Tuesday 14 November 2017

July 26th, 2017

These are the barakah of Khilafat e Rashida...these are the barakah of justice...these are the barakah of a truthful leader.....


These are the barakah of Khilafat e Rashida...these are the barakah of justice...these are the barakah of a truthful leader.....
you can never find this in democracy or dictatorship....
دو نوجوان سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں یا عمر ؓ یہ ہے وہ شخص!
سیدنا عمر ؓ ان سے پوچھتے ہیں ، کیا کیا ہے اس شخص نے؟
یا امیر المؤمنین، اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے۔
کیا کہہ رہے ہو، اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے؟ سیدنا عمرؓ پوچھتے ہیں۔
سیدنا عمر ؓ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں، کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے؟
وہ شخص کہتا ہے : ہاں امیر المؤمنین، مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ۔
کس طرح قتل کیا ہے؟ سیدنا عمرؓ پوچھتے ہیں۔
یا عمرؓ، انکا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا، میں نے منع کیا، باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا۔
پھر تو قصاص دینا پڑے گا، موت ہے اسکی سزا۔ سیدنا عمرؓ کہتے ہیں۔
نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت، اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں، نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کسقدر شریف خاندان سے ہے، نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کی تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں، معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے؟ ان سب باتوں سے بھلا سیدنا عمر ؓ کو مطلب ہی کیا ہے!! کیوں کہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر ؓپر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمرؓ کو روک سکتا ہے۔ حتی کہ سامنے عمرؓ کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو، قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔
وہ شخص کہتا ہے ا ے امیر المؤمنین: اس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحراء میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجیئے تاکہ میں انکو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے، میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا۔
سیدنا عمر ؓ کہتے ہیں: کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحراء میں جا کر واپس بھی آ جائے گا؟
مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے، خیمےیا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے۔
کون ضمانت دے اسکی؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔
اور کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمرؓ سے اعتراض کرے، یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے۔ اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔
محفل میں موجود صحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے، اس صورتحال سے خود عمر ؓ بھی متأثر ہیں۔ کیوں کہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا!
خود سیدنا عمرؓ سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں ہیں اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں، معاف کر دو اس شخص کو۔
نہیں امیر المؤمنین، جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں۔
عمرؓ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں ، اے لوگو ، ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟
ابو ذر غفاری ؓ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی!
سیدنا عمرؓ کہتے ہیں ابوذر ، اس نے قتل کیا ہے۔
چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو، ابوذر ؓ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں۔
عمرؓ: جانتے ہو اسے؟
ابوذرؓ: نہیں جانتا اسے۔
عمرؓ: تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو؟
ابوذرؓ: میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں، اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا، انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا۔
عمرؓ: ابوذرؓ دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا۔
امیر المؤمنین، پھر اللہ مالک ہے۔ ابوذر اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں۔
سیدنا عمرؓ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے، کچھ ضروری تیاریوں کیلئے، بیوی بچوں کو الوداع کہنے، اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے، اور اس کے قصاص کی ادئیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے۔
اور پھر تین راتوں کے بعد، عمر ؓ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے، انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا، عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے، نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے۔
ابو ذرؓ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمرؓ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔
کدھر ہے وہ آدمی؟ سیدنا عمرؓ سوال کرتے ہیں۔
مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین، ابوذرؓمختصر جواب دیتے ہیں۔
ابوذرؓ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔
محفل میں ہو کا عالم ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے؟
یہ سچ ہے کہ ابوذرؓ سیدنا عمرؓ کے دل میں بستے ہیں، عمرؓ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمرؓ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذرؓ کے حوالے کر دیں، لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے، اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے، کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا، نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے، حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔
مغرب سے چند لحظات پہلےوہ شخص آ جاتا ہے، بے ساختہ حضرت عمرؓ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے، ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے۔
عمرؓ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں اے شخص، اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا، نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا!
امیر المؤمنین، اللہ کی قسم، بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے، دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں، اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحراء میں تنہا چھوڑ کر، جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے۔
سیدنا عمرؓ نے ابوذر کی طرف رخ کر کے پوچھا ابوذرؓ، تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی؟
ابوذرؓ نے کہا، اے عمرؓ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے۔
سید عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟
نوجوانوں نے روتے ہوئے جواب دیا، اے امیر المؤمنین، ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں، ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے۔
سیدناؓ عمر اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو انکی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر رہے تھے۔۔۔۔
اے نوجوانو! تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔
اے ابو ذرؓ! اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے۔
اور اے شخص، اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے۔
اور اے امیر المؤمنین، اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے۔
محدثین میں سے ایک یوں کہتے ہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اسلام اور ایمان کی سعادتیں تو عمرؓ کے کفن کے ساتھ ہی دفن ہو گئی تھیں

