Monday, 14 December 2020

December 14th, 2020

 1971 ءمیں پاکستان توڑنے والوں کا انجام۔۔۔!!!

 

1971 ءمیں پاکستان توڑنے والوں کا انجام۔۔۔!!!

تحریر: سید زید زمان حامد

ماخوذ از:افراسیاب مہدی ہاشمی قریشی

پاکستان اللہ کے رازوں میں سے ایک راز ہے اور قیامت تک رہنے کیلئے بنا ہے۔ یہ پاک سرزمین اللہ اور اسکے رسولﷺ کی امانت ہے۔ جس کسی نے بھی اس سے خیانت و غداری کی اس کا انجام عبرتناک ہوا۔اپنوں کی غداریوں اور دشمنوں کی عیاریوں سے جو چوٹ اس پاک سرزمین کو 71 ءمیں لگی، پھر قدرت نے بھی مکافات عمل میں اس کا بھرپورانتقام لیا۔

”اور کافر اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کررہا تھا، بے شک اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔“

(آل عمران،54 )

71 ءکے سانحے کا جو جتنا بڑا ذمہ دار تھا، اسے قدرت کی طرف سے اتنی ہی بڑی سزا ملی۔یہ عبرتناک واقعات پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کیلئے بھی نصیحت ہیں کہ جو آج طاقت اور اقتدار کے نشے میں مکافات عمل سے بے نیاز ہوچکے ہیں۔

سابق پاکستانی سفیر برائے بنگلہ دیش افراسیاب ہاشمی صاحب کے مطابق ایک سابق بنگلہ دیشی ہائی کمشنر نے ڈھاکہ میں انکی رہائش گاہ پر ایک گفتگو میں بتایا:

”ہم 1971 ءکے واقعے کے ذمہ داران کے عبرتناک انجام سے تو واقف ہیں، مگر اس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں جو جتنا بڑا مجرم تھا اس کو اسی حساب سے سزا بھی ملی۔“

............................

شیخ مجیب الرحمن:

اگست 1975 ءمیں، کہ جب ابھی بنگلہ دیش کو پاکستان سے جدا ہوئے ،چار سال بھی پورے نہ ہوئے تھے، بنگالیوں کا ”بابائے قوم“ شیخ مجیب الرحمن بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ وہ کہ جسے بنگالی ”بنگا بدھو“ (بنگالیوں کا سب سے بڑا دوست) کہتے تھے، اپنے خاندان کے 18 افراد کے ساتھ گولیوں سے بھون دیا گیا۔ مقتولین میں اس کا 10 سالہ بیٹا شیخ رسل بھی شامل تھا۔شیخ مجیب کو اسکے انجام تک پہنچانے والی اس کی اپنی ہی فوج تھی۔اس حملے میں شیخ مجیب کی دو بیٹیاں شیخ حسینہ اور شیخ ریحانہ ہی بچ پائیںکیونکہ وہ اس وقت ملکسے باہر تھیں۔

مجیب کے قتل کی داستان عبرت یوں بیان کی جاتی ہے:

” گولیوں کی آواز سے جاگ کر شیخ مجیب وزیراعظم ہاﺅس کی اوپری منزل پر واقع اپنے کمرے سے باہر آیا۔ وہ اس وقت شب خوابی کے لباس میں تھا۔ قاتلوں کو مخاطب کرکے اس نے پوچھا: ”تم یہاں کس لیے آئے ہو؟“ ایک سپاہی مجیب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا: ” ہم یہاں تمہارے لےے آئے ہیں۔۔۔!!!“ مجیب نے یہ سن کر متکبرانہ انداز میں جواب دیا: ”ہاہاہا! پاکستانی فوج مجھے نہ مار سکی، تمہاری کیا مجال کہ تم مجھے مارو۔۔۔!“

صحافی اینتھونی ماسکر ینس اس حوالے سے لکھتے ہیں:

