*تحریک عدم اعتماد اور عمران خان کے پاس آخری راستہ*
*تحریر: سید زید زمان حامد*
یہ کہہ رہے ہیں کہ عمران کے خلاف تحریک عدم اعتماد ملک دشمن غیر ملکی طاقتوں کے ایماءپر لائی جارہی ہے۔ بالکل درست بات ہے!
مگر کیا پاکستان کی پوری تاریخ میں غیر ملکی طاقتیں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو استعمال کرکے حکومتوں کے تختے الٹتی نہیں رہیں۔۔۔؟
پاکستان میں سب سے پہلے غیر ملکی طاقتوں کی براہ راست مداخلت کے ذریعے وزیراعظم کو راستے سے ہٹانے کا عمل اس وقت شروع ہوا جب اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے اور قرارداد مقاصد کے ذریعے پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے ”جرم“ میں لیاقت علی خان کو سی آئی اے نے شہید کروایا۔
پھر ایوب خان کا سنہری دور آیا کہ جس میں پاکستان ہر لحاظ سے ایک عالمی طاقت بننے کی جانب گامزن تھا۔ پھر انہی دشمن عالمی طاقتوں نے بھٹو اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ذریعے سول نافرمانی اور بغاوت کی تحریکوں کو بھڑکا کر ایوب خان کو تخت سے اتارا۔
اور پھر جب امریکہ اور روس دونوں ہی بھٹو کو ہٹانے پر آمادہ ہوئے تو ایک مرتبہ پھر پاکستان کی یہی سیاسی جماعتیں باہر سے پیسہ لا کر ایک اور سول نافرمانی اور بغاوت کی تحریک شروع کرتی ہیں۔ مجبوراً فوج کو آنا پڑتا ہے۔
جنرل ضیاءالحق کو یہ غیر ملکی دشمن طاقتیں کسی سیاسی جماعت یا عوامی طاقت کے ذریعے نہیں ہٹا سکتی تھیں، لہذا ان کے خلاف بھی وہی طریقہ استعمال کیا گیا جو لیاقت علی خان کے خلاف استعمال کیا گیا تھا۔ انہیں شہید کرکے بےنظیر کو لایا گیا۔
جنرل پرویز مشرف کو بھی جب امریکہ اور بھارت نے ہٹانے کا فیصلہ کیا تو ایک مرتبہ پھر ملک کے اندر کی سیاسی جماعتوں اور خاص طور پر ججوں اور وکیلوں کو بھاری رشوت دے کر ملک میں فساد برپا کروایا گیا اور اس دفعہ زرداری کو صدر بنوایا گیا۔
اور اب ایک مرتبہ پھر عمران کو ہٹانے کیلئے وہی پاکستان کی سیاسی جماعتیں ملک دشمن طاقتوں کے ایماءپر متحرک ہیں۔ مگر اس دفعہ عمران پر یہ سو فیصد صادق آتا ہے کہ:
” کج شہر دے لوگ وی ظالم سن، کج سانوں مرن دا شوق وی سی۔۔۔“
پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور ان کے سربراہ ہمیشہ سے ہی بکاﺅ مال رہے ہیں۔ بے غیرت، بے ایمان، وطن فروش، دین فروش اور اقتدار کی خاطر خنزیروں سے بھی زیادہ لالچی۔پاکستان کی پوری تاریخ ان غداریوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہی اس ”جمہوریت“ کا ”حسن“ ہے۔
عمران کو ہٹانے کا کیا نقصان ہے؟
حقیقت پوچھتے ہیں توکچھ بھی نہیں۔۔۔۔! جتنی تباہی پاکستان کی عمران کے دور میں ہوئی ہے، نواز اورزرداری آ بھی جائیں تو اتنی ہی تباہی مچائیں گے۔ جس کو بھی رکھیں ملک کا بیڑہ غرق ہے۔
مسئلے کا حل وہی ہے جو ہم پہلے دن سے بتا رہے ہیں۔ پاکستان کو اس غلیظ ناپاک اور فسادی جمہوریت کو دفن کرکے ایک اسلامی صدارتی نظام کی ضرورت ہے۔ عمران رہے یا نہ رہے، اس غلیظ جمہوریت میں پاکستان کو بل گیٹس اور باقر رضا ہی چلائیں گے۔
پاکستان کو جو مسائل درپیش ہیں اس کا علاج نہ زرداری کے پاس ہے، نہ نواز شریف کے پاس، نہ عمران کے پاس اور نہ ہی جنرل باجوہ کے پاس۔
پاکستان کے مسائل کا حل قرارداد مقاصد میں ہے کہ جو پاکستان کی نظریاتی اورروحانی سمت طے کرتی ہے اور قائداعظم کے اس حکم پر ہے کہ پاکستان کیلئے صدارتی نظام بہترہے۔
عمران کے پاس اب ایک آخری راستہ بچا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے سے پہلے اسمبلیاں توڑ کر ملک میں ایمرجنسی لگا دے اور ایک مضبوط محب وطن عبوری حکومت قائم کردے جو تین سال تک ملک کو سنبھال کر نیا نظام ترتیب دے۔ ورنہ صرف تباہی ہے، عمران رہے یا نہ رہے۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment