Saturday, 8 December 2018

December 3rd, 2018

ظلم‘‘، انصاف کے جنازے کو ہی کہتے ہیں۔۔۔

اگر کوئی بھی شخص اپنی آمدنی سے زائد اثاثے رکھتا ہے، تو یہ کافی ہے اس کو مجرم ٹھہرانے کیلئے۔

یہ مذاق بند کریں۔۔۔



جب سیدنا عمرؓ سے دو چادروں کے بارے میں سوال کیا گیا، تو یہ حقیقت میں ’’آمدنی سے زیادہ اثاثوں‘‘ کا ہی کیس تھا۔

سیدنا عمرؓ نے اسی لمحے اپنی ’’اضافی چادر‘‘ کا ثبوت پوری عدالت کے سامنے پیش کیا، اور اسی لمحے یہ کیس خارج بھی ہوگیا۔

اسلامی شرعی قوانین میں اور اس کے ساتھ ساتھ نیب کے قوانین میں بھی ’’آمدنی سے زائد اثاثے‘‘ رکھنا خیانت اور جرم تصور کیا جاتا ہے۔

جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ضرورت ہی پیش نہیں آنی چاہیے تھی کہ نواز شریف کا مقدمہ نیب کی عدالت میں بھیجا جاتا۔ یہیں تو انصاف کا قتل ہوتا ہے۔۔۔۔

موجودہ حکومت کو بڑے وسیع پیمانے پر جرأت اور دلیری کے ساتھ قوانین اور ان کے نفاذ میں تبدیلیاں لانی ہونگی۔

نظام بھی غلیظ ہے، قوانین بھی فرسودہ ہیں، ان کے نافذ کرنے والے بھی خائن اور ڈاکو۔

’’ظلم‘‘، انصاف کے جنازے کو ہی کہتے ہیں۔۔۔

اگر کوئی بھی شخص اپنی آمدنی سے زائد اثاثے رکھتا ہے، تو یہ کافی ہے اس کو مجرم ٹھہرانے کیلئے۔

یہ مذاق بند کریں۔۔۔

تین برس ہوگئے ہیں نواز شریف کا مقدمہ حرام خور وکیلوں کے ذریعے لٹکتا ہی جارہا ہے، استغفراللہ۔۔۔

پاکستان میں ایک اور جو بہت بڑا ظلم ہے وہ یہ کہ وراثت کی تقسیم شریعت اور قانون کے مطابق نہیں کی جاتی۔

عدالتوں سے وراثت نامہ بنوانا بھی ایک ناممکن اور مہنگا امر ہے۔

وراثت نامے اب نادراکو جاری کرنے چاہئیں کہ جس کے پاس پورے خاندان کا ریکارڈ موجود ہوتا ہے۔

اگر ملک میں وارثت شرعی حقداروں کو قانون کے مطابق تقسیم ہونے لگے ،تو پورے معاشرے میں خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوجائے گا۔ دولت چند ہاتھوں میں محدود رہنے کے بجائے معاشرے میں تقسیم ہونے لگے گی اور معاشرے کے کمزور طبقے، یتیموں اور بیواؤں پر ہونیوالا ظلم بھی بند ہوجائے گا۔

اسی طرح دستاویزات کی گریڈ 18 کے افسروں سے تصدیق کا غلامانہ نظام بھی فوری طور پر ختم ہونا چاہیے۔ ہر پاکستانی شہری، یا درخواست کنندہ خود ہی اپنے کاغذات کی تصدیق کرے۔ اگر جھوٹی تصدیق کرے تو خود نتائج کا ذمہ دار بھی ہو۔

ہمیں کشمیر، گلگت، بلتستان کو ملا کر ایک نیا صوبہ تو لازماً بنانا ہے، مگر جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانے کی کوئی تُک نہیں ہے۔

اچھی طرح سمجھ لیں کہ عدل و انصاف اور ’’گڈ گورننس‘‘ نئے صوبے بنانے سے نہیں آتی، اچھے اور عادلانہ قوانین اور نیک اور صالح حکمرانوں کے ذریعے، ان کے نفاذ سے آتی ہے۔

