Appointment of a Pakistani General as head of MPKF is a bigger game changer than CPEC but political parties remain idiots to the core..or traitors..
https://www.youtube.com/watch?v=iPDzMpjF0c8&feature=youtu.beIn these 10 minutes, have replied to every objection on appointment of GRS in Saudi Arabia. PTI have really gone insane....Appointment of a Pakistani General as head of MPKF is a bigger game changer than CPEC but political parties remain idiots to the core..or traitors..
https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/1262830603771748
بچو! آج ہم آپ کو بڑوں سے بات کرنے اور خط و کتابت کے کچھ آداب بتاتے ہیں۔
بچو! آج ہم آپ کو بڑوں سے بات کرنے اور خط و کتابت کے کچھ آداب بتاتے ہیں۔اس بات کو ذہن میں رکھیے گا کہ ہمارا شب و روز انتہائی مصروف اور مشغول گزرتا ہے۔ دن کا کوئی لمحہ ایسا نہیں ہوتا کہ جب ہم یا تو ڈیوٹی کررہے ہوں، یا ڈیوٹی کی تیاری ۔دن میں کوئی ایک ہزار سے زائد ای میل پیغامات، وٹس ایپ، فیس بک پوسٹس، ایس ایم ایس اور ٹوئٹر میسیجز ہمیں موصول ہوتے ہیں۔ ہم حتیٰ الوسعیٰ کوشش کرتے ہیں کہ ان میں سے ضروری پیغامات کا جواب دیں، یا کم از کم پڑھ ضرور لیں، اگر جواب دینا ممکن یا ضروری نہ ہو تو۔
ہمیں سینکڑوں ایسی ای میلز یا پیغامات آتے ہیں کہ جو بے ادبی کے دائرے میں بھی آتے ہیں، وقت بھی ضائع کرتے ہیں اور خط و کتاب کے بنیادی ادب آداب سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔
یہاںہم اس حوالے سے کچھ مثالیں دینا چاہیں گے:
۱۔ ” سر میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔“
اب ایک گمنام شخص کی طرف سے یہ ای میل آتی ہے اور وہ توقع کرتے ہیں کہ میں ان سے ملنے کیلئے انہیں فوراً بلا لوں گا۔ نہ ان کا کوئی تعارف ہوتا ہے، نہ کوئی فون نمبر، نہ کوئی پتہ، نہ کوئی وجہ لکھی ہوتی ہے کہ وہ کیوں ملنا چاہتے ہیں۔ اور جب ایسے پیغامات کو میں نظر انداز کرتا ہوں تو پھر اگلی میل میں یہ شکایت آتی ہے کہ آپ متکبر ہوگئے ہیں، لوگوں سے ملنا نہیں چاہتے۔ اب میں یہاں کیا کروں!؟
۲۔ ” سر! مجھے آپ کی کتابیں چاہئیں، میں امریکہ میں رہتا ہوں“۔
ہمارا جواب: ”انٹرنیٹ سے ڈاﺅن لوڈ کرلیں“۔
اگلی ای میل آتی ہے: ” پلیز اپنی ویب سائٹ کا لنک بھیج دیں“۔
ہمارا جواب: ”پلیز گوگل کرلیں“۔
ان کا جواب: ”سر کتابوں کے الگ الگ لنک بھیجیں مجھے“۔
اب یہ صاحب ہمیں اپنے سیکرٹری یا ملازم کی طرح استعمال کررہے ہیں۔ نہ ان کو اس بات کا کوئی لحاظ ہے کہ وہ کس سے بات کررہے ہیں، نہ اس بات کا کہ ہمارا وقت کتنا قیمتی ہے، اور نہ ہی وہ دو انگلیاں ہلا کر خود محنت کرنا چاہ رہے ہیں۔ یہ بے ادبی بھی ہے، اور تپانے والی حرکت بھی۔ ایسا نہ کریں!
ایک مرتبہ پی ٹی آئی کے ایک کارکن سے جب اسی طرح کی ہماری گفتگو ہوئی تو ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا تم عمران خان سے بھی اس طرح کی گفتگو کرسکتے ہو؟ تو اس نے جواب دیا کہ نہیں! وہ تو بہت مصروف ہوتا ہے، ہم اس کا وقت ضائع نہیں کرسکتے۔ پھر ہم نے اس سے پوچھا کہ تمہارے خیال میں ہم ’ویلے‘ بیٹھے ہیں کہ تم ہمارا وقت ضائع کرسکتے ہو!!
۳۔ ” سر! اپنے گھر کا پتہ بھیج دیں، اور اپنا فون نمبر بھی، آپ سے بات کرنی ہے“۔
اب یہاں پر بھی وہی حرکت ہے کہ نہ اپنا تعارف، نہ نمبر، نہ پتہ، مگر ساری ذاتی معلومات ہم سے طلب کررہے ہیں۔ حالانکہ جو بات وہ کرنا چاہتے ہیں، وہ ای میل پر بھی ہوسکتی ہے۔
اس بات کا احساس کریں کہ ہم کو شدید سیکورٹی خدشات ہیں۔ اللہ اور اسکے رسولﷺ کا ہر دشمن ہماری اور ہماری ٹیم کا دشمن ہے۔ سعودی عرب والی سازش کے بعد ہم اپنی ڈیوٹی اور مشن کے حوالے سے انتہائی محتاط ہیں۔ پہلے جس بے تکلفی سے ہم ہر شخص سے مل لیتے تھے، اب حالات اور خدشات کے پیش نظر طریقہ کار کو تبدیل کردیا گیا ہے۔ ہمارا پتہ بھی تبدیل ہوچکا ہے، اور ہمارے فون نمبرز بھی، اور صرف انتہائی قریبی ساتھیوں یا مشن کے حوالے سے ضروری افراد کو ہی ملاقات کیلئے بلایا جاتا ہے، لہذا اپنی جگہ پر اپنی ڈیوٹی کریں، اور ہمارے فیصلے کا احترام کریں۔ یہی ادب کا تقاضا ہے!
