صدارتی نظام اور ’’اسلامی صدارتی نظام‘‘ میں فرق کیا ہے؟
صدارتی نظام اور ’’اسلامی صدارتی نظام‘‘ میں فرق کیا ہے؟
جونہی اسلامی صدارتی نظام کی صدائیں بلند ہوئیں، تو فوراً ہی غلیظ پارلیمانی جمہوریت کے پجاری اس کے بارے میں ابہام اور شک پیدا کرنے کیلئے پٹے توڑا کر بھونکنا شروع ہوگئے۔
آج ہم اس ابہام کو حل کردیتے ہیں۔۔۔
مارشل لاء اور جمہوریت کا مقابلہ کیا جائے تو اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ پاکستان نے مارشل لاء کے ادوار میں بے انتہا ترقی کی ہے اور پاکستان کی مکمل تباہی صرف اس نام نہاد جمہوریت میں ہی ہوئی ہے۔ مگر پھر بھی مارشل لاء کے دور میں صدارتی نظام ہرگز’’اسلامی صدارتی نظام‘‘ نہیں تھا۔
اسلامی صدارتی نظام ایک حیرت انگیز اور انتہائی متحرک نظام حکومت ہے۔ یہ اتنا غیر معمولی، ترقی پسند، جدید اور اتنا ہمہ گیر ہے کہ جدید دور میں کوئی بھی سیاسی نظام اس کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا، لہذا غلام ذہن اس کے جاہ و جلال کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔
اسلامی صدارتی نظام کی اگر کوئی قریب ترین مثال دی جاسکتی ہے تو وہ خلافت راشدہ کا نظام ہے۔ چاروں خلفائے راشدین اگر آج کی زبان میں بات کی جائے تو ’’اسلامی صدر‘‘ تھے۔
ان کے پاس انتہائی قابل ترین اور مخلص ترین ’’ٹیکنوکریٹس‘‘ کی ایک بڑی ٹیم تھی، ہر قابل شخص مشورہ دینے کے لائق تھا، مگر حتمی فیصلہ ’’صدر‘‘ کے ہاتھ میں ہی تھا۔
سیدنا عمرؓ نے اپنی شہادت کے وقت اگلے ’’اسلامی صدر‘‘ کا جو طریقہء کار اختیار فرمایا، وہ آج بھی ہمارے لیے باعث تقلید اور حیرت انگیز مشعل راہ ہے۔
آپؓ نے چھ قابل ترین بزرگوں کی فہرست بنائی اور پھر پوری قوم سے کہا کہ ان میں سے جن کو چاہو اپنا ’’صدر‘‘ چن لو۔
سیدنا عمرؓ کے نظام میں ایک قابل ترین وجود نے چھ قابل ترین بزرگ ہستیوں کا انتخاب کیا اور پھر ان میں سے حکمران کا انتخاب پوری قوم نے۔
یہ اعلیٰ ترین سلیکشن بھی تھی اور شفاف ترین الیکشن بھی۔
یہ اتنا جدید ترین نظام تھا کہ آج تک اس سے بہتر سیاسی نظام بنایا ہی نہیں جاسکا۔
دین اسلام کا کمال ہی یہ ہے کہ یہ اس قدر متحرک ہے کہ ہر دور اور ہر زمانے میں جدید ترین ہی رہتا ہے۔ اس کے نظام سیاست و حکمرانی میں فوجی یا سول حکمران کا فرق سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ تمام مسلمان حکمران، سیدی رسول اللہﷺ سے لیکر آنے والی صدیوں تک، خود ہی سپہ سالار بھی تھے اور سیاسی لیڈر بھی۔
آپ ایک مسلمان حکمران کو ’’امیر‘‘ کہیے، ’’سلطان‘‘ کہیے، ’’خلیفہ‘‘ کہیے یا پھر ’’صدر‘‘۔۔۔۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اقبالؒ فرماتے ہیں کہ اگر مغرب کو لفظ ’’اسلام‘‘ سے چڑ ہے تو اسی اسلام کا دوسرا نام ’’فقر غیور‘‘ ہے۔
اسلامی صدارتی نظام میں کابینہ بھی متحرک ہوگی، صدر کی جانب سے نامزد ہوگی، نہ کہ انتخابات کے نتیجے میں منتخب۔
متحرک کابینہ کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی قابل شخص ہو اس سے مشورہ لیا جاسکتا ہے، ذمہ داری دی جاسکتی ہے، اور پھر کام نہ کرنے کی صورت میں فوری معزول بھی کیا جاسکتا ہے۔
اسلامی نظام سیاست میں منتخب پارلیمان کا سرے سے کوئی تصور ہی موجود نہیں ہے۔ ہمارے نظام حکومت میں اکثریت کی رائے سے نہیں شریعت کی رائے سے فیصلے ہوتے ہیں، چاہے اکثریت ان کی مخالف ہی کیوں نہ ہو۔
مسلمانوں کے تمام امور شوریٰ سے طے ہوتے ہیں، اور ہر مسلمان مشورہ دے سکتا ہے۔
اسلامی نظام حکومت میں کوئی لکھا ہوا دستور یا آئین نہیں ہوتا۔