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/1381740495214091


let me share another emotional story....this is Ishq e Haqiqi, this is junoon which shakes the Arsh of Allah (swt)


let me share another emotional story....this is Ishq e Haqiqi, this is junoon which shakes the Arsh of Allah (swt)
قصہ علامہ اقبال کی ایک رباعی کا
ایک صدی سے زائد کا عرصہ ہوا۔ ڈیرہ غازی خان کے ترین قبیلے سے تعلق رکھنے والے اللہ داد خان کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا۔ اس کا نام محمد رمضان رکھا گیا۔ رمضان ہونہار طالب علم نکلا۔ بی۔ اے کے بعد بی ۔ ٹی کا امتحان پاس کیا اور بطور انگلش ٹیچر سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ طبیعت میں فقیرانہ استغنا بھی تھا اور صوفیانہ بے نیازی بھی ۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے اور سرکار انگلیسیہ کا ملازم ہونے کے باوجود کبھی دیسی لباس ترک نہ کیا۔ چہرہ سنت رسول سے سجا تھا ہمیشہ ہاتھہ میں ایک موٹی سوٹی اور کندھے پر بڑا سا تولیہ ڈالے رکھتے۔ فارسی اور اردو کے شعر کہتے ۔ علامہ اقبال کے عشاق میں سے تھے۔ انکے کئی اشعار پہ تضمین کہی جو علامہ نے بہت پسند کی۔ ایک نوجوان، عطا محمد جسکانی سے گہرے لگاؤ کے باعث عطائی تخلص اختیار کیا اور محمد رمضان عطائی کہلانے لگے۔
یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب عطائی ڈیرہ غازی خان کے گورنمنٹ اسکول میں تعینات تھے۔ انہی دنوں ان کے قریبی شناسا مولانا محمد ابراہیم ناگی بھی ڈیرہ غازی خان کے سب جج تھے۔ ابراہیم ناگی ایک درویش منش اور صاحب علم شخصیت تھے۔ مولانا ابراہیم کو علامہ اقبال سے ملاقاتوں کا اعزاز بھی حاصل تھا۔
ایک دن مولانا ابراہیم لاہور گئے علامہ سے ملاقات ہوئی۔ واپس آئے تو سر شام معمول کی محفل جمی۔ علامہ سے ملاقات کا ذکر چلا تو عطائی کا جنوں سلگنے لگا۔ مولانا نے جیب سے کاغذ کا ایک پرزہ نکال کر عطائی کو دکھایا۔ یہ علامہ کی اپنی تحریر تھی۔ مولانا کہنے لگے۔
لو عطائی ! علامہ صاحب کی تازہ رباعی سنو۔ پھر وہ ایک عجب پر کیف انداز میں پڑھنے لگے۔
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
ور حسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہ مصطفےٰ پنہاں بگیر
مولانا کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے لیکن محمد رمضان عطائی کی کیفیت روتے روتے دگرگوں ہو گئی۔ اسی عالم وجد میں فرش پر گرے۔ چوٹ آئی اور بے ہوش ہوگئے۔ رباعی ان کے دل پر نقش ہو کے رہ گئی۔ اٹھتے بیٹھتے گنگناتے اور روتے رہے انہی دنوں حج پر گئے۔ خود اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ جب حجاج اوراد و وظائف میں مصروف ہوتے تو وہ زار و قطار روتے اور علامہ کی رباعی پڑھتے رہتے۔
حج سے واپسی پر دل میں ایک عجب آرزو کی کونپل پھوٹی۔ ”کاش یہ رباعی میری ہوتی یا مجھے مل جاتی“ یہ خیال آتے ہی علامہ اقبال کے نام ایک خط لکھا“ آپ سر ہیں فقیر بے سر۔ آپ اقبال ہیں، فقیر مجسم ادبار۔ لیکن طبع کسی صورت کم نہیں پائی“ انہوں نے علامہ کے اشعار کی تضمین اور اپنے فارسی اشعار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ”فقیر کی تمنا ہے کہ فقیر کا تمام دیوان لے لیں اور یہ رباعی مجھے عطا فرما دیں۔“ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ انہیں علامہ کی طرف سے ایک مختصر سا خط موصول ہوا۔ لکھا تھا:
جناب محمد رمضان صاحب عطائی۔ سینئر انگلش ماسٹر۔ گورنمنٹ ہائی اسکول ڈیرہ غازی خان۔
لاہور : 19/ فروری 1937
جناب من: میں ایک مدت سے صاحب فراش ہوں خط و کتابت سے معذور ہوں باقی، شعر کسی کی ملکیت نہیں آپ بلا تکلف وہ رباعی، جو آپ کو پسند آگئی ہے اپنے نام سے مشہور کریں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔
فقط محمد اقبال ۔ لاہور
