Saturday, 30 March 2019

March 25th, 2019

حکومت، ریاست اور بیوروکریسی



حکومت، ریاست اور بیوروکریسی
تحریر: زید حامد
آج پاکستان کے حوالے سے کچھ اہم باتیں آپ سے کرنی ہیں۔آپ کو فرق سمجھانا ہے: حکومت میں، ریاست کے نظام میں، اور سرکاری ملازمین میں۔ملک کو حکومت نہیں چلاتی، ریاست کا نظام اور سرکاری ملازم چلاتے ہیں۔آئیں آپ کو تفصیل سے بتاتے ہیں۔
ریاست پاکستان ان تین چیزوں کا مجموعہ ہے۔
-1 حکومت پاکستان، (جو کہ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔)
-2 نظام پاکستان، (جو 47 ء سے آج تک ویسا ہی ہے۔)
-3 بیوروکریسی، (کہ جو پکے سرکاری ملازم ہوتے ہیں، چاہے کوئی بھی حکومت آئے یا جائے۔)
اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ پاکستان کے ریاستی نظام میں وزیراعظم پاکستان بھی اس قدر بے بس عہدہ ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ایک سرکاری ملازم کو بھی نہیں ملازمت سے برخاست نہیں کرسکتا۔دوسری جانب نظام میں موجود خائن اور بدکار سرکاری ملازمین پورے ریاستی نظام کو جام کرسکتے ہیں، اگر یہ چاہیں تو۔۔۔سیاسی نمائندے پاکستان میں اکثریت جاہل ہی ہوتے ہیں۔ نہ وہ نظام کو جانتے ہیں، نہ بیوروکریسی کے کام کرنے کے طریقہء کار کو۔ لہذا جب کوئی منتخب سیاسی نمائندہ کرپشن کرنا چاہتا ہے تو اس کیلئے اسے لازماً بیوروکریسی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔لہذا جب بھی کرپٹ سیاسی لیڈروں پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو لازمی طور پر ان سے وابستہ بیوروکریسی کے خائن طبقے پر بھی ہاتھ پڑتا ہے۔ دونوں کے درمیان چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اب یہاں سے مشکل شروع ہوتی ہے۔ سرکاری ملازموں پر ہاتھ ڈالو تو وہ ریاست کو جام کرنے لگتے ہیں۔
1947 ء میں قائداعظم نے جو پہلی تقریر کی، اس میں بھی انہوں نے جو پاکستان کے سب سے بڑے مسائل کا ذکر کیا تھا، ان میں کرپشن سر فہرست تھی۔ اور آج بھی کرپشن سرفہرست ہی ہے۔ تو ستر سالوں میں کیا بدلا؟اب ذرا سوچیں! کہ حکومتیں تو درجنوں آئیں، کرپشن کیوں نہیں ختم ہوئی؟؟؟
آئیں اب ذرا پاکستان میں رائج نظام کی بات کرتے ہیں۔نظام کہتے کس کو ہیں؟
ملک کا عدالتی نظام، ملک کی بیوروکریسی کا نظام، ملک کی معیشت کا نظام، ملک کا تعلیمی نظام، ملک کا سیاسی نظام۔۔۔یہی سب ملکر ریاست کا نظام بناتے ہیں۔ اور یہ سب ہی انگریز کے بنائے ہوئے ہیں۔
تو اب مسئلہ کیا ہے؟کیوں عمران خان ایک ایماندار اور مخلص وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی اس قدر بے بس ہے؟الیکشن کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے، مگر ملک میں بیوروکریسی اور نظام وہی قائم ہے جو پچھلے 70 برس سے ملک کو لوٹ کر تباہ و برباد کررہا ہے۔
