Thursday 26 August 2021

August 26th, 2021

 افغانستان میں جمہوریت، آ مریت یا امارت

 


 

افغانستان میں جمہوریت، آ مریت یا امارت


تحریر: سید زید زمان حامد


آج ہم اس سیاسی حکومت اور نظام پر روشنی ڈالیں گے جو طالبان، امارت اسلامی افغانستان کے نام کے تحت نافذکرنے جارہے ہیں۔ یہ ان تمام لوگوں کیلئے ایک چشم کشا ، معلومات افزاءو بصیرت افروز تحریر ہوگی کہ جو ابھی تک اس موضوع سے متعلق مخمصے میں ہیں۔


سب سے پہلے تو یہ کہ امارت اسلامی افغانستان نے واضح طور پر اعلان کردیا ہے کہ وہ افغانستان میں مغربی طرز جمہوریت رائج نہیں کریں گے۔ اس سے فوراً ہی مغربی تعلیم یافتہ ، سیکولرلادین ذہنوں میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی ہے کہ افغانستان میں آمریت نافذ ہونے جارہی ہے۔مغرب چونکہ جمہوریت و آمریت کے قطبین (poles) کے سوا اور کچھ دیکھ ہی نہیں سکتا، چنانچہ وہ سخت بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔


ہم یہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ اسلام ہی وہ واحد روحانی، نظریاتی و سیاسی نظام ہے کہ جو مغربی سیکولر جمہوریت اور مشرقی ملحدانہ آمریت کے خلاف ایک طاقتور جوابی بیانیہ پیش کرسکتا ہے۔اسلام تیسرا راستہ ہے اور مندرجہ بالا عالمی نظاموں کے مقابل اپنا منفرد اور برتر سیاسی نظام رکھتا ہے۔


اسلامی نظام سیاست اگر پوری مسلم دنیا پر رائج ہوجائے تو اسے ”خلافت“ کہیں گے۔ اور اگر یہ کسی ایک ملک میں نافذ ہو تو حکمران ”امیر“ ”سلطان“ یا ”بادشاہ“ کہلاتا ہے۔ یہاں اہمیت نظام حکومت اور قوانین کی ہے نہ کہ حکمران کیلئے چنے گئے لقب کی۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان ”امارت اسلامی افغانستان“ ہے۔


اب آئیے اسلام کے سیاسی نظام پر بات کرتے ہیں۔اس ضمن میں جو سوال سب سے پہلے اٹھایا جاتا ہے وہ یہ کہ آیا اسلامی نظام ملائیت(Theocracy) ہے؟ اس کا جواب ہاں بھی ہے اور نہیں بھی۔ مغربی فکر کے مطابق ملائیت میں ملاﺅں یا مذہبی پیشواﺅں کی حکومت ہوتی ہے، اس نقطہءنظر سے اسلامی حکومت ملائیت ہرگز نہیں ہے۔ لیکن اگر ملائیت کی تعریف یوں کی جائے کہ اس میں حکومت تو عام لوگ ہی چلاتے ہیں مگر یہ حکومت شرعی قانون کے تحت چلائی جاتی ہے ، تو ہاں۔۔۔ اسلامی طرز حکومت ملائیت ہے۔


جمہوریت میں اکثریت کی حکومت ہوتی ہے جبکہ آمریت میں یا تو ایک شخص کل اختیار کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ سعودی عرب میں ہے، یا پھرکوئی ایک جماعت کہ جس کی مثال چین ہے۔


جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو حکومت دراصل شریعت کی ہوتی ہے کہ جس کا نفاذ امیر یا سلطان اور اس کی شوریٰ کرتی ہے، نہ کہ اکثریت یا کوئی مطلق العنان آمر! اس بات کو اچھی طرح گرہ میں باندھ لیں۔یعنی اسلامی سیاسی نظام میں میں حکمران اسلامی قانون کا امین اور پاسدار ہوتا ہے اور وہ اس قانون کا اطلاق مشاورت کے ذریعے سے کرتا ہے۔ وہ نہ ایک مطلق العنان بادشاہ ہوتا ہے اور نہ ہی اکثریت کا پابند ایک مجبور جمہوری حاکم۔وہ قرآن و سنت پر چلتا ہے اور اپنے رعایا کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے۔