”نور نے اپنی اسٹین گن سے گولیوں کی ایک بوچھاڑ کی، مجیب کے پاس بچنے کا کوئی راستہ نہ تھا، گولیوں نے مجیب کے جسم کو چھلنی کردیا۔ اس کا جسم گولیوں کے دھکے سے پیچھے کی جانب مڑ ا اور وہ اوندھے منہ سیڑھیوں سے لڑھک گیا۔ تمباکو نوشی کا پائپ اسکے ہاتھ میں اب بھی سختی سے تھما ہوا تھا۔ یہ 15 اگست کی صبح 5:40 کا وقت تھا۔ اور یوں بنگالیوں کے ساتھ شیخ مجیب کا عشق تلاطم خیز اپنے انجام کو پہنچا“۔

مجیب کو اپنے قتل کے بعد بھی ذلت اٹھانا پڑی۔ حملہ آورں میں سے ایک نے کبھی مجیب کو قریب سے نہیں دیکھا تھا۔ چنانچہ مجیب کا چہرہ شناخت کرنے کیلئے قاتل نے اپنے بوٹ سے اس کی اوندھی پڑی لاش کو سیدھا کیا۔اس کی بے گور وکفن لاش چار گھنٹے تک یونہی سیڑھیوں پر پڑی رہی جس کے بعد کہیں جا کر بنگلہ دیشی وزارت اطلاعات کے نمائندوں نے اس کی لاش کی تصاویر لیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ چند ہی سال قبل جب پاک فوج شیخ مجیب کو گرفتار کرنے اس کی رہائش گاہ واقع دھان منڈی ڈھاکہ آئی تو اسے بڑی عزت و احترام کے ساتھ مغربی پاکستان لے جایا گیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ شیخ مجیب کے قاتلوں نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے سے قبل چٹاگانگ میں موجود ایک اندھے حافظ قرآن جو اپنی روحانی طاقتوں کے حوالے سے مشہور تھے، سے ”خصوصی دعا“ لی۔ ان حافظ نے انہیں ایک تعویز بھی دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر حافظ صاحب نے یہ بھی ہدایت دی کہ: ”چاہے کچھ بھی کرو، مگر اس بات کا دھیان رہے کہ اسلام کو بنگلہ دیش میں کوئی خطرہ لاحق نہیں ہونا چاہیے“۔

افراسیاب ہاشمی صاحب مزید کہتے ہیں کہ : ڈھاکہ میں موجود میری رہائش گاہ پر گفتگو میں مجھے ایک صنعت کار نے عجیب واقعہ سنایا ۔

اگست 1975 ءمیں کراچی کے دورے کے دوران ایک رات وہ اپنے دوست کے ہاں ساحل سمندر پر واقع ایک ہوٹل میں عشائیے پر مدعو تھے۔ ایک بزرگ بابا جی کہ جو اپنی روحانی قوتوں کے لیے مشہور تھے، بھی اس محفل میں شریک تھے۔ یہ عشائیہ رات گئے تک چلتا رہا۔ جب کسی نے کہا کہ نصف شب کا وقت ہے تو وہ بابا جی بڑبڑائے، ”مجیب گیا! مجیب گیا!“۔ چند ہی گھنٹے بعد یہ خبر ملی کہ شیخ مجیب الرحمن کو قتل کردیا گیا ہے۔یہ واقعہ یوم آزادی 14 اگست کا ہے۔ شیخ مجیب الرحمن 15 اگست کو ہندوستان کے یوم آزادی کے دن علی الصبح قتل ہوا ۔

شیخ مجیب کے اکلوتے نواسے اور موجودہ بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد کے بیٹے ، سجیب واجد نے ایک یہودی عورت سے شادی کی ہے اور امریکہ میں رہائش پذیر ہے۔ یہ اپنی جان کے خطرے کے باعث امریکہ میں ہی رہتا ہے اور کبھی کبھار سخت سیکورٹی میں بنگلہ دیش کا دورہ کرتا ہے۔

................................

شیخ مجیب کے دیگر ساتھیوں کا انجام:

شیخ مجیب کو تو پاکستان سے غداری کی عبرتناک سزا خود فطرت نے دی، مگر قدرت نے اس کے قریبی ساتھیوں کو بھی نہ بخشا کہ جو پاکستان توڑنے میں اس کے ساتھ ملوث تھے۔

شیخ مجیب کے قتل کو ابھی تین ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ بنگلہ دیش کے پہلا وزیراعظم اور شیخ مجیب کے دیرینہ ساتھی تاج الدین احمد کہ جس نے پاکستان توڑنے کے سلسلے میں ہندوستان سے 60 ءکی دہائی کے آخر میں مدد طلب کی تھی، جیل میں اپنے سا تھیوں سمیت بے دردی سے قتل کردیا گیا۔

مجیب کے قتل کے بعد اس کے چار اہم ترین قریبی ساتھی کہ جو بنگلہ دیش میں اعلیٰ ترین حکومتی عہدوں پر بھی فائز تھے ،کو پکڑ کرجیل میں ڈال دیا گیا۔ ان افراد میں تاج الدین احمد، سید نذر السلام، منصور علی اور قمر الزمان شامل تھے۔ تاج الدین بنگلہ دیش کا پہلا وزیراعظم تھا، منصور علی بھی سابق وزیراعظم رہ چکا تھا، سید نذرالسلام نائب صدر رہ چکا تھا، اور قمر الزمان مجیب کے قریبی رازداروں میں سے تھا۔ تاج الدین اور نذر السلام ایک کوٹھڑی میں بند تھے، جب کہ منصور علی اور قمر الزمان دوسری کوٹھڑی میں۔ ان کا عبرتناک انجام یوں ہوا کہ پہلے سب کو ایک ہی کوٹھڑی میں لے جایا گیا اور پھر خودکار ہتھیاروں سے انہیں بھون دیا گیا۔ ان میں سے تین تو موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔ تاہم تاج الدین کہ جسے پیٹ اور ٹانگ میں گولیاں لگیں ، خون کے ضائع ہونے کے سبب ایک سست موت مرا۔ متصل کوٹھڑی میں موجود قیدیوںکا کہنا ہے کہ انہیں تاج الدین کے درد سے کراہنے، سسکنے اور پانی مانگنے کی آوازیں اسکے مرنے تک آتی رہیں۔

....................

جنرل ضیاءالرحمن کا انجام:

جنرل ضیاءالرحمن 1977 ءسے 1981 ءتک بنگلہ دیش کا صدر رہا ۔جنرل ضیاءالرحمن 71 ءمیں پاکستان فوج میں میجر کی حیثیت سے چٹاگانگ میں اپنے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ مگر اس نے اپنے حلف سے غداری کی اورپاکستان دشمنوں کے ساتھ ملکر پاکستان فوج کے خلاف ہی ہتھیار اٹھا لیے۔ قدرت نے ضیاءکو بھی اس جرم کی عبرتناک سزا دی۔

اتفاق دیکھیئے کہ ضیاءالرحمن چٹاگانگ کے اسی سرکٹ ہاﺅس میں قتل ہوا کہ جہاں اس نے پاکستانی فوج سے غداری کرکے 1971 ءمیں بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کیا تھا۔

