پاکستانی قوم، اس کی اشرافیہ، عدلیہ ، پاک فوج اور محب وطن اچھی طرح سمجھ لیں کہ یہ اللہ ہمیں آخری موقع دے رہا ہے کہ ہم اس ناپاک اور گلے سڑے سیاسی نظام کو تبدیل کرلیں۔ اگر یہ موقع بھی ضائع کردیا تو پھر ”ہلاکو خان“ کا انتظار کیجیئے گا!!!
پاکستان
میں اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ طبقہ ڈاکٹر، انجینئر وغیرہ بن جاتا ہے۔ پاک
فوج، عدلیہ اور سول سروس میں بھی اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ نوجوان جاتے ہیں۔
جو ملک کے جاہل ترین، چور ترین بد اخلاق جانور ہوسکتے ہیں، وہ سیاست میں
آجاتے ہیں۔
پاکستان میں پارلیمنٹ کا ممبر بننے کیلئے نہ تو داخلہ امتحان ہے، نہ انٹرویو ہے، نہ تعلیم یافتہ اور باکردار ہونے کی شرط ہے، نہ آگے ترقی کیلئے مزید تعلیم و تربیت و امتحان کا کوئی نظام۔ خاندانی نوابزادے، حرام خور، غدار ابن غدار، الو کے پٹھے پہلے ممبر بنتے ہیں، پھر وزیر اور حکمران۔
چونکہ ہر ممبر کو سیاسی رشوت کے طور پر کروڑوں، اربوں روپے ترقیاتی فنڈز کے نام پر بانٹے جاتے ہیں، لہذا ان حرام خوروں کی روزی بھی لگی رہتی ہے اور ملک میں کوئی نظم و ضبط کے ساتھ باقاعدہ ترقیاتی پروگرام چل ہی نہیں پاتا کہ تمام تقسیم اور خرچ ملکی ضرورت کے مطابق نہیں پارٹی سیاست کے مطابق ہوتی ہے۔
تو پورے سیاسی نظام میں تین واضح بڑی خرابیاں ہیں کہ جن کو ہر حال میں نمٹنا ہوگا۔
1 ۔ آئین سے متصادم کفریہ عقائد، صوبائیت، قومیت اور فرقہ واریت پر مبنی سیاسی جماعتیں۔
2 ۔ جاہل اور غدار ممبران اسمبلی۔
3 ۔ ترقیاتی فنڈز کے نام پر حرام خوری اور سیاسی رشوتیں۔
جب فوج ، سول سروسز، عدلیہ اور تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں ملازمت کیلئے داخلہ امتحانوں اور بورڈ انٹرویو کی شرط ہے توپارلیمنٹ کیلئے کیوں نہیں؟ کہ جنہوں نے ملک و قوم کی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے قانون سازی کرنی ہے۔
2013 کے انتخابات میں نواز شریف کی حکومت نے صرف 17 فیصد ووٹ لیے ہیں۔ ملک کی 83 فیصد آبادی نے انہیں مسترد کیا ہے۔ یہ ہے وہ ”بھاری مینڈیٹ“ جس پر یہ سیاسی جماعتیں بڑھکیں مارتی ہیں۔ موجودہ جمہوریت اکثریت کی رائے سے نہیں، اقلیت کی رائے سے چلتی ہے۔
آج پاکستان میں یہ پورا سیاسی نظام مکمل طور پر ننگا ہوچکا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے چہروں پر سیاسی مل کر پوری قوم کے سامنے بے عزت اور رسواءہوچکی ہیں۔ اگر چند بڑے بڑے مقدمات کا فیصلہ کردیا جائے تو تمام سیاسی جماعتیں اپنے سربراہوں سمیت سولی چڑھا دی جائیں گی۔
ملک میں اب عبوری حکومت آیا ہی چاہتی ہے۔ فکر نہ کریں، جس طرح اللہ نے ان سیاسی جماعتوں کو سینیٹ کے انتخابات میں رسواءکیا ہے، ان شاءاللہ، اسی طرح عبوری حکومت بھی ان کی مرضی سے نہیں بنے گی۔ یہ جتنی مرضی ”اکثریت“ خرید لیں، ”عسکریت“ ملک کا دفاع کرنا جانتی ہے۔
آنے والی عبوری حکومت کے سامنے دو بہت بڑے چیلنج ہونگے۔
1 ۔ اقتصادی طور پر دیوالیہ ملک کو سنبھالنا، لوٹی ہوئی دولت واپس لانا اور ملک میں جاری جنگ سے نمٹنا۔