جب ملک میں قوانین انگریز سامراج کے چھوڑے ہوئے ہوں، پولیس اور عدالتیں 1860 ء کے ظالمانہ نظام کے تحت چلیں، انصاف لینا ناممکن امر ہو، وکالت کا پیشہ جھوٹ بولنے کا دوسرا نام ہو، انصاف کیلئے عمر نوح، صبر ایوب اور خزانہ قارون درکار ہو، تو پھر جتنے مرضی صوبے بنالیں، ظلم ہی رہے گا۔۔۔۔

کیا کبھی ایسا ممکن ہے کہ ایک عام شخص عدالت سے مفت اور فوری انصاف لے سکے؟؟؟؟؟؟؟؟

کیا یہ ممکن ہے کہ وکیلوں کو ہزاروں لاکھوں روپے ادا کیے بغیر اور سالوں انتظار کے بغیر بھی انصاف مل جائے؟؟؟؟؟؟؟

جب ایسا ہوگا، تب ’’نیا پاکستان‘‘ بنے گا۔

پاکستان کے عدالتی نظام میں فرعونوں والا ظلم ہوتا ہے۔ جھوٹے مقدمے، جھوٹی گواہیاں، جھوٹی پولیس، جھوٹے وکیل، کمزور اور بزدل جج، ڈیڑھ سو سال پرانا گلا سڑا انگریزوں کا چھوڑا ہوا نو آبادیاتی قانونی نظام۔۔۔۔

اگر اس نظام کو تبدیل نہ کیا تو جو مرضی بکواس کرلیں، ’’نیا پاکستان‘‘ نہیں بنے گا۔

پاکستان کے عدالتی نظام کی سب سے شرمناک بات یہ ہے کہ یہاں نہ جھوٹے مقدمات قائم کرنے پر کسی کو کوئی سزا ہے، اور نہ ہی ججوں کو جھوٹے اور غلط فیصلے کرنے پر احتساب کا ڈر۔

بیس بیس جیل کاٹنے کے بعد بے گناہ اگر رہا ہو بھی جائے تو اس کو جیل میں رکھنے والے، مدعی، پولیس اور جج پھر بھی ناقابل گرفت۔

اسلامی عدالتی نظام میں کوئی وکیل نہیں ہوتے۔

مدعی براہ راست قاضی کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرتا ہے۔ جس کے خلاف مقدمہ ہوتا ہے اسے قاضی خود طلب کرتا ہے۔ آمنے سامنے دونوں کو بٹھاتا ہے، خود تحقیق کرتا ہے اور فیصلہ سنا دیتا ہے۔ کسی کا ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوتا، ایک دن بھی ضائع نہیں جاتا۔

اسلامی نظام عدل میں زور صرف اس بات پر ہوتا ہے کہ اللہ کے قانون کے مطابق فوری طور پر عدل اور انصاف کیا جائے۔

قانونی پیچیدگیاں، مقدمے کے طریقہء کار، وکلاء کے دلائل اور کاغذی کارروائیاں، وجود ہی نہیں رکھتیں۔

مقصد فوری انصاف ہوتا ہے، نہ کہ کمائی اور کیس لٹکانا۔

انصاف کا حصول جب بھی کسی پیشہ ور طبقے کی کمائی کا ذریعہ بنے گا، اسی لمحے سے نظام عدل، نظام ظلم میں تبدیل ہوجائے گا۔

شرعی اعتبار سے وکالت کا پیشہ ہی حرام ہے، جیسے کہ بینکر کی سودخوری یا صحافی کے جھوٹ۔ یہ سارے پیشے شیطان کے ایجاد کیے ہوئے ہیں۔

آج کفر کا پورا نظام تین پیشوں پر کھڑا ہے۔ اگر ان پیشوں کی جڑ نکال دی جائے، تو کفر کا پورا نظام بھی دھڑام سے آگرے گا۔

-1 سود خور بینکر

-2 انصاف فروش وکیل

-3 قلم فروش صحافی

ان تین پیشوں کے ہوتے ہوئے ملک میں کبھی شریعت نافذ نہیں ہوسکتی۔

https://www.facebook.com/syedzaidzamanhamid/photos/a.1643903065664498/1936762459711889/?type=3&theater

No comments:

:)) ;)) ;;) :D ;) :p :(( :) :( :X =(( :-o :-/ :-* :| 8-} :)] ~x( :-t b-( :-L x( =))

Post a Comment