Saturday, 10 February 2018

February 5th, 2018

اسلامی جمہوریہ “ یا ”مغربی جمہوریت“



اسلامی جمہوریہ “ یا ”مغربی جمہوریت“

آج میں پاکستان کے مفکروں، دانشوروں، رائے ساز شخصیات ، ذمہ دار صحافیوں اور محب وطن لوگوںسے بات کرنا چاہتا ہوں۔ذرا دماغ پر زور ڈالیے اور سوچیئے کہ کیا یہ وہی پاکستان ہے کہ جس کا خواب قائداعظم اور علامہ اقبالؒ نے دیکھا تھا؟ کیا پاکستان میں وہی نظام رائج ہے کہ جو پاکستان کے بانیان کے پیش نظر تھا؟ کیا پاکستان کا موجودہ آئین اس کی تکمیل کے مقاصد کی ترجمانی کرتا ہے؟ کیا پاکستان ایک ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ ہے یا ”جمہوریت زدہ“ پاکستان ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں کہ جو میں آج اہل علم و دانش اور محبان وطن سے پوچھنا چاہتا ہوں۔

پاکستان کے قیام کا مقصدصرف برصغیر میں مسلمانوں کیلئے ایک الگ ریاست کا حصول نہیں تھا کہ جہاں مسلمانوں کو آزادی اظہار کی اجازت حاصل ہو، بلکہ قائداعظم ؒ کے بقول ہمیں ایک تجربہ گاہ کی ضرورت تھی کہ جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق ایک نظام کی تشکیل دے سکیں، اور پھر وہ نظام بنا کر دنیا کو دکھائیں۔ پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری ریاست بننا تھا۔ یہاں اس فرق کو سمجھنا ضروری ہے کہ ”اسلامی جمہوریہ“ اور موجودہ ”مغربی جمہوریت“ کا باہم کوئی موازنہ نہیں۔پاکستان میں اس وقت جمہوریت کے نام پر جو مافیا راج نافذ ہے اس کا نہ تو مغربی جمہوریت سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی اسلامی جمہوری نظام سے۔

مغربی جمہوریت اور اسلامی جمہوری نظام میں فرق سمجھانے کی غرض سے میں آپ کو چند مثالیں دیتا ہوں۔ ایک جمہوری ریاست میں پارلیمان کی بالادستی ہوتی ہے، اور پارلیمان دوتہائی اکثریت سے کوئی بھی قانون پاس کرواسکتی ہے۔ جیسا کہ اٹھارہویں ترمیم میں ہوا کہ جس میں وفاق کو تقریباً ریاست ہائے متحدہ میں تبدیل کردیا گیا۔ جیسا کہ قادیانیوں سے متعلق قانون پاس کیا گیا، اور جس کی تازہ مثال یہ بھی ہے کہ ایک نا اہل شخص ایک سیاسی جماعت کا سربراہ بن سکتا ہے۔ تو یہ مثالیں ان لوگوں کی عقلوں سے پردہ ہٹانے کیلئے کافی ہے کہ جو یہ راگ الاپتے ہیں کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل جمہوریت میں ہے ۔ یہ سبھی قوانین ایک جمہوری پارلیمان نے ہی پاس کیے ہیں۔ اور جمہوریت پارلیمان کو اجازت دیتی ہے کہ وہ دو تہائی اکثریت سے کوئی بھی غیر شرعی اور غیر اخلاقی قانون پاس کرسکتی ہے۔ تو یہ ثابت ہوا کہ مغربی جمہوریت بھی کہ جو اخلاقیات سے مکمل عاری ہے ، پاکستان کیلئے موزوں طرز نظام نہیں۔