2 ۔ ملک کے سیاسی نظام میں ایسی بنیادی تبدیلیاں کرنا کہ آنے والے وقتوں میں موجودہ نظام کی تمام خرابیاں دور کردی جائیں۔
ہم نے اب ملک میں جس بحث اور بیانیے کا آغاز کیا ہے اس کا مقصد آنے والی عبوری حکومت کے دوسرے اہم مشن کیلئے ایک قومی رائے سازی کرنا ہے۔ ملک کی سیاست کو درست کرنا ہم سب کا ذاتی کام ہے اور ہم سب کو ہی اس میں مشاورت سے نیا نظام تشکیل دینا ہے۔
اب تک کی ہونیوالی قومی بحث سے یہ بات تو بالکل واضح ہوچکی ہے کہ پوری قوم اس بات پر متفق ہے کہ موجودہ نظام ہر حال میں تبدیل کرنا ہوگا۔
اس بات پر بھی قوم متفق ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں حرام خور ہیں اور انہیں ختم کرنا ہوگا۔
اس بات کی حمایت میں بہت واضح اکثریت ہے کہ ملک میں براہ راست صدر کا انتخاب ہو اور ٹیکنوکریٹک حکومت قائم کی جائے۔ اس بات پر بھی ہر کوئی متفق نظر آتا ہے کہ پارلیمنٹ کے ممبران کیلئے سخت ترین داخلہ امتحان اور بورڈ انٹرویو کی شرط لازمی ہونی چاہیے۔
آنے والی عبوری حکومت کو سپریم کورٹ اور قومی دانشوروں کے ساتھ ملکر ایک ایسا نیا سیاسی نظام تشکیل دینا ہے کہ جو قرارداد مقاصد کی روح کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیادی نظریاتی اور روحانی اساس کے مطابق ایک اسلامی فلاحی ریاست کا نظام بنا سکے۔
جب پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے تو اس میں بھانت بھانت کی سیاسی جماعتیں کہ جو سوشلزم، سرخ انقلاب، علاقائیت، قومیت اور فرقہ واریت کی بنیاد پر سیاست کریں، کیسے قبول کی جاسکتی ہیں؟
پاکستان ایک ”رپیبلک“ ہے، کہ جس کے بنیادی نظریات کوئی جمہوریت یا اکثریت تبدیل نہیں کرسکتی۔
آنے والے ایک سال میں پاکستان کی عبوری حکومت، سپریم کورٹ اور پاک فوج کو اللہ تعالیٰ ایک تاریخ ساز موقع فراہم کررہا ہے کہ جس میں پچھلے ستر سال میں کیے گئے گناہوں اور غلطیوں کا کفارہ ادا کیا جاسکتا ہے۔ اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے بوسید ہ آئین کو بچانے کیلئے ہم پچاس لاکھ مسلمانوں کے خون سے قائم کردہ ریاست سے خیانت نہیں کرسکتے۔
آئین سو دفعہ لکھے جاسکتے ہیں، ان میں ترمیم کی جاسکتی ہے، مگر اسلامی ریاست دوبارہ نہیں بنائی جاسکتی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ زندہ قوموں کے پاس لکھے ہوئے آئین ہوتے ہی نہیں۔ وہ اجتہاد کے ذریعے زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنی قسمت کے فیصلے اپنے قوم کے سمجھدار لوگوں کے ذریعے کرتی ہیں۔
پاکستان کے پاس مرکزی اور بنیادی آئین قرآن و سنت کی شکل میں موجود ہے۔ ہماری ”اسلامی رپیبلک“ کا بنیادی آئینی ڈھانچہ قرارداد مقاصد میں مکمل طور پر بیان کردیا گیا ہے۔ اب ہم نے صرف معمولی انتظامی تبدیلیاں ہی کرنی ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت کے بجائے صدارتی اور ٹیکنوکریٹک نظام بہت آرام سے لایا جاسکتا ہے۔
پاکستانی قوم، اس کی اشرافیہ، عدلیہ ، پاک فوج اور محب وطن اچھی طرح سمجھ لیں کہ یہ اللہ ہمیں آخری موقع دے رہا ہے کہ ہم اس ناپاک اور گلے سڑے سیاسی نظام کو تبدیل کرلیں۔ اگر یہ موقع بھی ضائع کردیا تو پھر ”ہلاکو خان“ کا انتظار کیجیئے گا!!!