اپنا فیس بک اور ٹوئٹر پیج میں خود چلاتا ہوں۔ تمام پوسٹس میں خود کرتا ہوں، اور تمام کمنٹس کا جواب بھی خود ہی دیتا ہوں۔ دن میں سینکڑوں کمنٹس کا جواب دینا آسان نہیں ہے۔ پاکستان میں کوئی اور سیاست دان، تجزیہ کار یا صحافی ذاتی طور پر اور اس قدر کثیر تعداد میں خود اپنے ہاتھ سے پوسٹ نہیں کرتا، اور نہ ہی کمنٹس کا جواب دیتا ہے۔ اگر ہم جواب دے رہے ہیں تو اس کا احترام اور قدر کریں، سمجھداری کے سوالات کریں اور باتوں کی حکمت کو سمجھیں۔
اٹھارہ اٹھارہ سال کے بچے ہم سے اختلاف کرکے گالیاں دینے اور فحش کلامی پر اتر آتے ہیں، پھر ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہوتا کہ ہم انہیں بلاک کردیں۔ دن بھر میں تیس سے چالیس افراد لازماً بلاک ہوتے ہیں۔ نہ جانے وہ ہمارے صفحے پر آتے کیوں ہیں؟
ایک بات یاد رکھیے گا کہ یہ ہمارا صفحہ ہے، آپ یہاں پر خود چل کر آئے ہیں، اس لیے کہ آپ ہماری بات سننا چاہتے ہیں، لہذا ادب سے اور تہذیب کے دائرے میں رہ کر ہماری رائے کو پڑھیں اور سنجیدہ اور با علم اتفاق یا اختلاف کریں۔ ہمارا یہ صفحہ ذہنی آوارہ گردوں کیلئے تفریح گاہ نہیں ہے کہ جہاں آ کر وہ اپنے ذہن کی خرافات اگل سکیں۔ جب ہمارا دل چاہے گا کہ ہم آپ کی رائے سنیں تو ہم آپ کا پیج جوائن کرلیں گے، مگر یہ ”براس ٹیکس“ کا پیج ہے، اور اس پر آپ براہ راست مجھ سے بات کررہے ہوتے ہیں، لہذا ادب کا لحاظ کریں، اور اس بات کا بھی کہ ہم بے ادبوں اور گستاخوں کا بالکل لحاظ نہیں کرتے۔
اس صفحے کے ذریعے ہم براہ راست آپ سے بات کرتے ہیں۔ اس موقع کی قدر کریں، جو علم سیکھ سکتے ہیں، سیکھ لیں۔ اللہ نے ہمیں علم، تجربہ اور عمر آپ میں سے اکثر سے زیادہ عطا کی ہے۔ جو اللہ نے ہمیں نصیب کیا ہے، ہم وہ فیض آپ میں تقسیم کررہے ہیں، اسے گستاخی و بے ادبی میں ضائع نہ کیجیئے گا ۔ جاہل اور بے ادب کے نصیب میں کچھ بھی نہیں آتا۔
دس برس قبل سے کہ جب ہم نے اپنا مشن شروع کیا تھا، ہمیں شدید ترین مخالفت، مشکلات اور گالیوں کا سامنا رہا ہے اور یہ آج بھی جاری ہے۔جو سمجھدار ہیں وہ جانتے ہیں کہ اللہ نے آج تک اس فقیر کی کہی ہوئی کوئی بھی بات غلط ثابت نہیں کی۔ ہر وہ بات جس پر شروع میں لوگ بھڑک جاتے تھے ، کچھ عرصے کے بعد اللہ اس کو خود سچ ثابت کردیتا تھا۔ آج بھی ہم آپ سے یہی کہتے ہیں، اگر ہماری کوئی بات آپ کو سمجھ میں نہ آئے، تو ادب سے خاموش رہیں، کچھ عرصے میں آپ کو خود نظر آجائے گا۔ بھڑک کر، گالیاں بکنے سے آپ صرف اپنے آپ کو بدنصیب کریں گے۔ جیسا کہ ہزاروں ہوچکے ہیں۔
اللہ جب تک چاہے گا اپنے اس فقیر سے ڈیوٹی لے گا۔ نہ تو ہمیں تعریف کی پرواہ ہے، اور نہ گالیوں کی۔ جو با ادب رہے گا، وہ با نصیب ہوگا، جو بے ادب ہوگا، وہی بدبخت ہوگا۔ فقیروں کے قافلے تو چلتے رہیں گے، کتے چاہیں کتنا ہی بھونک لیں۔
آپ کو ہم نے نصیحت کردی ہے، آئندہ اس صفحے پر یا خط و کتابت میں ان آداب کا دھیان رکھیے۔ جزاک اللہ خیر۔
https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/1263011210420354
No comments:
Post a Comment