قرآن و سنت، اجماع و اجتہاد ایک ایسے متحرک اور انقلابی نظام سیاست کی بنیاد رکھتے ہیں کہ جس میں آزاد قومیں زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق اپنی آزادی اور غیرت برقرار رکھنے کیلئے ہر قسم کے فیصلے کرنے میں آزاد ہوتی ہیں، نہ کہ انسان کے لکھے ہوئے بوسیدہ دستور کے غلام۔
کافروں نے بھی اپنا نظام حکومت مسلمانوں سے سیکھا ہے۔
انگلستان میں آج بھی لکھا ہوا دستور یا آئین نہیں ہے۔ سوچیں تو ذرا کیوں؟؟
وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی روایات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی ضروریات کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔
یہ عین اسلامی تصور ہے کہ جو اللہ نے اپنے آزاد بندوں کیلئے تجویز کیا ہے۔
آج اگر پاکستان میں ہم اسلامی صدارتی نظام نافذ کرنے کی بات کرتے ہیں تو اس کا طریقہء کار کیا ہوگا؟
یہ وہ سوال ہے کہ جو آج کی نوجوان نسل کے ذہن میں ہے، اور اس کے بارے میں منافقین بہت ابہام پھیلاتے ہیں۔
طریقہء کار وہی ہوگا کہ جو سیدنا عمرؓ نے اختیار کیا تھا۔
پورے پاکستان میں سے پانچ یا چھ اعلیٰ ترین، قابل، مسلمان، محب وطن وجود کہ جو خود اقتدار کی ہوس نہ رکھتے ہوں، صدر کے امیدوار کے طور پر، منتخب کیے جائیں گے۔
اور پھر پوری قوم ان میں سے براہ راست صدر کا انتخاب کر لے گی۔
صدارتی امیدواروں کے انتخاب کیلئے ایک طاقتور ترین غیر جانبدار کمیشن تشکیل دیا جائے گا کہ جس میں ریاستی اداروں، سپریم کورٹ، مسلح افواج، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور معاشرے کے مستند دانشوروں کی ایک جماعت پوری تحقیق و تفتیش کے بعد، ساری زندگی کی کارکردگی اور قابلیت سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرے گی۔
صدارتی امیدوار کیلئے کوئی شخص خود اپنے آپ کو پیش نہیں کرسکتا۔
سیدی رسول اللہﷺ کی واضح ترین حدیث مبارکہ ہے کہ جس کا مفہوم ہے کہ ’’ہم ہرگز ایسے کسی شخص کو اپنا حکمران نہیں بنائیں گے جو خود عہدے کی طلب کرے‘‘۔
اسلامی صدارتی نظام میں منتخب صدر قرارداد مقاصد کے مطابق قرآن و سنت کے احکامات کے تابع فیصلہ کرنے کا پابند ہوگا۔ اس طرح وہ کوئی مطلق العنان ڈکٹیٹر بن ہی نہیں سکتا، بلکہ اللہ کے دین کا محافظ ہوگا۔وہ طاقتور اور با اختیار ہوگا اور پورے ملک سے اعلیٰ ترین افراد کا انتخاب کرے گا۔
اسلامی صدارتی نظام میں ملک چلانے کیلئے جن قابل ترین افراد کا انتخاب کیا جائے گا ان کی تصدیق اور چھان بین بھی وہی طاقتور کمیشن کرے گا کہ جو پہلے صدارتی امیدواروں کا انتخاب کرچکا ہوگا۔
یہ ایک طرح سے ایسی طاقتور قومی ’’جے آئی ٹی‘‘ ہوگی کہ جو حکمرانوں پر کڑی نگاہ رکھے گی۔
اسلامی صدارتی نظام میں نہ تو یہ حرام خور سیاسی جماعتیں ہونگی کہ جو صوبائیت، قومیت، لسانیت یا فرقہ واریت کی بنیاد پر ووٹ مانگتی ہیں اور نہ ہی ایسی ناپاک پارلیمان ہوگی کہ جہاں کروڑوں اور اربوں لگا کر سیاسی لٹیرے ملک لوٹنے کیلئے آتے ہوں۔
اسلامی صدارتی نظام میں پارلیمان ضرور ہوگی، مگر ایسی پارلیمان کہ جس میں تمام قومی اداروں کی نمائندگی ہو۔ کسانوں سے لیکر مسلح افواج تک، ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے والا ہر طبقہ اپنی نمائندہ تنظیموں کے ذریعے پارلیمان میں موجود ہوگا اور ملکی ترقی و قانون سازی کے حوالے سے اپنے مشورے دے سکے گا۔
آج خود تحریک انصاف میں اسلامی صدارتی نظام کیلئے آوازیں بلند کی جارہی ہیں۔ مگر ایک بات ہم بہت اچھی طرح واضح کردیں۔
اسلامی صدارتی نظام کیلئے ریفرنڈم کرانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عمران خان براہ راست صدر بھی منتخب ہوجائیں۔
صدر کے انتخاب کا طریقہ ہم پہلے ہی بتاچکے ہیں۔