علامہ نے یہ رباعی اپنی نئی کتاب ”ارمغان حجاز“ کے لیے منتخب کر رکھی تھی۔ عطائی کی نذر کر دینے کے بعد انہوں نے اسے کتاب سے خارج کر کے، تقریباً اسی مفہوم کی حامل ایک نئی رباعی کہی جو ”ارمغان حجاز“ میں شامل ہے۔
بہ پایاں چوں رسد ایں عالم پیر
شود بے پردہ ہر پوشیدہ تقدیر
مکن رسوا حضور خواجہ ما را
حساب من زچشم او نہاں گیر
(اے میرے رب! روز قیامت) یہ جہان پیر اپنے انجام کو پہنچ جائے اور ہر پوشیدہ تقدیر ظاہر ہو جائے تو اس دن مجھے میرے آقا و مولا کے حضور رسوا نہ کرنا اور میرا نامہ اعمال آپ کی نگاہوں سے چھپا رکھنا)
ایم اے فارسی کا امتحان دینے لاہور گئے تو عطائی، شکریہ ادا کرنے علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہمراہ جانے والے چوہدری فضل داد نے تعارف کراتے ہوئے کہا ”یہ بوڑھا طوطا ایم اے فارسی کا امتحان دینے آیا ہے“ علامہ ایک کھری جھلنگا چار پائی پر احرام نما سفید چادر اوڑھے لیٹے تھے۔ بولے۔ ”عاشق کبھی بوڑھا نہیں ہوتا“ رباعی کا ذکر چل نکلا۔ عطائی نے جذب و کیف سے پڑھنا شروع کیا۔ توغنی از ہر دو عالم“ علامہ کی آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے۔ اتنا روئے، اتنا روئے کہ سفید چادر کے پلو بھیگ گئے۔
آخری ملاقات علامہ کے انتقال سے کوئی چار ماہ قبل دسمبر 1937 میں ہوئی۔ انہوں نے علامہ سے کہا ”سنا ہے جناب کو دربار نبوی سے بلاوا آیا ہے“ علامہ آبدیدہ ہو گئے ۔ آواز بھرا گئی۔ بولے ”ہاں ! بے شک لیکن جانا نہ جانا یکساں ہے، آنکھوں میں موتیا اتر آیا ہے، یار کے دیدار کا لطف دیدہ طلبگار کے بغیر کہاں۔“ عطائی نے کہا ”جانا ہو تو دربار نبوی میں وہ رباعی ضرور پیش فرمائیے گا۔ جو اب میری ہے“ علامہ زار و قطار رونے لگے۔ سنبھلے تو کہا ”عطائی ! اس رباعی کو بہت پڑھا کرو۔ ممکن ہے خداوند کریم مجھے اس کے طفیل بخش دے“۔
1938 میں علامہ انتقال فرما گئے۔ عرصہ بعد شاہی مسجد کے احاطے میں ان کے مزار کی تعمیر شروع ہوئی تو ہر ہفتے اور اتوار کو ایک مجذوب شخص لاٹھی تھامے مسجد کی سیڑھیوں پر آبیٹھتا اور شام تک موجود رہتا۔ وہ زیر تعمیر مزار پہ نظریں گاڑے ٹک ٹک دیکھتا رہتا۔ کبھی یکایک زاری شروع کر دیتا۔ کبھی طواف کے انداز میں مزار کے چکر کاٹنے لگتا۔ اس کا نام محمد رمضان عطائی تھا۔
مولانا محمد ابراہیم ناگی کبھی کبھی کہا کرتے ”ظالم عطائی! کان کنی تو میں نے کی اور گوہر تو اڑا لے گیا۔ بخدا اگر مجھے یہ علم ہوتا کہ حضرت غریب نواز (علامہ اقبال) اتنی فیاضی کریں گے تو میں اپنی تمام جائیداد دے کر یہ رباعی حاصل کر لیتا اور مرتے وقت اپنی پیشانی پر لکھوا جاتا“۔
محمد رمضان عطائی، سینئر انگلش ٹیچر 1968 میں اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ انہوں نے اپنی وصیت میں لکھا۔ ”میرے مرنے پر اگر کوئی وارث موجود ہو تو رباعی مذکور میرے ماتھے پہ لکھہ دینا اور میرے چہرے کو سیاہ کر دینا۔“ مجھے معلوم نہیں کہ پس مرگ ان کے کسی وارث نے اس عاشق رسول کی پیشانی پہ وہ رباعی لکھی یا نہیں لیکن ڈیرہ غازی خان کے قدیم قبرستان ”ملا قائد شاہ“ میں کوئی بیالیس برس پرانی ایک قبر کے سرہانے نصب لوح مزار پر کندہ ہے۔
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
ور حسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہ مصطفےٰ پنہاں بگیر
اے اللہ ! تو دوجہانوں کو عطا کرنے والا ہے جبکہ میں تیرا منگتا و فقیر ہوں، روزِ محشر میری معذرت کو پذیرائی بخش کر قبول فرمانا (اور مجھے بخش دینا) اگر (پھر بھی) میرے نامہ اعمال کا حساب نا گزیر ہوتو پھر اے میرے مولیٰ ! اسے میرے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھنا۔
(کیونکہ میں ایک گنہگار امتی کی حیثیت سے اپنے آقا کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا)

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/1382174258504048


No comments:

:)) ;)) ;;) :D ;) :p :(( :) :( :X =(( :-o :-/ :-* :| 8-} :)] ~x( :-t b-( :-L x( =))

Post a Comment