ضیاءالرحمن کے وحشیانہ قتل سے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی لاش کافی وقت تک فرش پر بے یارو مددگار پڑی رہی۔ لیفٹیننٹ کرنل مہتاب السلام کہ جو ضیاءکا ذاتی طبیب تھا، نے ضیاءکی موت کی تصدیق تو کردی مگر اس کی لاش سے متعلق کچھ نہ کیا۔اسکی اپنی جماعت کے رہنماﺅں، چٹاگانگ کے کمشنر اور سول سروس اور پولیس کے اعلیٰ افسران اور بحریہ کے سربراہ نے ضیاءالرحمن کی لاش کو تو زمین پر پڑا دیکھا، مگر کسی نے اسے اٹھاکر پلنگ پر ڈالنے کی زحمت تک نہ کی اور نہ ہی اس کی لاش کو محفوظ بنانے کے سلسلے میں کوئی اقدام اٹھایا۔ انہوں نے لاش کو فرش پر یونہی پڑا رہنے دیا گویا وہ کوئی غلاظت کی پوٹلی ہو۔

جنرل ضیاءالرحمن کا بیٹا عرفات رحمن بھی جوانی میں ہی مر گیا۔ اس کا دوسرا بیٹا طارق رحمن لندن میں جلا وطنی کی زندگی گزاررہا ہے۔

........................

ذوالفقار علی بھٹو کا انجام:

اس سانحے میں ملوث مغربی پاکستان کے اس وقت کے طاقت کے ایوانوں میں موجود ذمہ داران کا انجام بھی مختلف نہ تھا۔

71 ءکا ذکر کرتے ہوئے کئی بنگلہ دیشی طنزاً کہتے ہیں:

”ہمارا بابائے قوم شیخ مجیب الرحمن نہیں، درحقیقت ہمارا بابائے قوم ذوالفقار علی بھٹو ہے کہ جس نے پاکستان توڑا“۔

ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی میں 14 اپریل 1979 ءکو پھانسی ہوئی۔ اس کا بڑا بیٹا مرتضیٰ بھٹو بھی کراچی میں پولیس مقابلے میںقتل ہوا ۔ اس وقت اس کی بہن بینظیر بھٹو پاکستان کی وزیراعظم تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دوسرے بیٹے شاہنواز کو جولائی 1985 ءمیں زہر دے دیا گیا۔ بھٹو کی بیٹی اور پاکستان کی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو 2007 ءمیں راولپنڈی میں دہشت گردی کا نشانہ بنی۔ مرتضیٰ بھٹو کا بیٹا ذوالفقار علی بھٹو جونیئر امریکہ میں رہتا ہے اور وہ ایک ہم جنس پرست اورہیجڑا بن چکا ہے اور امریکہ کی سڑکوں پر ناچ ناچ پر نشان عبرت بنا ہوا ہے۔ بھٹو کی بیوی نصرت بھٹو آخری عمر میں ذہنی توازن کھو بیٹھی اور بھٹو کے داماد آصف علی زرداری نے اس کو گھر میں قید رکھا یہاں تک کہ اسے موت آگئی۔تمام قرائن اور شہادتیں اس بات کی بھی گواہی دیتی ہیں کہ بینظیر کے قتل اور اس سے پہلے اسکے بھائی مرتضیٰ کے قتل میں بھٹو کے داماد آصف علی زرداری کا ہاتھ ہے۔ بھٹو کا نواسا بلاول اب سیاست میں جگہ بنانے کی کوشش کررہا ہے مگر اس کے جسم کو بھی کئی بیماریاں لاحق ہیں اور جن کی وجہ سے نہ وہ شادی کرسکتا ہے اورطبیعت میں بھی ہیجڑا پن ہے۔

فروری 1974 ءمیں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے دوران ، کہ جس میں مجیب بھی مدعو تھا، شفقت کاکاخیل کہ جو اس کانفرنس مترجم کے فرائض سرانجام دے رہے تھے، بھٹو اور مجیب کی ہونیوالی گفتگو یوں بیان کرتے ہیں:

بھٹو نے مجیب سے کہا: ”مجیب اب تو تم بنگا بدھو بن گئے ہو۔ بہت بڑے لیڈر بن چکے ہو“۔

مجیب نے جواب دیا: ”نہیں حضور، یہ سب تو آ پکی مہربانیوں کا نتیجہ ہے“۔

بھٹو نے پھر طنزاً کہا: ”تم بہت بے بس اور لاچار لیڈر ہو، اندرا گاندھی کی اجازت کے بغیر تم کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے“۔

مجیب نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا: ”حضور! یوں میری توہین تو نہ کریں۔ یہ بات آپ بھی جانتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہوا اس کے ذمہ دار آپ ہیں“۔

........................