جب ”اسلامی جمہوریہ“ کی بات کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ریاست کے بنیادی نظریے اور قوانین میں کسی بھی صورت تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ چاہے پوری پارلیمان آپس میں مل بھی جائے، تب بھی جمہوریت کے طرز پر بھی آپ ملک و قوم و ریاست کے بنیادی نظریات اور ستونوں کو تبدیل نہیں کرسکتے۔ مثلاً پاکستان کے آئین کی پہلی سطر یہ کہتی ہے کہ ملک میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جاسکتا۔ قرارداد مقاصد جو ہمارے بڑوں نے 1949 ءمیں پاس کردی تھی، واضح طور پر طے کردیتی ہے کہ پاکستان ایک جمہوریت نہیں بلکہ ”اسلامی جمہوریہ“ ہوگا، یعنی یہاں اکثریت رائے سے قوانین تبدیل نہیں ہونگے، بلکہ قرآن و سنت حتمی طور پر ملک و قوم و ملت کا بنیادی ستون رہے گا، اور اس میں کوئی بھی اکثریتی پارلیمنٹ کوئی تبدیلی نہیں کرسکتی۔

اب آتے ہیں دوسرے آپشن پر۔ کئی لوگ پاکستان میں صدارتی طرز حکومت کی بات کرتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے مسائل کا حل صدارتی طرز نظام میں ہے۔ چلیں اس پر بھی بات کرکے دیکھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں پاکستان میں ایک طرح کا صدارتی طرز نظام ہی رائج تھا۔ جس میں صدر زرداری کو مکمل اختیارات حاصل تھے۔ وزیراعظم کی حیثیت ایک کٹھ پتلی کی سی تھی،جس میں، وقت آنے پر ایک وزیراعظم گیلانی کو قربان کرکے دوسرا وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو لے آیا گیا، مگر طاقت کا دارومدار ایوان صدر کے پاس ہی تھا۔

درحقیقت پاکستان کے جتنے بھی ”جمہوریت زدہ “ سربراہان رہے ہیں وہ دراصل مطلق العنان ڈکٹیٹر ہی تھے۔ سب نے پارلیمان کو اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے استعمال کیا، سبھی نے نظریہءضرورت کے تحت قوانین بنائے، سبھی نے اپنی جماعتوں، اپنے صوبوں اور اپنے اقتدارکے مفادات میں آئین میں تبدیلیاں کیں۔ یہ لوگ اکثریت کو استعمال کرکے جمہوریت کو ایک ہتھیار کے طور پر اپنے مفادات کے حصول کیلئے پارلیمان میں استعمال کرتے رہے۔

پاکستان پر ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے کہ جب بھٹو”جمہوریت“ کے ذریعے منتخب ہونے والا سیاسی لیڈر، جو بیک وقت چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر بھی تھا، پھر صدر بھی بن گیا اور بعد میں وزیراعظم بھی۔ پورے پاکستان کے ساتھ ایک مذاق بنایا ہوا تھا۔ کہنے کو وہ ”سیاسی“ لیڈر تھا، حقیقت میں بدترین ڈکٹیٹر! بعد میں آنے والے دور میں نواز شریف اور زرداری بھی ”منتخب شدہ“ ڈکٹیٹر ہی تھے۔اور یوں ان ”جمہوری“ حکمرانوں نے اس اسلامی جمہوریہ پاکستان، اور اس کے مقاصد کے ساتھ گھناﺅنا مذاق کیا اور جو آج تک جاری ہے۔

لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس گلے سڑے نظام سے چھٹکارا حاصل کریں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس نظام سے ایک وقفہ لیں اور بیٹھ کے سوچیں کہ ہم سے کہاں غلطی ہوئی۔ کیوں ہم وہ نظام نہیں بنا سکے کہ جس کیلئے ہم نے یہ ملک حاصل کیا تھا، کیوں ہم اس راستے پر نہیں چل سکے کہ جو بانیان پاکستان نے وضع کیا تھا۔کیوں ہم اس ”شادباد“ کو اس کی ”منزل مراد“ تک نہیں لے جاسکے۔

یہ وقت ہے کہ اہل علم و دانش اور اثر ورسوخ کی حامل شخصیات پھر سے سوچیں، اور از سر نو ایک نئی راہ کا تعین کریں، تاکہ ہم اپنی آنی والی نسلوں کے ہاتھوں وہ پھلدار شجر سونپ سکیں کہ جس کی آبیاری ہماری آباءنے خون دل سے کی تھی۔
موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرنے کے قریب ہے۔ کچھ ہی عرصے بعد یہ حکومت اپنی مدت پوری کرلے گی اور پھر ایک نگران حکومت قائم کردی جائے گی۔ یہی وقت ہے فیصلے کا!