ہم انہی ناپاک سیاسی جماعتوں اور ان کے حرام خور سربراہان کے ساتھ دوبارہ 2018 ءمیں الیکشن نہیں کراسکتے۔ یہ ڈاکو اور چور تو آسراءہی یہ لگا کر بیٹھے ہیں کہ دوبارہ الیکشن کے ذریعے 12-15 فیصد ووٹ لیکر یہ پھر حکومت بنالیں گے اور اب کی دفعہ آئین، عدلیہ اور پاک فوج کے خلاف ایسی قانون سازی کریں گے کہ پھر انہیں پکڑنے والا کوئی بھی نہ رہے
گا۔
https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/1605233919531413
پاکستان میں پارلیمنٹ کا ممبر بننے کیلئے نہ تو داخلہ امتحان ہے، نہ انٹرویو ہے، نہ تعلیم یافتہ اور باکردار ہونے کی شرط ہے، نہ آگے ترقی کیلئے مزید تعلیم و تربیت و امتحان کا کوئی نظام۔ خاندانی نوابزادے، حرام خور، غدار ابن غدار، الو کے پٹھے پہلے ممبر بنتے ہیں، پھر وزیر اور حکمران۔
چونکہ ہر ممبر کو سیاسی رشوت کے طور پر کروڑوں، اربوں روپے ترقیاتی فنڈز کے نام پر بانٹے جاتے ہیں، لہذا ان حرام خوروں کی روزی بھی لگی رہتی ہے اور ملک میں کوئی نظم و ضبط کے ساتھ باقاعدہ ترقیاتی پروگرام چل ہی نہیں پاتا کہ تمام تقسیم اور خرچ ملکی ضرورت کے مطابق نہیں پارٹی سیاست کے مطابق ہوتی ہے۔
تو پورے سیاسی نظام میں تین واضح بڑی خرابیاں ہیں کہ جن کو ہر حال میں نمٹنا ہوگا۔
1 ۔ آئین سے متصادم کفریہ عقائد، صوبائیت، قومیت اور فرقہ واریت پر مبنی سیاسی جماعتیں۔
2 ۔ جاہل اور غدار ممبران اسمبلی۔
3 ۔ ترقیاتی فنڈز کے نام پر حرام خوری اور سیاسی رشوتیں۔
جب فوج ، سول سروسز، عدلیہ اور تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں ملازمت کیلئے داخلہ امتحانوں اور بورڈ انٹرویو کی شرط ہے توپارلیمنٹ کیلئے کیوں نہیں؟ کہ جنہوں نے ملک و قوم کی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے قانون سازی کرنی ہے۔
2013 کے انتخابات میں نواز شریف کی حکومت نے صرف 17 فیصد ووٹ لیے ہیں۔ ملک کی 83 فیصد آبادی نے انہیں مسترد کیا ہے۔ یہ ہے وہ ”بھاری مینڈیٹ“ جس پر یہ سیاسی جماعتیں بڑھکیں مارتی ہیں۔ موجودہ جمہوریت اکثریت کی رائے سے نہیں، اقلیت کی رائے سے چلتی ہے۔
آج پاکستان میں یہ پورا سیاسی نظام مکمل طور پر ننگا ہوچکا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے چہروں پر سیاسی مل کر پوری قوم کے سامنے بے عزت اور رسواءہوچکی ہیں۔ اگر چند بڑے بڑے مقدمات کا فیصلہ کردیا جائے تو تمام سیاسی جماعتیں اپنے سربراہوں سمیت سولی چڑھا دی جائیں گی۔
ملک میں اب عبوری حکومت آیا ہی چاہتی ہے۔ فکر نہ کریں، جس طرح اللہ نے ان سیاسی جماعتوں کو سینیٹ کے انتخابات میں رسواءکیا ہے، ان شاءاللہ، اسی طرح عبوری حکومت بھی ان کی مرضی سے نہیں بنے گی۔ یہ جتنی مرضی ”اکثریت“ خرید لیں، ”عسکریت“ ملک کا دفاع کرنا جانتی ہے۔
آنے والی عبوری حکومت کے سامنے دو بہت بڑے چیلنج ہونگے۔
1 ۔ اقتصادی طور پر دیوالیہ ملک کو سنبھالنا، لوٹی ہوئی دولت واپس لانا اور ملک میں جاری جنگ سے نمٹنا۔
2 ۔ ملک کے سیاسی نظام میں ایسی بنیادی تبدیلیاں کرنا کہ آنے والے وقتوں میں موجودہ نظام کی تمام خرابیاں دور کردی جائیں۔
ہم نے اب ملک میں جس بحث اور بیانیے کا آغاز کیا ہے اس کا مقصد آنے والی عبوری حکومت کے دوسرے اہم مشن کیلئے ایک قومی رائے سازی کرنا ہے۔ ملک کی سیاست کو درست کرنا ہم سب کا ذاتی کام ہے اور ہم سب کو ہی اس میں مشاورت سے نیا نظام تشکیل دینا ہے۔