پاکستانی عسکری ذمہ داران کا انجام:

یحییٰ خان کا انجام بھی عبرتناک ہوا۔ آج تک تاریخ اس کو پاکستان کے غدار اور ایک بدکردار انسان کے طورپر جانتی ہے۔فوج سے ذلت کے ساتھ ریٹائرمنٹ کے بعد یحییٰ خان جو کہ پاکستان کا سابق صدر بھی رہا تھا، اپنے گھر میں نظر بند کردیا گیا۔ بعد میں اسے فالج ہوا اور ایک طویل علالت گزارنے کے بعد مرا۔

بریگیڈیئر عبدالرحیم صدیقی کے مطابق: ”آخری بار جب میں نے یحییٰ خان کو اس کے بھائی آغا محمد علی کے گھر پر لاہور میں دیکھا تو وہ بستر مرگ پر ساکت و صامت پڑا تھا۔ اس کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں اور وہ خالی نظروں سے خلاءمیں گھوررہا تھا۔ وہ اگست 1979 ءمیں مرا“۔

افراسیاب ہاشمی کہتے ہیں کہ:2012 ءکے اوائل میں ایک گفتگو کے دوران معروف پاکستانی اداکارہ شبنم اور انکے شوہر رابن گھوش نے مجھے بتایا کہ جب بھی ان کا یحییٰ خان کے گھر کے پاس سے گزر ہوتا، جہاں وہ اپنی زندگی کے آخری ایام گزار رہا تھا، تو وہ چھت پر کھڑا ہوا ملتا، راہ گیر اسکا مذاق اڑاتے، نعرے لگاتے نظر آتے۔۔۔

لیفٹیننٹ جنرل نیازی نے بھی بعد ازاں سماجی مقاطہ میں زندگی گزاری۔ نیازی بھارتی قید سے چھو ٹنے والا آخری فوجی تھا کہ جس نے 30 اپریل 1974 ءکو واہگہ بارڈر پار کیا۔ کرنل ایس پی سلنکی کے مطابق حکومت پاکستان کی طرف سے صرف صوبائی وزیر عبدالخالق، نیازی کے استقبال کیلئے سرحد پر موجود تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جب کبھی نیازی آرمی میس میں جاتا، فوجی افسران اس سے دور دور رہتے اور گفتگو سے احتراز کرتے۔ آج بھی فوج میں اس کو ذلت کے ساتھ ہی یاد کیا جاتا ہے۔

ائر مارشل رحیم خاں جو کہ 1971 ءمیں پاک فضائیہ کے سربراہ تھے ،نے اپنے زندگی کے آخری ایام خود ساختہ جلا وطنی میں امریکہ میں تنہا کاٹے۔

افراسیاب ہاشمی صاحب کہتے ہیں کہ : میں 1987-1991 ءکے دوران واشنگٹن میں بطور تھرڈ سیکرٹری فرائض سرانجام دیا کرتا تھا، تو ایک روز ہمیں ائر مارشل رحیم خان کی موت کی اطلاع ملی۔ اس وقت امریکہ میں پاکستانی سفیر ایئر چیف مارشل (ریٹائرڈ) ذوالفقار علی خان تھے۔ انہوں نے تمام افسران کو ہدایت دی کہ وہ رحیم خان کے جنازے میں شمولیت اختیار کریں۔اگر وہاں پاکستانی سفارتخانے کے افسران موجود نہ ہوتے تو اس جنازے میں سوائے انکی بیٹی کے کوئی بھی نہ ہوتا۔ہم نے مرحوم کو واشنگٹن سے دور ایک ویرانے میں گمنام قبرستان کی ایک گمنام قبر میں سپرد خاک کردیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گاندھی خاندان کا انجام:

برصغیر میں مسلمانوں کے ازلی و ابدی دشمن ہندو مشرک ہی ہیں۔ہندوﺅں کی مسلمانوں سے دشمنی کی تاریخ 712 ءسے شروع ہوتی ہے ۔ یہ ہزار سالہ مسلم غلامی کا بغض تھا کہ جس کی وجہ سے سقوط ڈھاکہ کے بعد اندرا گاندھی نے بھارتی پارلیمان میں بڑے تکبر سے اعلان کیا کہ ”آج ہم نے مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے۔“ اندرا ہی اس سازش و سانحے کی اصل سرغنہ تھی۔ آئیے اندرا کے خاندان کا انجام دیکھتے ہیں:

اندرا گاندھی کا انجام بھی باقی دشمنوں کی طرح انتہائی عبرتناک ہوا۔اندرا کو اس کے اپنے ہی سکھ محافظین نے اس کے اپنے ہی گھر پراکتوبر 1984 ءمیں گولیوں سے بھون ڈالا۔

اندرا گاندھی کا جواں سال بیٹا سنجے گا ندھی صرف 33 برس کی عمر میں نئی دہلی میں جہاز کے حادثے میں 1980 ءمیں ہلا ک ہوگیا۔ سنجے گاندھی نے ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کی غرض سے جبراً نسبندی کی مہم کا آغاز بھی کیا تھا۔ اس مہم کے دوران سینکڑوں خاندانوں پر بلوے ہوئے، کئی مسلم خواتین کی آبروریزی ہوئی کہ جن میں سے چند ایک اہی خبروں کی زینت بن سکے، اکثر سے متعلق تو بھارتی میڈیا خاموش ہی رہا۔

اندرا گاندھی کا دوسرا بیٹا راجیو گاندھی کہ جو بعد میں بھارت کا وزیراعظم بھی بنا، 1991 ءمیں محض 46 برس کی عمر میں تامل ٹائیگرز کے خودکش حملے میں جہنم واصل ہوا۔

بطور ایک براہمن ہندو کے پاکستان کو دولخت کرکے اندرا گاندھی نے وہی کیا جس کی کہ ایک ہندو سے توقع کی جاسکتی ہے۔ یقینانہ تو وہ اتنی ذہین تھی اور نہ ہی ہندوستان اتنا طاقتور کہ وہ اپنے مقصد کے حصول میں اتنی آسانی سے کامیاب ہوجاتا۔ اس ناپاک مقصد کیلئے اسے واشنگٹن، تل ابیب، ماسکو سمیت دیگر ممالک کی بھرپور حمایت و امداد حاصل تھی۔

31 اکتوبر 1984 ءمیں اندرا کے قتل کے فوراً بعد ہی ہندوستان میں سکھوں کے خلاف بلوے شروع ہو گئے ۔ اطلاعات کے مطابق 2000 سکھ ایک ہی دن میں کاٹ ڈالے گئے۔ کئی سکھوں نے اپنی جان بچانے کیلئے سر اور داڑھیاں مونڈ والیں اور کئی سکھ خاندانوں نے تو نئی دہلی میں پاکستانی سفارتکاروں کی رہائش گاہوں میں پناہ لی۔ جب ایک سکھ وفد نے راجیو گاندھی کو ان سکھ خاندانوں کی ابتلاءسے متعلق آگاہ کیا تو اس نے تمسخرانہ انداز میں کہا: ”جب ایک تناور درخت گرتا ہے تو چیونٹیاں اس کے نیچے ضرور کچلی جاتی ہیں“۔

بھٹو اور مجیب کی طرح اندرا گاندھی کا پورا خاندان بھی عبرتناک انداز میں ہلاک ہوا اور تقریباً پورے خاندان کی ہی جڑ کٹ گئی۔

............................

بھارتی عسکری قیادت کا انجام:

لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کہ جو 71 ءمیں بھارت کی مشرقی کمانڈ کا کمانڈر تھا، بھارت نے اس سکھ جرنیل کی وفاداری کا یہ صلہ دیا کہ 1984 ءمیں سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل کی شدید بے حرمتی کی اور سکھوں کا قتل عا م کیا۔ جنرل اروڑا اس واقعے پر سخت برہم تھا، مگر سوائے خون کے گھونٹ پینے کے کچھ نہ کرسکا۔ جس بھارت کیلئے اس نے جنگیں لڑیں اسی بھارت نے اسے سور کی طرح ذلیل کردیا۔

میجر جنرل شا بیگ سنگھ کہ جس نے 1971 ءمیں مکتی باہنی کو ٹریننگ دی تھی،بعد ازاں خالصتان کی تحریک میں شامل ہوگیا اور بھارت کے خلاف اسی طرح جنگ کرنے لگا جیسے اس نے مکتی باہنی کو پاکستان کے خلاف جنگ کیلئے تیار کیا تھا۔ گولڈن ٹیمپل میں یہ اپنی ہی فوج کے خلاف لڑتا ہوا بے دردی سے قتل ہوا۔

جنرل ارن ودیا کہ جو 71 ءکی جنگ میں بھارتی فوج کے آرمرڈ بریگیڈ کی قیادت کررہا تھا اور بعد میں بھارت کا فوجی سربراہ بھی رہا ، کا انجام بھی انتہائی عبرتناک ہوا۔

10 اگست 1986 ءکو اپنی ریٹائرمنٹ کے صرف چھ ہی ماہ بعد یہ جنرل بھارتی شہر پونے میں دن دھاڑے قتل کردیا گیا۔د و سکھ حملہ آوروں ”سکھا“ اور ”شندا“ نے اسے گولڈن ٹیمپل پر حملے کی انتقام میں قتل کردیا۔موٹر سائیکل سوار حملہ آوروں نے جنرل ودیا کی گاڑی پر فائرنگ کی ،گولیاں اس کی کھوپڑی میں لگیں جس کے باعث وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔ حملہ آور وں نے اسے قتل کرنے کے بعد باقاعدہ خوشیاں منائیں اور مٹھائی تقسیم کی۔

لیفٹیننٹ جنرل کلدیپ سنگھ برار 71 ءکی جنگ میں اس پہلی بٹالین کی کمان کررہا تھا کہ جو 16 دسمبر کو ڈھاکہ شہر میں داخل ہوئی ۔ بعد ازاں جنرل برار نے سکھوں کے خلاف ”آپریشن بلیو سٹار“ کی قیادت بھی کی تھی۔اطلاعات کے مطابق اس کے افسر اور بھارتی فوج کے سربراہ ارن ودیا(کہ جس کا ذکر ہم اوپر کرچکے ہیں) نے اسے سکھوں کے مقدس گرو ”گرو ارجن دیو“ کے ”یوم شہادت“ پر گولڈن ٹیمپل پر حملے کا حکم دیا تھا اور ساتھ ہی یہ ہدایت بھی دی کہ زیادہ سے زیادہ سکھوں کو مارا جائے تاکہ سکھوں کو ایسا سبق سکھایا جاسکے کہ جسے وہ کبھی نہ بھولیں۔

جنرل برار بھارتی فوج سے ریٹائر ہوچکا ہے ، مگر آج بھی اسے جان کا خطرہ لاحق ہے اور وہ اپنے گھر پر ایک نظر بند قیدی کی سی زندگی گزارتا ہے۔ اس پر کئی قاتلانہ حملے بھی ہوئے کہ جن میں ایک ستمبر 2012 ءمیں لندن میں بھی ہوا۔

........................................