حقیقی معنوں میں قائم شدہ ایک اسلامی سیاسی نظام میں نہ سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں، اور نہ ہی کوئی حزب اختلاف۔ ایک بار جب امیر کا انتخاب ہوجاتا ہے تو اس کی اطاعت ، اتباع اور احترام تب تک واجب ہوتا ہے جب تک کہ وہ شریعت و قرآن و سنت پر کاربند ہے۔ اسے اپنے مرضی و من مانی کرنے کی آزادی نہیں ہوتی۔ہر چند سالوں کے بعد الیکشن کی نہ کوئی ضرورت ہوتی ہے ، نہ ہی امیر کے عہدے کی مدت کا تعین۔ جب تک وہ سمجھداری اور ذمہ داری سے شریعت کے مطابق کام کررہا ہے ، وہ کرتا رہے گا۔اور جب اس کے جانے کا وقت آئے گا تو مجلس شوریٰ ایک اور بہترین فرد کا انتخاب کرکے اسے امیر بنالے گی۔


اسلامی نظام میں قانون پہلے سے ہی موجود ہوتا ہے، آپ کو فقط ایک راہنما اور شوریٰ کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس کا نفاذ عوام پر رحمت، حکمت اور مضبوطی سے ہوسکے۔ ملک میں کوئی ایسا قانون نہیں بن سکتا جوشریعت سے متصادم ہو یہاں تک کہ امیر کو بھی اس کی اجازت نہیں۔یہ وہ مثالی نمونہ ہے کہ جس کا اطلاق امارت اسلامی افغانستان میں ہوگا،انشاءاللہ۔


یہاں ہم دوبارہ واضح کرتے چلیں کہ مسلم نظام حکومت اگر پوری مسلم دنیا پر رائج ہوگا تو ”خلافت “کہلائے گا، اور اگر کسی ایک ملک میں ہوگا تو ”امارت“ یا ”سلطنت“ کہلائے گا۔اسی لیے افغانستان میں بننے والی نئی حکومت کا نام ”امارت اسلامی افغانستان“ ہے اور اس کے حکمران کو ”امیر“ یا ”امیر المومنین“ کہیں گے۔


جلد آپ افغانستان میں ایک امیر دیکھیں گے کہ جو اکابرین کی شوریٰ رکھتاہوگا کہ جو بطور وزراءاور مشیران اس کے ہمراہ امور سلطنت چلائیں گے۔ یہ استحقاقیت (Meritocracy) ہوگی کہ جس میں اعلیٰ ترین افراد اپنی صلاحیتوں، کردار اور فہم و فراست کی بنیاد پر چنے جائیں گے، نہ کہ اپنی سیاسی وفاداریوں اور اقربا پروری کے بل بوتے پر الیکشن کے ذریعے۔ امیر ، اکابرین کی مشاورت سے چلے گا۔ وہ شرعی قوانین کا پابند ہوگا، جمہور کی رائے کا نہیں۔ اس کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوگا، اگر وہ دائرہ شریعت کے اندر ہے۔ ملک کے ہر فرد کو امیر اور حکومت کا وفادار رہنا ہوگا۔


علامہ اقبالؒ نے اس نظام کو کمال بلاغت سے ”رحمانی آمریت“ یا ”روحانی جمہوریت“ کا نام دیا۔ یہ لطیف و گہرے تصورات ان سیکولر لادین مغربی اذہان کو بظاہر متضاد لگیں گی کہ جن کی تربیت نہایت تنگ و محدود سیاسی نظریات کے ماحول میں ہوئی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بیان کیا کہ چاہے مغرب کا جمہوری تماشا ہو یا مشرق کی استبدادی آمریت، یہ دونوں ہی اپنے جبر و وحشت میں چنگیزی کی نئی شکلیں ہیں۔ان میں قانون خداوندی کی رحمت و رافت نام کو نہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان دونوں ظالمانہ نظاموں نے انسانیت کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں اوریہی آج کا سب سے بڑا سچ ہے!