چیف جسٹس اور آرمی چیف دونوں ہی جمہوریت کے حامی ہیں اور وہ جمہوریت کو پھلتے پھولتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ مگر انہیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ جو نظام پاکستان میں رائج ہے وہ جمہوریت نہیں بلکہ مافیا راج ہے، اور یہ الفاظ سپریم کورٹ کے جج کے ہیںکہ جنہوں نے موجودہ حکومت کو ”سسلین مافیا“ سے تشبیہ دی ہے۔ موجودہ ”جمہوری“ نظام درحقیقت اپنے مزاج میں آمرانہ ہے، اور بدقسمتی سے قوم و ملک یہ سمجھ رہی ہے کہ اسی میں فلاح کی راہ ہے، حالانکہ یہ مکمل تباہی کا راستہ ہے۔ پاکستان کو ایک اسلامی جمہوریہ بننا تھا، نہ کہ جمہوریت زدہ۔

سادہ الفاظ میں پاکستان کو ایک نئے آئین کی ضرورت ہے کہ جس کے تحت ایک متحدہ وفاقی اسلامی جمہوریہ اور صدارتی نظام رائج ہو۔ سیاسی اثررورسوخ سے پاک ایک آزاد اور مضبوط بیوروکریسی ہو جو کہ ایک حکومت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کا کام سرانجام دے سکے، اور مجلس عاملہ، بیوروکریسی، عدلیہ کے حدود کار متعین ہوں اور یہ سب ایک ٹیکنوکریٹک حکومت کے تحت اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہوں۔
اس موجودہ آمرانہ مافیا جمہوریت کے تحت سیاستدانوں نے اپنے سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعے بیوروکریسی کو تباہ کردیا ہے۔ نتیجتاً ایک کے بعد ایک ریاستی ادارہ تباہ ہوتا جارہا ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس ناپاک اور پلید نظام کو خیر آباد کہہ دیں۔میں پاکستان کے تمام محب وطن اور با اثر شخصیات کو دعوت دینا چاہوںگا کہ آئیں اور مل کر بیٹھ کر سوچیں کہ کیا لاکھوں شہداءکی قربانی سے حاصل کی گئی اس پاک سرزمین کو ہم یونہی بے بسی اور لاچاری سے کمزور ہوتا اور اندرونی و بیرونی دشمنوں کے ہاتھو ں تباہ ہوتا دیکھتے رہیں گے، یا آگے بڑھ کر اس کی پھر سے از سر نو تعمیر کریں گے۔

آج ہم نے اس فکری عمل کا آغاز کیا ہے۔ اب یہ آپ پر ہے کہ اس پر غیر روایتی طریقے سے سوچ وبچار کریں۔ تاکہ اس موجودہ مافیا جمہوریت سے نجات حاصل کی جاسکے۔ یہ سینکڑوں سیاسی جماعتوں پر مشتمل آمرانہ مافیا کہ جسے جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے اب مزید قبول نہیں کی جاسکتی۔ یہ نہ صرف غیر شرعی ہے و غیر قانونی و غیر اخلاقی ہے بلکہ اپنے اندر ایک جرم بھی ہے۔

آئیے پاکستان کی تعمیر نو اس طرز پر کریں کہ جس پر قائد کرنا چاہتے تھے۔

٭٭٭٭٭
https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/photos/a.109687115752775.23119.109463862441767/1565070860214386/?type=3&theater



Kashmir can only be through sword !....



https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/videos/1565196140201858/

Our azaan today... Kashmir can only be through sword !....

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/videos/1565196140201858/



No comments:

:)) ;)) ;;) :D ;) :p :(( :) :( :X =(( :-o :-/ :-* :| 8-} :)] ~x( :-t b-( :-L x( =))

Post a Comment