Sunday 4 November 2018

October 19th, 2018

چشم دید گواہوں، متاثرین اور دستاویزی ثبوت جو میرے پاس ہیں وہ یہ ثابت کررہے ہیں کہ کم از کم 500 پاکستانی تاجر سنکیانگ میں ایسے ہیں کہ جن کی چینی بیویوں اور بچوں کو چینی حکومت نے اغواء کرکے ایسی جیلوں میں ڈال دیا ہے کہ جہاں انہیں اسلام چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔





آج انتہائی کرب اور تکلیف کے ساتھ میں ایک ایسے معاملے کو اٹھارہا ہوں کہ جس پر میں بہت عرصے سے صرف ایک لیے خاموش تھا کہ میرے پاس واضح ثبوت اور چشم دید گواہ موجود نہیں تھے۔
چین میں مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستانیوں پر ہونیوالے مظالم۔۔۔

چین کے ساتھ پاکستان کے مضبوط دفاعی، سیاسی اور سفارتی تعلقات ہیں، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم پاکستانیوں پر کیے جانیوالے خوفناک مظالم پر صرف اس لیے خاموشی اختیار کرلیں کہ اس سے چین اور پاکستان کے تعلقات متاثر ہونگے۔

چشم دید گواہوں، متاثرین اور دستاویزی ثبوت جو میرے پاس ہیں وہ یہ ثابت کررہے ہیں کہ کم از کم 500 پاکستانی تاجر سنکیانگ میں ایسے ہیں کہ جن کی چینی بیویوں اور بچوں کو چینی حکومت نے اغواء کرکے ایسی جیلوں میں ڈال دیا ہے کہ جہاں انہیں اسلام چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔

500 سے زائد پاکستانی مسلمان تاجر کہ جو برسوں سے سنکیانگ میں مقیم تھے اور جنہوں نے وہاں شادیاں بھی کررکھی تھیں، اب بالکل دربدر کردیئے گئے ہیں۔ ان کے کاروبار ضبط کرلیے گئے ہیں، بیویاں اور بچے اغواء ہوگئے ہیں اور ان تاجروں کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ پاکستان واپس چلے جائیں۔

جو کچھ پاکستانی تاجروں کے ساتھ ہورہا ہے اس کے علاوہ بھی انتہائی ہوش رباء واقعات سامنے آرہے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں چینی مسلمانوں کو اسلام چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے، جیلوں میں بند کیا گیا ہے اور اسلامی عقائد اور شعائر کی توہین پر مجبور کیا جارہا ہے۔

اطلاعات کے مطابق چین میں موجود پاکستانی سفارتخانہ ان متاثرہ پاکستانی تا جروں کی کسی قسم کی مدد کرنے سے انکاری ہے۔
اب یہ ذمہ داری مکمل طور پر عمران خان کی حکومت کی ہے کہ چینی حکومت سے اس معاملے کو اٹھائے اور حل کروائے۔

3 نومبر کو عمران خان چین کا پہلا سرکاری دورہ شروع کررہے ہیں۔ اس دورے میں دو معاملات لازمی طور پر زیر بحث آنے چاہئیں۔
-1 سی پیک کی شرائط کو از سر نو نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
-2 ان سینکڑوں پاکستانی تاجروں کی بیویوں اور بچوں کی رہائی کا معاملہ بھی لازماً اٹھایا جانا چاہیے۔

یہ بھی اطلاعات آئی ہیں کہ چینی حکومت نے گلگت اور بلتستان سے ہونیوالی تمام تر تجارت پر پابندی لگا دی ہے۔ گلگت کے باشندوں کے تجارتی مال سے لدے ٹرک اب چین جا کر اپنا مال فروخت نہیں کرسکتے۔ گلگت بلتستان کے علاقے کی تجارتی کمر ہی توڑی جارہی ہے۔

یہ بھی اطلاعات ہیں کہ درجنوں چینیوں نے پاکستان میں آکر شادیاں کی ہیں اور ان پاکستانی بچیوں کو واپس چین لے جا کر برائی اور بدکاری کے اڈوں میں گناہ پر مجبور کیا جارہا ہے۔ چین میں موجود پاکستانیوں نے مجھے ذاتی طور پر اس بات کی تصدیق کی ہے۔

حکومت پاکستان کو اب انتہائی سنجیدگی کے ساتھ ان خطرناک اور نازک ترین معاملات کو سنبھالنا ہوگا۔ چین میں مسلمانوں پر ہونیوالے مظالم ہوں، وہاں بسنے والے پاکستانیوں کے خاندانوں کا اغواء ہو، یا پاکستانی بچیوں کا چینی قحبہ خانوں میں گناہوں پر مجبور ہونا، یہ سب معاملات دیکھنے ہونگے۔

لاکھوں چینی آنے والے وقتوں میں پاکستان آئیں گے۔ ان خدشات کا ہم نے پہلے بھی اظہار کیا تھا کہ جب یہ غیر مسلم کافر ایک مسلمان معاشرے میں اپنی آوارہ اور فحش تہذیب کے ساتھ داخل ہونگے تو اس کے ہمارے مسلمان معاشرے پر کیا اثرات پڑیں گے؟

جس طرح پاکستانیوں نے سنکیانگ میں شادیاں کی تھیں، اسی طرح ترک تاجروں نے بھی وہاں اپنے گھر آباد کیے تھے۔ جب چینی حکومت نے ترکوں کے ساتھ یہ ظلم کیے تو ترک سفیر خود اڑمچی پہنچا اور تمام ترکوں اور ان کی چینی بیویوں کو خاندانوں سمیت نکال کر ترکی لے گیا۔

یہ انتہائی حساس معاملہ ہے۔ جہاں ایک جانب مغربی دنیا اور بھارت پاکستان اور چین کے تعلقات تباہ کرنا چاہتے ہیں، وہیں چینی حکومت کے ایسے اقدامات پاکستان چین تعلقات بھی خراب کرسکتے ہیں اور پاکستان کے مسلمانوں میں بے چینی اور معیشت کی تباہی کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

سرکاری سطح پر فوری طور پر حکومت پاکستان کو چینی حکومت سے اس معاملے پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ گلگت سے تجارت کی بندش، پاکستانی تاجروں کے خاندانوں کا اغواء، چینی مسلمانوں پر ظلم اور پاکستانی بچیوں کی چین میں حالت۔۔۔
یہ ایسے معاملات ہیں کہ جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/1874659205922215?__tn__=-R


No comments:

:)) ;)) ;;) :D ;) :p :(( :) :( :X =(( :-o :-/ :-* :| 8-} :)] ~x( :-t b-( :-L x( =))

Post a Comment