیں۔ ہم معاشرے کے مردان آزاد، مردان حر اور فکری اورروحانی طور پر پاکیزہ افراد کو دعوت دیتے ہیں کہ کھل کر پاکستان میں نئے سیاسی نظام کے لیے اپنی رائے دیں۔

ہمارا مخاطب وہ غلام لوگ نہیں ہیں کہ جو تنگ نظر ہیں، تنگ ذہن ہیں اور موجودہ سیاسی غلاظت کے علاوہ کسی اور سیاسی نظام کو قبول کرنے کیلئے تیار ہی نہیں کہ جو پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنا کر امت مسلمہ کی قیادت کے قابل کرسکے۔

ہم بنیادی سوال اٹھائیں گے۔
کیا پاکستان کو پچاس سیاسی جماعتوں پر مشتمل یہی پارلیمانی نظام چلانا چاہیے، یا براہ راست صدر کا انتخاب کرکے محب وطن ٹیکنوکریٹک حکومت کے ذریعے ملک کو چلایا جائے؟
دنیا کے ہر جمہوری ملک نے اپنی مرضی کی جمہوریت بنائی ہوئی ہے، ہم کیوں نہیں بناسکتے؟

کیا پارلیمان میں آنے والے اراکین کیلئے کوئی کم از کم قابلیت کا امتحان یا انٹرویو ہونا چاہیے؟ کیا ایک ایسے ملک میں کہ جس کی بنیاد اسلام پر ہے، وہاں ایسی سیاسی جماعتیں ہونی چاہیں کہ جن کا نظریہ لادین ہو، سوشلزم ہو یا قومیت لسانیت اور فرقہ واریت پر مبنی ہو؟

کیا یہ کافی نہیں ہے کہ صرف ایک مضبوط صدر یا وزیراعظم ہو؟ وزیراعظم کے ہوتے ہوئے ایک فالتو صدر کی کیا ضرورت ہے؟ یا اگر صدارتی نظام ہو تو پھر ایک کمزور اور بے اختیار وزیراعظم کا عہدہ رکھنے کی کیا حاجت؟

کیا پارلیمان کے ساتھ سینیٹ کا ہونا ضروری ہے؟ کیا یہ کافی نہیں ہے کہ حکومت کا سربراہ ہو، کابینہ ہو، قومی سلامتی کونسل ہو، اور قابل ترین افراد پر مشتمل پارلیمان؟ سینیٹ کے انتخابات میں آپ نے دیکھ ہی لیا ہے کہ جیسے کتوں اور خنزیروں کی خریدوفروخت ہوتی ہے۔ اس نظام کو ختم ہی کیوں نہ کردیا جائے؟

کیا اب وقت نہیں آگیا کہ پاکستان کو قبائلی، موروثی، صوبائی اور شخصیت پرستی پر مبنی سیاست سے مکمل طور پر پاک کردیا جائے؟ سیاست کا بھی وہی نظام ہونا چاہیے کہ جو فوج اور عدلیہ کا ہے۔ باپ کے بعد بیٹا سپہ سالار نہیں بنتا اور نہ ہی چیف جسٹس کے بعد اس کا بیٹا۔

کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ عبوری حکومت کی مدت کو کم از کم تین سال تک بڑھا دیا جائے تاکہ وہ ملک میں سخت ترین احتساب بھی کریں اور قرآن و سنت پر مبنی ایک نیا صدارتی آئین تشکیل دیں، تاکہ پاکستان میں ایک نئی صاف اور پاک سیاسی قیادت کا آغاز کیا جاسکے؟

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی پوری ریاست، ہماری گزشتہ نسلیں، اور آئندہ آنے والی نسلوں کو دو ٹکے کے ڈاکوﺅں نے غلام اور یرغمال بنا کر رکھا ہوا ہے۔ یہ نظام صرف انہی زرداریوں اور پٹواریوں کو لا سکتا ہے۔ کیا آپ اپنی آنے والی نسلیں ان حرام خوروں کی غلام رکھنا چاہتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر نظام تبدیل کریں۔

آنے والے دنوں میں پاکستان کی عدلیہ ، پاک فوج اور دانشوروں کو تاریخ ساز فیصلے کرنے ہونگے۔ ہم ملک و قوم و ملت کو ایک بوسیدہ اور گلے سڑے آئین کی بھینٹ نہیں چڑھا سکتے۔ آئین سو دفعہ لکھے جاسکتے ہیں، ملک دوسری دفعہ نہیں بنایا جاسکتا۔ جہنم میں جائے پارلیمانی ڈیموکریسی!

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/1604204112967727


1 comment: