Monday 21 January 2019

January 21st, 2019


زرداری، نواز اورشہباز پر صرف خیانت اور چوری کے مقدمات کیوں بنائے ہیں؟ ان پر اصل مقدمات تو قتل اور غداری کے بنتے ہیں۔

ماڈل ٹاؤن ہو، راؤ انوار ہو، مرتضیٰ بھٹو کا قتل ہو، عزیز بلوچ ہو، پاک فوج میں بغاوت کرانی ہو، میموگیٹ ہو، بینظیر کا قتل ہو۔۔۔ اصل میں تو یہ مقدمات ہیں


سی ٹی ڈی کے بارے میں ایک بات جان لیں کہ مجموعی طور پر اس محکمے نے دہشت گردوں کے خلاف بہت شاندار کام کیا ہے، خاص طور پر ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے خلاف۔
بیشک ساہیوال کا واقعہ ایک سانحہ ہے، مگر بہتر یہی ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کا انتظار کیا جائے۔

سی ٹی ڈی کا محکمہ شہباز شریف کا بنایا ہوا ہے، اور یقیناًاس میں شہباز شریف کے وفادار ہونگے، مگر جیسا کہ کہا مجموعی طور پر اس محکمے نے پاکستان اور خاص طور پر پنجاب سے مذہبی دہشت گردی کے خاتمے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ کالی بھیڑیں ہر محکمے میں ہوتی ہیں۔

عوام کو تو کیا کہیے، میں تو ان صحافیوں اور سیاستدانوں کی عقلوں پر ماتم کررہا ہوں کہ جو بلا تحقیق اور جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بغیر ہی، حکومت کے استعفے اور سی ٹی ڈی کے افراد کی پھانسیوں کا مطالبہ کررہے ہیں۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ اس سانحے کے پیچھے شہباز شریف کے وفادار ہوں؟

یہ بات یاد رکھیں کہ شہباز شریف بدنام زمانہ ہے پولیس مقابلوں اور ماورائے عدالت قتل کروانے میں۔
سب جانتے ہیں کہ مجھے جمہوریت اور پی ٹی آئی کی حکومت سے کوئی ہمدردی نہیں ہے، مگر زرداری، نواز، شہباز جیسے ڈاکو اپنے آپ کو بچانے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔

پی ٹی آئی کی حکومت کی سب سے بڑی حماقت اور جہالت ہی یہی ہے کہ انہوں نے زرداری، نواز اور شہباز جیسے ڈاکوؤں پر بہت ہی ہلکا ہاتھ ڈالا ہے۔ اسی وجہ سے اب یہ سارے ڈکیت اکٹھے ہو کر جوابی وار کررہے ہیں اور حکومت بوکھلائی ہوئی نظرآرہی ہے۔
ان سب کو اندرکریں۔۔۔۔

زرداری، نواز اورشہباز پر صرف خیانت اور چوری کے مقدمات کیوں بنائے ہیں؟ ان پر اصل مقدمات تو قتل اور غداری کے بنتے ہیں۔
ماڈل ٹاؤن ہو، راؤ انوار ہو، مرتضیٰ بھٹو کا قتل ہو، عزیز بلوچ ہو، پاک فوج میں بغاوت کرانی ہو، میموگیٹ ہو، بینظیر کا قتل ہو۔۔۔ اصل میں تو یہ مقدمات ہیں!!!

بہرحال یہ بات تو واضح ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت انتہائی کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے۔ ایم کیو ایم کو ساتھ ملانے کی وجہ سے بلدیہ فیکڑی اور کراچی میں ہونیوالی دہشت گردی کے کیس نہیں کھولے جاسکتے۔ مینگل کو ساتھ ملانے کی وجہ سے بلوچستان میں دہشت گردوں پر گرفت نہیں کی جاسکتی۔

ہم بار بار انتہائی مخلص نصیحت کررہے ہیں کہ حکومت کو فوری طور پر ملک میں معاشی اور جنگی ایمرجنسی لگانے کی ضرورت ہے۔ ایمرجنسی طاقت کے بغیر یہ سیاسی اور معاشی دہشت گرد کبھی بھی گھیرے میں نہیں لاجاسکتے۔ انگریزوں کا چھوڑا ہوا گلا سڑا نظام ہی اس دہشت گردی کا محافظ ہے۔

اگر عمران کی حکومت نے اسی گلے سڑے نظام کے ذریعے احتساب اور سیاسی و معاشی دہشت گردوں کی گرفت کرنے کی کوشش جاری رکھی، تو بہت جلد ملک میں یہ دہشت گرد اس قدر بغاوت و فساد و قتل و غارت برپا کریں گے کہ حکومت کا کھڑا رہنا ناممکن ہوجائے گا۔

بزرگوں نے ہمیشہ یہ نصیحت کی ہے کہ کبھی بھی وحشی درندے اور زہریلے سانپوں کو زخمی کرکے چھوڑا نہیں جاتا۔
سیاست میں بھی یہی قوانین نافذ ہوتے ہیں۔
دہشت گردوں پر یا تو مضبوط گرفت کریں یا ہاتھ نہ ڈالیں۔۔۔ زخمی کرکے چھوڑیں گے تو وہ پلٹ وار ضرور کریں گے۔

ایک بات بہت اچھی طرح سمجھ لیں کہ میڈیا نہ تو کوئی مقدس گائے ہے اور نہ ہی ریاست کا چوتھا ستون۔ یہ پرائیویٹ کاروباری ادارے ہیں کہ جو اب صحافتی طوائفوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ نہ ان کا کوئی نظریہ ہے، نہ انہیں ریاست کی پرواہ ہے، نہ دین کی۔
یہ ادارے ہی ’’میر جعفر‘‘ اور ’’میر صادق‘‘ ہیں۔

ملک میں دہشت گردی کے خلاف کوئی بھی مہم اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک کہ سیاست اور میڈیا میں موجود فسادیوں اور انارکی پھیلانے والے تبلیغاتی دہشت گردوں کے گلے میں رسہ نہ ڈالا جائے۔
ملک میں خوف و ہراس و مایوسی تبلیغاتی ہتھیاروں کے ذریعے پھیلائی جاتی ہے۔

جج کہتے ہیں کہ فوج کو سویلین معاملات میں دخل نہیں دینا چاہیے۔
اچھی بات ہے۔
اسی طرح سویلین اداروں کو بھی فوج کے جنگی معاملات میں دخل نہیں دینا چاہیے۔ اور نہ ہی فوج کو سویلین معاملات میں طلب کرنا چاہیے۔
سویلین حکومت پولیو کے قطرے خود کیوں نہیں پلوا لیتی؟ بیلٹ پیپر خود کیوں نہیں چھاپ لیتی؟ دہشت گردوں سے خود کیوں نہیں لڑ لیتی؟

ہماری سویلین حکومتوں اور عدالتوں کو ابھی تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ جنگیں اب سرحدوں پر نہیں شہروں میں لڑی جارہی ہیں۔ دشمن کے فوجی وردی پہن کر نہیں، سول کپڑوں میں پاک فوج پر حملہ آور ہورہے ہیں۔ دشمن کے فوجیوں سے کیسے نمٹنا ہے، یہ تمام تر اختیار فوج کا ہے، نہ کہ سول اداروں کا۔

ہماری آج کی جنگ ’’پانچویں نسل کی ہمہ جہتی جنگ‘‘ کہلاتی ہے۔ (5GW Hybrid War)۔
اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ اب خالصتاً دو فوجوں کے درمیان یہ روایتی جنگ نہیں ہے، بلکہ دشمن ہمارے ملک کے شہروں میں، غداروں کے ذریعے، مسلح جنگجوؤں کو بھیج کر، سیاسی و تبلیغاتی دہشت گردی کروارہا ہے۔

اگر پاکستان کے سول اداروں، حکومتوں اور عدالتوں نے ’’سول بالادستی‘‘ کی یہی جاہلانہ رٹ لگائے رکھی، تو ملک و قوم کا بیڑہ غرق ہو کر رہ جائے گا۔ جنگ کی نوعیت کو سمجھیں۔ دشمن سے کیسے لڑنا ہے اس کا فیصلہ سپہ سالار نے کرنا ہے، وزارت داخلہ اور سپریم کورٹ نے نہیں۔ ورنہ سب مارے جائیں گے!

جب پی آئی اے کا جہاز اڑنا ہو، تو سارا اختیار اور طاقت پائلٹ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ جہاز میں بیٹھے ہوئے وزیراعظم، سپریم کورٹ کا چیف جسٹس یا کوئی میڈیا کا نمائندہ کبھی بھی پائلٹ پر یہ رعب نہیں ڈالتا کہ جہاز کیسے اڑانا ہے، نہ سوموٹو لیا جاتا ہے، نہ ہی پائلٹ کے کام میں دخل دیا جاتا ہے۔
تو پھر سپہ سالار کے کام میں دخل کیوں؟؟؟

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/2003697883018346?__tn__=K-R

No comments:

:)) ;)) ;;) :D ;) :p :(( :) :( :X =(( :-o :-/ :-* :| 8-} :)] ~x( :-t b-( :-L x( =))

Post a Comment