جب مارشل لاء کی حکومتیں آتی ہیں، تو وہ آکر بیوروکریسی پر سختی کرتی ہیں۔ایسے دور میں ہوشیار بیوروکریسی سر نیچے کرکے کام کرتی ہے اور وقت کے گزرنے کا انتظار کرتی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ مارشل لاء کا دور بھی گزر ہی جانا ہے۔ اس دور کے گزرنے کے بعد جب جمہوریت آتی ہے تو پھر وہی بندر تماشا شروع ہوجاتا ہے۔
ایوب خان کے دور میں کیوں پاکستان نے حیرت انگیز ترقی کی؟ایوب خان کو چند بہت ہی قابل اور ایماندار بیوروکریٹ مل گئے تھے، کہ جنہوں نے ملک کی تقدیر ہی تبدیل کرکے رکھ دی۔ غلام اسحاق خان، قدرت اللہ شہاب اور ان جیسے سرکاری ملازمین نے پوری ریاست پاکستان کو سنبھالا ہوا تھا۔گو کہ ایوب خان کے دور میں نظام پھر بھی وہی قدیم اور بوسیدہ انگریزوں کے دور کا تھا، مگر فوج کے ڈنڈے اور انتہائی قابل سرکاری افسروں کی وجہ سے ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہا تھا۔ یعنی اگر سخت مضبوط حکومت ہو تو اور قابل بیوروکریٹ تو اس غلیظ نظام میں بھی کچھ نہ کچھ کام کیا جاسکتا ہے۔
اسی لیے آپ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ملک نے سب سے زیادہ ترقی ایوب خان کے دور میں اور پھر جنرل ضیاء کے دور میں کی اور اس کے بعد کسی حد تک جنرل مشرف کے دور میں۔سیاسی حکومتوں کے تمام ادوار پاکستان کی تاریخ میں صرف لوٹ مار، بدانتظامی اور اداروں کی تباہی کے ہیں۔سیاسی دور میں ہوتا یہ ہے کہ چور اور ڈاکو سیاست دان اقتدار میں آتے ہی اپنے ہم خیال چور اور ڈاکو سرکاری افسروں کو اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز کرکے اجتماعی طور پر ملک کو لوٹنے کا آغاز کرتے ہیں۔ایک کمزور نظام کی موجودگی میں اس سیاسی اور سرکاری خیانت کوروکنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔
اب آئیں پی ٹی آئی کی حکومت کی طرف۔
عمران کی حکومت نے جب آکر نواز شریف اور زرداری کی خیانت پر ہاتھ ڈالا تو ان سے وابستہ تمام بیوروکریسی بھی شکنجے میں آنے لگی۔ نتیجتاً وہی ہوا کہ جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔ بیوروکریسی نے کام بند کردیا۔پچھلے دنوں خود عمران نے اس بات کی شکایت کی کہ بیوروکریسی ان کی حکومت کا ساتھ نہیں دے رہی۔ اب آپ کو اس شکایت کی وجہ سمجھ آگئی ہوگی۔اس بیوروکریسی کو قابو کرنے کے دو ہی طریقے ہیں۔
یا فوجی حکومت کا ڈنڈا ہو۔یا نظام کو تبدیل کردیا جائے، کہ جہاں کم از کم وزیراعظم با اختیار ہو۔لہذا پی ٹی آئی کی حکومت کے سامنے ہمالیہ جیسا پہاڑ کھڑا ہے۔ وہ کام کرنا بھی چاہتے ہیں، مگر نہ نظام ساتھ دے رہا ہے، نہ بیوروکریسی، نہ ان کے پاس فوج کا ڈنڈا ہے۔ ایسے میں پی ٹی آئی کی حکومت صرف اپنے آپ کو رسوا کرے گی۔۔۔ اور خائن اور چور نظام کو استعمال کرکے ان کے جانے کا انتظار کریں گے۔
ایسے میں عمران کیا کرے؟؟؟اس بات کا ہمیں بہت پہلے اندازہ تھا اور اسی لیے ہم الیکشن سے پہلے بار بار کہتے تھے۔۔۔ ’’پہلے احتساب، پھر انتخاب‘‘۔