اسلامی صدارتی نظام میں طاقتور صدر ملک کا سیاسی رہنما بھی ہوگا اور سپہ سالار اعلیٰ بھی۔ مسلح افواج کی قیادت، مشیروں اور وزیروں کا انتخاب، عدلیہ کے ججوں کی تعیناتی اور قومی اور ریاستی اداروں کے سربراہان کا تعین صدر کا اختیار ہوگا کہ جو اپنے مشیروں اور کابینہ کی رائے سے فیصلے کرے گا۔
علامہ اقبالؒ نے اسلامی صدارتی نظام کی تشریح کچھ اس طرح کی ہے کہ یہ وہ نظام حکومت ہے کہ جس میں ’’جنیدی‘‘ اور ’’اردشیری‘‘ ایک جگہ جمع ہوجائے گی۔ یعنی ایسا شیر دلیر حکمران کہ جو سیاسی اور فوجی طاقت بھی رکھتا ہو اور اپنے قلب میں ایک روحانی وجود بھی۔
اسلامی صدارتی نظام کا حیرت انگیز تصور نہ پارلیمانی جمہوریت ہے، نہ مارشل لاء، نہ جدید سیاست کا نظام صدارت اور نہ ہی مطلق العنان ڈکٹیٹرشپ۔
جن غلاموں نے اسلام کا روحانی سیاسی تصور جانا اور سمجھا ہی نہیں ہے ان تنگ نظر، اندھے گونگے اور بہرے غلاموں سے یہ توقع کرنا کہ اس بحر بیکراں کا احاطہ کرسکیں، ایک ناممکن امر ہے۔
اسلامی صدارتی نظام آزاد قوموں کا نظام حکومت ہے، کیونکہ بقول اقبال: ’’خدائے زندہ بھی زندوں کا ہی خدا ہے۔‘‘
ہم نے پاکستان بنایا ہی اسی لیے تھا کہ یہاں پر اسلام کے دائمی اور ابدی روحانی سیاسی و عسکری و معاشی نظاموں کو نافذ کرکے دنیا کیلئے ایک نئی مثال قائم کریں۔
قائداعظمؒ نے پاکستان کو ’’اسلام کی لیبارٹری‘‘ قرار دیا تھا، تاکہ یہاں ہم ایک نیا تجربہ کریں کہ جو اس سے قبل صدیوں میں کبھی نہیں کیا گیا۔
صدیوں کی غلامی کے بعد پاکستان اس لیے نہیں بنایا گیا تھا کہ یہاں ہمیشہ کیلئے انگریزوں کے بنائے ہوئے اینگلو سیکسن پارلیمانی نظام کی بدبودار لاش کو جمہوریت کے نام پر گھسیٹا چلا جائے۔
پچھلے گیارہ سال کی جمہوریت نے تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کو آزما لیا ہے۔ جو افراتفری آج کی حکومت میں مچی ہوئی ہے، اس سے تو بالکل واضح نظر آتا ہے کہ آنے والے دور میں نہ تو کوئی اور الیکشن ہونگے اور نہ ہی پارلیمانی نظام کی لاش کو گھسیٹا جاسکے گا۔
نظام تو اب بدلنا ہی ہے ، تو بہتر نہیں کہ اب ہم اپنے دین کی جانب لوٹ جائیں؟؟؟
قائداعظمؒ سے جب پوچھا گیا کہ پاکستان کا آئین کیا ہوگا؟ تو اس پر قائداعظمؒ نے جواب دیا کہ میں کون ہوتا ہوں اس ملک کو آئین دینے والا، جبکہ ہمارے پاس تیرہ سو برس قبل قرآن و سنت کی شکل میں دستور پہلے سے ہی موجود ہے۔
اب اللہ صرف ایسے مرد آزاد تلاش کررہا ہے جو اس ’’دستور‘‘ کو نافذ کرسکیں۔
https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/posts/2129168307137969?__tn__=K-R
This is most serious thought provoking piece for the living souls....only the wisest and the most fortunate will ponder deep...
Read all before you start to comment... All sarcastic, silly, ignorant & abusive posts will be blocked parmanantly....
This is most serious thought provoking piece for the living souls....only the wisest and the most fortunate will ponder deep...
https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/photos/a.109687115752775/2129190193802447/?type=3&__xts__%5B0%5D=68.ARC9BAUcqCtoUCQFIRKOdT-b_5GwXpyGcFZ-mxOK03GCtVEGOZJQAFZFH51HESLpyrvoYnBOexsyfPZCNTLNLZBL3ZyUbSXo_PBGK0cxS1vn6Jn5ibnLsWZzqtmPH_TFCGE49yoqe2NbVC0BO0ps6LNP9bRLT-Izsmm0E2aubgDLJ9vA_POYapSmNg4QqKpcn6j-xqNRVVPwyWiVGMOX9YnM2aXFMeLMcAabULX8QseLO8G1-pVGgSJMztKvLtR9vfP2InlN9C4U-O0iVjeLcKbHKUQ1SewqPspZELn_ZGOXDkEfFHbeBC1Vqmv8o-7dJuqfzkzbXfdAhxrf422R9bhFlQ&__tn__=-R