اب تک کی ہونیوالی قومی بحث سے یہ بات تو بالکل واضح ہوچکی ہے کہ پوری قوم اس بات پر متفق ہے کہ موجودہ نظام ہر حال میں تبدیل کرنا ہوگا۔
اس بات پر بھی قوم متفق ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں حرام خور ہیں اور انہیں ختم کرنا ہوگا۔
اس بات کی حمایت میں بہت واضح اکثریت ہے کہ ملک میں براہ راست صدر کا انتخاب ہو اور ٹیکنوکریٹک حکومت قائم کی جائے۔ اس بات پر بھی ہر کوئی متفق نظر آتا ہے کہ پارلیمنٹ کے ممبران کیلئے سخت ترین داخلہ امتحان اور بورڈ انٹرویو کی شرط لازمی ہونی چاہیے۔
آنے والی عبوری حکومت کو سپریم کورٹ اور قومی دانشوروں کے ساتھ ملکر ایک ایسا نیا سیاسی نظام تشکیل دینا ہے کہ جو قرارداد مقاصد کی روح کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیادی نظریاتی اور روحانی اساس کے مطابق ایک اسلامی فلاحی ریاست کا نظام بنا سکے۔
جب پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے تو اس میں بھانت بھانت کی سیاسی جماعتیں کہ جو سوشلزم، سرخ انقلاب، علاقائیت، قومیت اور فرقہ واریت کی بنیاد پر سیاست کریں، کیسے قبول کی جاسکتی ہیں؟
پاکستان ایک ”رپیبلک“ ہے، کہ جس کے بنیادی نظریات کوئی جمہوریت یا اکثریت تبدیل نہیں کرسکتی۔
آنے والے ایک سال میں پاکستان کی عبوری حکومت، سپریم کورٹ اور پاک فوج کو اللہ تعالیٰ ایک تاریخ ساز موقع فراہم کررہا ہے کہ جس میں پچھلے ستر سال میں کیے گئے گناہوں اور غلطیوں کا کفارہ ادا کیا جاسکتا ہے۔ اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے بوسید ہ آئین کو بچانے کیلئے ہم پچاس لاکھ مسلمانوں کے خون سے قائم کردہ ریاست سے خیانت نہیں کرسکتے۔
آئین سو دفعہ لکھے جاسکتے ہیں، ان میں ترمیم کی جاسکتی ہے، مگر اسلامی ریاست دوبارہ نہیں بنائی جاسکتی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ زندہ قوموں کے پاس لکھے ہوئے آئین ہوتے ہی نہیں۔ وہ اجتہاد کے ذریعے زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنی قسمت کے فیصلے اپنے قوم کے سمجھدار لوگوں کے ذریعے کرتی ہیں۔
پاکستان کے پاس مرکزی اور بنیادی آئین قرآن و سنت کی شکل میں موجود ہے۔ ہماری ”اسلامی رپیبلک“ کا بنیادی آئینی ڈھانچہ قرارداد مقاصد میں مکمل طور پر بیان کردیا گیا ہے۔ اب ہم نے صرف معمولی انتظامی تبدیلیاں ہی کرنی ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت کے بجائے صدارتی اور ٹیکنوکریٹک نظام بہت آرام سے لایا جاسکتا ہے۔
پاکستانی قوم، اس کی اشرافیہ، عدلیہ ، پاک فوج اور محب وطن اچھی طرح سمجھ لیں کہ یہ اللہ ہمیں آخری موقع دے رہا ہے کہ ہم اس ناپاک اور گلے سڑے سیاسی نظام کو تبدیل کرلیں۔ اگر یہ موقع بھی ضائع کردیا تو پھر ”ہلاکو خان“ کا انتظار کیجیئے گا!!!
ہم انہی ناپاک سیاسی جماعتوں اور ان کے حرام خور سربراہان کے ساتھ دوبارہ 2018 ءمیں الیکشن نہیں کراسکتے۔ یہ ڈاکو اور چور تو آسراءہی یہ لگا کر بیٹھے ہیں کہ دوبارہ الیکشن کے ذریعے 12-15 فیصد ووٹ لیکر یہ پھر حکومت بنالیں گے اور اب کی دفعہ آئین، عدلیہ اور پاک فوج کے خلاف ایسی قانون سازی کریں گے کہ پھر انہیں پکڑنے والا کوئی بھی نہ رہے
گا۔
https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/1605233919531413
No comments:
Post a Comment