مندرجہ بالا حقائق کے سبب ہی تمام استبدادی عالمی سیاسی نظام ، خو اہ وہ جمہوریت کے لبادے میں ہوں یا آمریت کی طرح برہنہ، اس تیسرے روحانی نظام سے لرزہ براندام ہیں کہ جو ایک اسلامی فلاحی امارت کی شکل میں افغانستان میں نافذ ہونے جارہا ہے۔


یہ لوگ فاقہ کش و نادار سہی، مگر یہ وہ اعلیٰ ترین روحانی نظریہ رکھتے ہیں کہ جس کی انسانیت کو آج سخت حاجت ہے۔


ایک بات اچھی طرح سے سمجھ لیں ۔ جب بھی آپ امارت اسلامی افغانستان کے خلاف کوئی مکروہ، شیطانی پراپیگنڈہ دیکھیں تو جان لیں یہ حقوق نسواں یا لڑکیوں کی تعلیم کیلئے نہیں کیا جارہا، دراصل امارت اسلامی ان تمام جابرانہ عالمی نظاموں کیلئے سب سے بڑا وجودی خطرہ ہے کہ جو انسانیت کو غلام بنارہے ہیں، خصوصاً آج کے دور میں نئے عالمی نظام اور ”عظیم تشکیل نو“ کے عنوان کے تحت۔


پاکستان جب 1947 ءمیں علامہ اقبالؒ کے نظریہ اور خواب کی بنیاد پر قائم ہوا تو اس کا مقصد بھی اسلام کے سیاسی نظام کا قیام تھا کہ جو دنیا کیلئے ایک مثال ہو اور جسے دیکھ کر دوسرے ممالک بھی اختیار کریںتاکہ انکے پاس مروجہ وحشیانہ، سیکولر ، الحاد پرست جمہوریتوں اور آمریتوں کے مقابل کوئی تیسرا حل ہو۔


اب دیکھنا یہ ہے کہ تحریک طالبان افغانستان کس حد تک اپنے ملک میں ایک اسلامی امارت قائم کرنے کا اپنا خواب پورا کرپاتی ہے۔اس وقت افغان طالبان پوری انسانیت کی بقاءکی جنگ لڑ رہے ہیں کہ جن کو عالمی جابرانہ نظاموں نے غلام بنا رکھا ہے۔ تمام انسانیت کی بقاءکیلئے اس سے زیادہ فیصلہ کن گھڑی کوئی نہیں رہی ہوگی۔



https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/photos/a.1643903065664498/4286465338074911/?type=3&__xts__[0]=68.ARBD4m59ITdbUdV3nwQpOhVzqcgWaFF1mXKo4O75bwx0rCryO1PJ5iIoMUSpCMGSp8Usvtb-s3BuNdOsy4-_Hgwbrl4kWoZj9rYE_d40KgqH5h6ojwZ9H76HO6xW94V5Wj5vZdgVJQJSNKzEOwNbq6p3-Zoarcj3dyg2kiiCoRS9mU6mXq_uPA2_9tS4rV7uhpjvCo03ovk0lVzGupkADgamrHOWG2WNhOjjqfanKu08yhqHIgJE_I6WRXAIuaUb3sOde-KCmbDVwijPr8ha81Oipdkhhq6ST2Q6IxN-SQDGhh5zZeTtIw

No comments:

:)) ;)) ;;) :D ;) :p :(( :) :( :X =(( :-o :-/ :-* :| 8-} :)] ~x( :-t b-( :-L x( =))

Post a Comment