ایک بات جو پی ٹی آئی کے وفاداروں کو سمجھنی چاہیے کہ چار ماہ کا عرصہ بھی
بہت ہوتا ہے اگر نصب العین واضح ہو، مشن کا تعین ہو، مضبوط جانثار ساتھی
ہوں اور اللہ کا فضل شامل حال ہو۔
حکومت وقت ہر کام ایک ساتھ کرتی ہے، آگے پیچھے نہیں۔۔۔
پی ٹی آئی کی حکومت کو چار ماہ سے کچھ زائد ہونے کو آرہا ہے۔ ایک جانب ان کے وفادار یہ کہتے ہیں کہ پچھلے تیس سال کا گند ہے، صاف کرتے وقت لگے گا، مگر دوسری ہی جانب چار ماہ میں اپنی ’’حیرت انگیز کارکردگی‘‘ بھی گناتے ہیں۔
ایک بات جو پی ٹی آئی کے وفاداروں کو سمجھنی چاہیے کہ چار ماہ کا عرصہ بھی بہت ہوتا ہے اگر نصب العین واضح ہو، مشن کا تعین ہو، مضبوط جانثار ساتھی ہوں اور اللہ کا فضل شامل حال ہو۔
حکومت وقت ہر کام ایک ساتھ کرتی ہے، آگے پیچھے نہیں۔۔۔
حکومت میں ہزار ہا کام ایسے ہوتے ہیں کہ جن کیلئے نہ پارلیمنٹ سے قانون سازی کی ضرورت ہوتی ہے، نہ سینیٹ سے پاس کرانے ہوتے ہیں، نہ آرڈیننس کی ضرورت ہوتی ہے، اور نہ ہی عدالتی اجازت کی۔
اگر مقصد واضح ہو اور کام آتا ہو تو قابل حکمران صرف اپنے احکامات سے ہی ملک کا نصیب تبدیل کرسکتا ہے۔
حکومت میں درجنوں وزارتیں اور وزیر اور سینکڑوں کا عملہ اسی لیے ہوتا ہے کہ ہر وزارت اور ہر شعبہ بیک وقت کام کرکے قوم کی حالت تبدیل کرے۔ یہ نہیں ہوتا کہ پہلے معیشت ٹھیک کریں گے، پھر امن و امان کی صورتحال اور آخر میں نظریہء پاکستان کو دیکھا جائے گا۔
مثال کے طور پر اگر وزیراعظم صرف ایک حکم جاری کردے کہ وہ تمام تعلیمی ادارے کہ جہاں اردو زبان کو رسوا کیا جاتا ہے، بند کردیئے جائیں گے، یا ان کے مالکان کو گرفتار کرلیا جائے گا، تو راتوں رات ہماری شناخت اردو زبان ایک مرتبہ پھر زندہ ہونا شروع ہوجائے گی۔
نظریہء پاکستان اور ہماری روحانی اساس اسلام کو ترجیحات کی فہرست میں سب سے آخر میں نہیں رکھا جاسکتا۔ معیشت ضرور درست کریں، درخت بھی لگائیں، یونیورسٹی بھی بنائیں، مگر صرف آپ کا ایک حکم ملک میں اردو زبان کی حفاظت اور اس کے احیاء کا آغاز کرسکتا ہے۔
ہمیں ہر حال میں اردو زبان کی حفاظت کرنی ہے۔ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ اور عزت ہر حال میں دلوانی ہے۔ حکومتی اور عدالتی کام کوئی ایسی راکٹ سائنس نہیں ہے کہ جو اردو میں نہیں کی جاسکتی۔ زبانیں بھی پھلدار درختوں کی ہوتی ہیں، ان کی آبیاری کرو تو پھلتی پھولتی ہیں، ورنہ سوکھ کر مرجاتی ہیں۔
ہمارے اکثر نجی تعلیمی اداروں میں توخاص طور پر ایک سازش کے تحت اردو کو رسوا کیا جاتا ہے۔ اردوبولنے پر بچوں کو جرمانے ہوتے ہیں، بے عزت کیا جاتا ہے، اور ہمارے تعلیمی دھارے سے اردو کو اس طرح نکال دیا گیا ہے کہ جیسے یہ ہماری ثقافت کی دلہن نہیں، بلکہ بازار کی کوئی طوائف ہو۔
چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب سے بھی میں یہ درخواست کروں گا کہ آپ بے شک قوانین تو تبدیل نہیں کرسکتے، مگر عدالتی نظام کو یہ حکم تو دے سکتے ہیں کہ تمام تر کارروائی اور احکامات صرف اردو زبان میں لکھے جائیں۔ اس کیلئے تو کسی قانون سازی کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
اردو کی حفاظت کی یہی تاکید اور تنبیہ ہم جنرل قمر باجوہ کو بھی کریں گے۔ پاک فوج کو اب انگریزی زبان کو ترک کرکے اپنے تمام تر معاملات، احکامات اور انتظامات اردو زبان میں کرنے چاہئیں۔
اردو کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ’’آرمی گریویارڈ‘‘ لکھا جائے، ’’عسکری قبرستان‘‘ لکھنا ضروری ہے۔
سرکاری سطح پر قانوناً ’’رومن اردو‘‘ لکھنا ممنوع قرار دیا جانا چاہیے، بلکہ جرم تصور کیا جانا چاہیے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے رومن اردو کو بہت زیادہ فروغ ملا ہے، کہ جس نے اردو رسم الخط کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
جس طرح حکومت کی ذمہ داری اسلام کا دفاع کرنا ہے، اسی طرح قومی زبان کا دفاع بھی، دفاع پاکستان ہی ہے۔
چار ماہ میں ہم نے یہ بھی دیکھ لیا کہ جو غلاظت پارلیمان میں بیٹھی ہے، وہ کوئی بھی مثبت قانون سازی نہیں ہونے دیگی، اور نہ ابھی تک ہوئی ہے۔ صرف ایک بل شراب کے خلاف پیش کیا گیا، اور سارے شرابیوں نے ملکر اسے رد کردیا۔
سینیٹ میں بھی زرداری اور نواز کے ڈاکو ہی بیٹھے ہیں۔
وزیراعظم کہتے ہیں کہ ہم نے ایک لاکھ سے زائد شکایات کا ازالہ کیا۔ سوال یہ ہے کہ ایک لاکھ شکایات وزیراعظم تک پہنچانے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟
اس کا مطلب تو بالکل واضح ہے کہ مقامی سطح پر نہ حکومت کام کررہی ہے، نہ کوئی نظام ہے، نہ عدل ہے۔
پی ٹی آئی کی حکومت نے اب تک اپنا کوئی پانچ سالہ منصوبہ بندی کا منشور بھی پیش نہیں کیا ہے۔ نہ حکومت کو معلوم ہے، نہ قوم کو کہ پانچ سال کے بعد یہ حکومت اس ملک و قوم کو کہاں پہنچانا چاہتی ہے۔ جب مقصد اور ہدف ہی واضح نہ ہو، تو سفر کا کیا جواز؟؟؟
یہ بات بھی اب بالکل واضح ہوچکی ہے کہ زرداری اور نواز شریف تلواریں نکال کر اب پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف اعلان جنگ کرچکے ہیں۔ پارلیمان میں پی ٹی آئی کی اکثریت کوئی بہت زیادہ نہیں ہے۔ بیس تیس ممبران ادھر ادھر ہوگئے تو حکومت کا تختہ الٹ جائے گا۔
اب پی ٹی آئی کی حکومت کے پاس اور کوئی راستہ بچا ہی نہیں ہے۔ یا تو سختی اور مضبوطی سے ہاتھ ڈال کر ان چوروں اور ڈاکوؤں کو جیل بھیجے، یا ان کو کھلا چھوڑ کر یہ خطرہ مول لیں کہ یہ کسی بھی وقت اپنی دولت، طاقت اور تعلقات استعمال سے حکومت کا تختہ الٹ کر کھیل ہی پلٹ دینگے۔
اس نظام کی غلاظت اور تعفن تو سب نے اسی وقت ہی دیکھ لیا کہ جب شہباز شریف جیسا عالمی ڈاکو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سربراہ بن کر قومی اداروں کا احتساب کرنے چلا ۔ ہم ہزار دفعہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ اس نظام، آئین اور جمہوریت میں رہتے ہوئے اس قوم کے نصیب میں صرف ذلت و رسوائی ہی آئے گی۔
خارجہ پالیسی کے حوالے سے ابھی تک حکومت متضاد اور مذبذب اشارے دے رہی ہے۔ کابل حکومت کی تمام تر حرام کاریوں اور دشمنی کے باوجود اس کے خلاف کوئی مضبوط قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ بھارت کی طرف سے بذات خود مودی کی زبان سے دھمکیوں کے باوجود اسلام آباد میں خاموشی ہے۔
بہت زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ CPEC اور چین سے قرضے لینے کی وجہ سے ہم سنکیانگ کے مسلمانوں پر ہونیوالے شدید ترین ظلم پر بھی اندھے، گونگے اور بہرے بن کر بیٹھ گئے ہیں۔ حالانکہ پاکستان پورا اختیار رکھتا ہے کہ چین سے اس معاملے پر بھرپور بات کرے کہ جیسا کہ ماضی میں بھی جنرل ضیاء کے دور میں ہم کرچکے ہیں۔
یہ پاکستان کیلئے باعث شرم بھی ہے اور امت رسولﷺ کے ساتھ غداری بھی کہ ہم صرف CPEC کے معاہدوں کی وجہ سے کروڑوں ’’اوغور‘‘ چینی مسلمانوں کو ظلم و استبداد کی چکی تلے پسنے دیں۔ پانچ سو سے زائد تو صرف پاکستانی ایسے ہیں کہ جن کی چینی بیویوں کو اغواء کرکے اسلام چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اور حکومت خاموش ہے!
علامہ اقبالؒ نے ہند کے ملاؤں کے بارے میں فرمایا تھا:
قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے
اسے کیا جانیں یہ دو رکعت کے امام
مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ شعر پاکستان کے دو ٹکے کے سیاستدانوں پر بھی اسی طرح صادق آتا ہے کہ جیسے فرقہ پرست تنگ نظر ملاؤں پر۔
کیا پی ٹی آئی کی قیادت وہ نگاہ بلند، سخن دلنواز اور جاں پرسوز قیادت ہے کہ جس کا اس پاک سرزمین سے وعدہ کیا گیا تھا؟؟؟
ہر گز نہیں ۔۔۔!!!
ہم ان کو پورا موقع دینگے، نصیحت بھی کررہے ہیں، خوبیوں کی تعریف اور خامیوں پر تنقید بھی کی جارہی ہے، مگر جنہوں نے امت کی قیادت کرنی ہے، وہ شیر دلیر اور لوگ ہونگے۔
https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/1977905128930955?__tn__=K-R
No comments:
Post a Comment