ہم عمران کی حکومت کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اگر ان پر تنقید بھی کرتے ہیں تو اخلاص سے اصلاح کی خاطر ہوتی ہے۔ نہ میں پٹواری ہوں، نہ میں جیالا۔ لہذا ہماری تنقید ہمیشہ پاکستان اور امت مسلمہ کے مفاد میں ہوتی ہے، لہذا حکومت ہو یا ’’یوتھیے‘‘ اپنے ساتھ دشمنی کریں گے، اگر ہمیں دشمن سمجھیں گے تو۔
پارلیمنٹ میں اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے عمران فی الحال نظام تو تبدیل نہیں کرسکتا۔ حکومت بنے آٹھ مہینے ہونے کو آرہے ہیں کوئی ایک بھی قانون سازی پارلیمنٹ کے ذریعے نہیں ہوسکی، اور نہ ہوگی۔ سوائے ایسی لوٹ مار کی قانون سازی کے کہ جیسی پنجاب اسمبلی نے کی۔نظام تو فسادی ہے ہی، پی ٹی آئی کی حکومت کے پاس قابل وزیر اور قابل بیوروکریٹ بھی نہیں ہیں۔ پچھلے دس سال کی جمہوری غلاظت نے پاکستان کی سول سروس کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ فواد حسن فواد جیسے بیوروکریٹس نے اپنے ہی جیسے ڈاکو پوری سول سروس میں گھسیڑ دیئے ہیں۔
ہماری قوم، اسکے دانشور اور اشرافیہ بھی عجیب الجھن کا شکار ہیں۔ ہم ترقی چین جیسی چاہتے ہیں، مگر اس جمہوری غلاظت اور بدبودار نظام کی لاش کے ذریعے جو انگریز ہمارے لیے مردار چھوڑ کرگیا ہے۔ہم ایوب خان کے دور کی ترقی تو چاہتے ہیں، مگر مارشل لاء کو گالیاں بھی اسی شدت سے دیتے ہیں۔
جب حکومت، ریاستی نظام اور بیوروکریسی کا یہ حال ہو کہ جیسے آج پاکستان میں ہے، تو پھر کوئی قانون، آئین یا عدلیہ ریاست کا نظام درست نہیں کرسکتے۔ اور یہی سب کچھ آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ایسے میں صرف ڈنڈا کام کرتا ہے۔
یہ بات بالکل طے ہوچکی ہے کہ پاکستان کی عدلیہ مکمل طور پر فاسد شدہ اور فرسودہ قوانین اور نظام پر مبنی ہے۔ اور ملک میں پھیلنے والی تمام بیماریوں کی جڑ ہے، دوا نہیں۔ لہذا عدل نام کی کوئی چیز اس ملک میں وجود نہیں رکھتی۔ اور جب عدل نہ ہو، تو پھر ظلم اور فساد ہی رہ جاتا ہے۔سیدنا علیؓ نے فرمایا تھا کہ ’’ریاستیں کفر کے ساتھ تو قائم رہ سکتیں ہیں، مگر ظلم کے ساتھ نہیں!‘‘آج پاکستان کی اشرافیہ، حکومت اور خاص طور پر سپہ سالار کو سیدنا علیؓ کے اس قول پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔ آج پاکستان کی تقدیر کے ان کے ہاتھوں میں ہے، حساب بھی انہی سے لیا جائے گا!!!
بابا بلھے شاہؒ نے شاید پاکستان کے نظام حکومت ، ریاست اور بیوروکریسی کے بارے میں ہی فرمایا تھا:
چار کتاباں اتوں لتھیاں
اتوں لتھیا ڈنڈا
چار کتاباں کج نہ کیتا
سب کج کیتا ڈنڈا!

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/2091623610892439?__tn__=K-R


No comments:

:)) ;)) ;;) :D ;) :p :(( :) :( :X =(( :-o :-/ :-* :| 8-} :)] ~x( :-t b-( :-L x( =))

Post a Comment