9/11 کے بعد فرانسیسی وزیر خارجہ ودرن نے اپنے دورئہ پاکستان کے دوران اس وقت کے پاکستانی وزیرخارجہ عبدالستار سے ہونیوالی ملاقات میں کہا تھا:

”جب پاکستان شمال کی طرف دیکھتا ہے تو مسلم دنیا شمال کی جانب دیکھتی ہے، اور جب پاکستان جنوب کی جانب دیکھتا ہے تو مسلم دنیا جنوب کی جانب رخ کرلیتی ہے“۔

جو پاکستان کو جانتے ہیں، انہیں یہ معلوم ہے کہ پاکستان محض ایک ملک کا نام ہی نہیں بلکہ یہ ایک عظیم نظریہ ہے۔ یہ سا یہءخدائے ذوالجلال میں ہے۔ اس پاکستان کو چوٹ تو لگ سکتی ہے، مگر جو تقدیر اللہ اور اسکے رسولﷺ نے اس مدینہءثانی کے نصیب میں لکھ دی ہے، وہ تبدیل نہیں ہوسکتی۔ پاکستان ان شاءاللہ قائم و دائم رہے گا۔ صرف لوگ خوش نصیب اور بدنصیب ہونگے۔ پاکستان کے حکمرانوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے، بھٹو اور مجیب بدنصیب تھے کہ انہیں یہ بات سمجھ نہ آئی۔

آج پاکستان ایک مرتبہ پھر اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ جب شیخ مجیب اور بھٹو جیسے کئی سیاستدان اس ملک پر حکمرانی کررہے ہیں۔ پہلے ایک مکتی باہنی تھی آج کئی مکتی باہنیاں ہیں۔ پاکستان کی فوجی قیادت کو سقوط ڈھاکہ کے سانحے سے سبق سیکھنا چاہیے کہ وہ غلطیاں نہ دہرائیں کہ جو اس وقت کی فوجی قیادت نے کی تھیں۔ تکبر، جہالت، بدکرداری اور خوشامدی مشیروں کا مجموعہ کسی بھی حکمران کیلئے ہلاکت اور تباہی کا باعث ہوتا ہے۔ سانحہ 71 ءمیں تمام کرداروں کے ذاتی کردار بھی انتہائی غلیظ اور ناپاک تھے۔ تقریباً تمام ہی زانی، شرابی اور بدکار تھے۔ یہی وہ لعنت تھی کہ جس کی وجہ سے تاریخ میں وہ آج تک گالیوں اور فحش کلمات سے یاد کیے جاتے ہیں۔ اس پاک سرزمین سے خیانت نہ تاریخ معاف کرتی ہے، نہ فطرت!

٭٭٭٭٭٭٭

 
 
 
 

یہ ہماری اہم ترین گفتگو ہے آج کے حالات کے بارے میں۔۔ جھوٹ مکر اور فریب کا پردہ چاک کرتے ہوئے، قوم کو عزت اور غیرت سے جینے کا راستہ بتا رہے ہیں ہے۔۔ باقی قوم اور اس کے حکمرانوں کا نصیب۔۔ 


 
 

Part 3

یہ ہماری اہم ترین گفتگو ہے آج کے حالات کے بارے میں۔۔ جھوٹ مکر اور فریب کا پردہ چاک کرتے ہوئے، قوم کو عزت اور غیرت سے جینے کا راستہ بتا رہے ہیں ہے۔۔ باقی قوم اور اس کے حکمرانوں کا نصیب۔۔ 

 
 

 

If this does not wake up the leadership before the crisis, nothing else will....

https://www.youtube.com/watch?v=WMdPLHMnZ3U&feature=youtu.be

 

Last & final part 4.

If this does not wake up the leadership before the crisis, nothing else will....

 

 

 

No comments:

:)) ;)) ;;) :D ;) :p :(( :) :( :X =(( :-o :-/ :-* :| 8-} :)] ~x( :-t b-( :-L x( =))

Post a Comment